اکیسویں صدی کا ترقی یافتہ انسان جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بنیاد پر انہونی کو ہونی اور ہونی کو ناممکن بنانے میں مگن ہے، شدید قسم کے معاشرتی انحطاط اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو اپنا غلام بنانے والا انسان اپنی اصل زندگی میں حیوانی جبلتوں کا شکار اور مادیت کا غلام ہو کر اس کی بقا کے بنیادی عنصر خاندان کے آفاقی تصور پر نقب لگانے میں مصروف ہے. مؤرخ لکھے گا کہ جس وقت انسان سائنسی ترقی کی انتہا پر پہنچا تو انفرادیت اور مادیت پسندی کی انتہا پر پہنچا تو انفرادیت اور مادیت پرستی کی تحریک نے اسے نفسانی خواہشات کا غلام بنا دیا. یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اوائل سے ہی انسانیت کی فلاح وبقا کے ادارے خاندان کے نت نئے تصورات پیش کیے جانے لگے، جن کی بنیاد شہوت وزر کی غلامی کے سوا کچھ نہیں ہے .
خاندان وہ پہلا ادارہ ہے جو اس دنیا میں قائم ہوا اور جس کو خالق کائنات نے حضرت آدم اور حوا علیہ السلام کو زمیں پر اتارتے ہی قائم کیا اور قیامت تک کے لئے رائج کر دیا۔ انسان کی جبلت کو اجتماعیت پسند بنایا اور اس کو اپنی جسمانی بقا ونشونما اور تحفظ و تعارف کے لیے ماں باپ، بہن بھائیوں، ددھیال اور ننھیال کا محتاج بنا دیا۔ یہ محتاجی دراصل خاندان کے ادارے کوہر دم محفوظ بنانے کا داعیہ پیدا کرنے کا سبب بھی قرار پائی ۔ انسانی تاریخ کے ہزاروں برس ایسے گذرے جس میں خاندان کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے کی اجتماعی خواہش یا کوشش نظر نہیں آئی . حضرت لوط علیہ السلام کے دور میں عمل قوم لوط کو پروان چڑھانے کا جو اجتماعی کردارتاریخ کا حصہ ہے، وہ پیغمبر کے آنے کے بعد بھی ترک نہ ہوا تو نتیجتا اس قوم کے محض نشانات عبرت ہی باقی رہ گئے۔
گویا خاندان دراصل عورت اور مرد کے مذہب اور قانونی طریقہ کار کے مطابق ملاپ کے نتیجے میں بننے والا وہ ادارہ ہے جو کہ حیاتیاتی ، نفسیاتی اور سماجی عوامل کے حامل ایک دارے کی حیثیت بھی رکھتا ہے. اس اعتبار سے خاندان افزائش نسل ، پرورش ، تحفظ ، خود شناسی اور رشتوں کے احترام وقدر کے ساتھ معاشرتی رسوم ورواج ، اخلاقی اقدار ،مثالی نظریات ، حاصل کردہ معلومات اور متاع کو اگلی نسل تک منتقل کرنے جیسے عوامل کو عملی جامہ پہنانے کا حامل ایک عظیم اور بنیادی ادارہ ہے. اس کے برعکس جدید دنیا نے ترقی وٹیکنالوجی کے نام پر مادیت پرستی کے نتیجے میں خاندان کے ادارے کے بنیادی تصور کو خلط ملط کر کے من مانی تعبیرات اور مباحثے نکالنے شروع کیے ہیں۔ بدلتے طرز زندگی ، صارفیت پسندی، مادہ پرستانہ تصورات ، پوسٹ ماڈرن کلچر نے کیرئیر اور پیسے کو غیر معمولی اہم بنا دیا ہے۔ انسان اپنی فظری ضروریات کی تکمیل غیر ذمہ دارانہ طریقے سے پوری کرنا چاہتا ہے تاکہ ذمہ داریاں اس کے کیرئیر اور معاش میں رکاوٹ نہ بن جائیں. اس کا لازمی نتیجہ جنسی بے راہ روی اور خاندان بیزاری کی شکل میں برآمد ہو رہاہے۔ جدید دنیا میں خاندان کا سب سے بڑا چیلنج بچوں کی پرورش اور نسبی اور صہری رشتوں کو نبھانا ہے. خاندان کی بقا کے لئے اعتماد ،محبت ایثار وقربانی اور قدر دانی جیسے اعلی انسانی اوصاف کمزور ہوتے جا رہے ہیں. مغربی اور مشرقی معاشروں مین مذیب سے دوری نے عورت اور مرد کے تعلق اور حقوق و فرائض کے حوالے سے ظلم وزیادتی کا بازار گرم کر دیا اور رفتہ رفتہ احساس محرومی کی تحریکوں نے باغیانہ رنگ اختیار کیا اور معاشرتی حقوق وفرائض کو صنفی جنگ میں تبدیل کر دیا۔ اب ترقی وکامیابی کا معیار معاشرتی وقومی ترقی کے بجائے عورت کی ترقی، عورت کے حقوق عورت کی آزادی جیسے مبہم نعروں سے جوڑ کر خاندان کے ادارے کو نیست ونابود کرنے اور ہم جنس پرستی، سنگل پیرنٹنگ، اور جسم فروشی کو پروفیشن بنانے کے حق میں علی الاعلان مظاہرے اور قانون سازی کی سفارشات مرتب ہونی شروع ہو گئی ہیں۔
خاندان اپنی ہئیت اور اثر پذیری کے حوالے سے اگر کہیں موجود ہے تو وہ مسلم ممالک ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں دنیا کو ایک ویلیج سمجھنے کی جو تھیوری گذشتہ صدی کے اواخر میں متعارف کرائی گئی اورڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ابلاغ کے برق رفتار عمل کے نتیجے میں خاندان کے حوالے سے تہذیب غالب کی مہم جوئی کے اثرات مسلم معاشروں اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں بہت نمایاں نظر آرہے ہیں . ہمارے ارد گرد ماہرین عمرانیات و سماجیات کے تجزیے ،رپورٹس نیز سائکالوجسٹ ، سائیکاٹرسٹ ،وکلا اور سماجی تنظیموں کا فراہم کردہ ڈیٹاہمارے خاندانی نظام کے حوالے سے بہت خوشگوار نہیں ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے چلائی جانے والی آگاہی مہمات نے حقوق وفرائض کا شعور بیدار کرنے اور معاشرتی رویوں اور زیادتیوں کے خلاف ڈھال بننے کے بجائے آزادئی نسواں اور ترقئی نسواں کے مسحور کن نعروں کے ساتھ خاندان کے ادارے میں دراڑیں ڈالنے کا فریضہ انجام دیا ہے. ہمارے معاشرے میں طلاق وخلع کے واقعات میں گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان ہوشربا اضافہ ہوا ہے، طلاق وخلع کے حق پر اتنی بات ہوئی کہ نوجوان جوڑے معمولی اختلافات اور تنازعات پر طلاق وخلع کے آخری راستے کو فرسٹ آپشن کے طور پر اختیار کرنے لگے ہیں. خاندانوں کے ٹوٹنے کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نو بیاہتا جوڑوں کے علاوہ، کمسن بچوں والے جوڑے جو ایک عرصہ ساتھ رہتے رہے اور جوان اولادوں والے پچاس سال سے زیادہ عمر والے ازدواج کے درمیان بھی علیحدگی اور طلاقوں کے واقعات کی کثرت ہو گئی ہے. اپنے ارد گرد کے جائزے میں کچھ عوامل بہت نمایاں نظر آئےجو خاندان کی شکست وریخت کا سبب بن رہے ہیں. ذیل میں کوشش کی گئی ہے کہ ان مسائل کو کو نشان زد کیا جائے جو خاندان ٹوٹنے کا سبب بن رہے ہیں.
خاندان کے بنیادی اسٹڑکچر سے لاعلمی
ہمارے معاشرے میں جو کہ ایک ایسا روایتی معاشرہ ہے جو صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہا اور تقسیم ہند کے بعد بھی نسل در نسل بہت سے تصورات محض روایتا منتقل ہوتے رہے، ان کی کوئی عقلی ، مذہبی سند یا دلیل موجود نہیں، لیکن اس پر ظلم کی حد تک اصرار پایا جاتا ہے. خاندان دراصل نکاح کے ذریعے زوجین کے ملاپ سے وجود میں آنے والاادارہ ہے جو بتدریج والدین، اولاد اور بہن بھائیوں کے رشتوں اور عورت اور مرد کی نسبت سے پہلے سسرالی اور پھر بچوں کے ننھیال اور ددھیال کی شکل میں وسعت اختیار کرتا ہے. خاندان کا انتظامی سربراہ مرد ہے، وہ مرد جو باپ ہے، جب اپنے بیٹے کی شادی کر دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں دوسرا خانداان وجود میں آتا ہے. اب ہر نیا خاندان جو وجود میں آیا ہے، اس کا انتظامی سربراہ شوہر اور بچوں کا باپ ہے، اور اس گھرانے کے زوجین اپنے اپنے خاندان کو تعمیر سیرت کے ذریعے معاشرےاور قوم کے لیے خیر کے قابل بنانے کے ذمہ دار ہیں. یہ ذمہ داری صاحب اختیار ہونے کا تقاضا کرتی ہے. تنازعہ یہاں سے شروع ہوتا ہے، اکثر گھرانوں میں وہ والدین جو کہ اب سا سسر اور دادادادی ہیں، اپنا حق سمجھتے ہیں کہ بیٹوں کے گھرانے میں ان کا فیصلہ نافذ ہو ۔ حقوق کی ادائیگی اور احترام کے حوالے سے ان کا خیال رکھنا یقینا زوجین کی ذمہ داری ہے، لیکن اس وجہ سے ان کو ان کے دائرے میں اختیار و نفاذ کی آزادی سے محروم کرنے کو اپنا حق سمجھنا اور اولاد (بیٹے) یا بہو کا اپنے گھر کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا والدین کی نا فرمانی سے تعبیر کرنا دراصل علم و فہم کی کمی ہے۔ بعض دفعہ حقوق والدین کے نام پر یہ دخل اندازی اس حد تک ہوتی ہے کہ زوجین کے بیڈروم تک پہنچ جاتی ہے اور بعض دفعہ کئی رشتوں کے ساتھ قطع تعلق کے مطالبے میں ڈھل جاتی ہے. اس صورتحال میں دو نتائج نکلتے ہیں اور دونوں ہی تکلیف دہ ہیں. اول یہ دخل در معقولات خاندان کو توڑنے پر منتج ہوتی ہے یا پھر زوجین زندگی بھر اپنے نفس کے حقوق مارتے رہتے ہیں، اور ایسی متعدد مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں کہ ماں باپ کی اس صبر اور بے بسی والی زندگی کے مشاہدے کے بعد اولاد عموما لڑکیاں نکاح سے خائف اور لڑکے خاندان سے بیزار ہو کر اپنی دنیا بسانےکے قائل ہو جاتے ہیں. میں ایسی بہت سی ماؤں کو جانتی ہوں جنہوں نے اپنی زندگی کے منفی اثرات و مشاہدات سے بچاتے ہؤے اپنی بچیوں کو صبر اور ایثار کے چلن چکھا کر اپنے گھر بسانے کے قابل بنایا مگر ان مسائل کی وجہ سے دس ، بیس اور تیس سال کے ازدواجی تعلقات کو ٹوٹتے بھی دیکھا ۔
دو انتہائیں :
یہ بھی مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کو قائم اور ختم کرنے، دونوں حوالوں سے دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ جہاں ایک جانب معمولی تنازعات ،کمزوریوں کوتاہیوں یا بد گمانیوں پر آخری اسٹیپ یعنی علیحدگی کو فرسٹ اسٹیپ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب انتہا درجے کے ظلم ،زیادتی اور حق تلفیوں کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنے کو ترجیح دے کرپوری زندگی گزار دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں خاندان کے قیام کے بنیادی مقاصد ہی پورے نہیں ہوتے۔ اس صورتحال کا سبب ہندووانہ اور روایتی معاشرے سے اخذ کیا گیا وہ تصور ہے جس کے مطابق ایک دفعہ شادی کر کے گھر کی دہلیز پار کرنے والی لڑکی کا سسرال سے جنازہ ہی نکل سکتا ہے ، اس تصور پر یقین رکھنے والے خود بھی خاندان کے قیام کے مقاصد سے آگاہ نہیں ہوتے اور نہ ان کی اگلی نسل اس سے مانوس ہوتی ہے ۔ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ لڑکا نفسیاتی مریض ہے اور لڑکی اس کے ساتھ زبان بند کر کے تشدد بھی سہہ رہی ہے کہ گھر بچا رہے. وقت کے ساتھ ساتھ مرض بڑھتا اور اس کے مصائب بھی بڑھتے جاتے ہیں مگر خلع کا آپشن اسے حرام لگتا ہے کہ نہ اس کا علم اس کی رہنمائی کرتا ہے اور نہ اہل خانہ، اور معاشرہ دبنے والے کو دبانے اور ڈرنے والے کو ڈرانے کے اصول پر کاربند رہتا ہے۔ ہمارے والدین بچوں اور بچیوں کو صبر و ایثار کے سبق پڑھانے کے ساتھ وہ استثنائی صورتیں کبھی ڈسکس ہی نہیں کرتے جس پر صبر کے وہ مکلف نہیں اور وہاں انھیں اپنا شرعی حق استعمال کرنا چاہیے ۔
شادی کی تیاری
نکاح کی تقریب یعنی شادی تیاری کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں جہیز و بری کی تیاری اور شادی ولیمہ مایوں مہندی وغیرہ وغیرہ کے حوالے سے منصوبہ بندی ،تخمینہ اور مختلف تجربہ کار لوگوں سے مشاورت کا تصورآتا ہے. کبھی کسی لڑکے یا لڑکی کی ماں سے پوچھو کہ آپ نے شادی کی تیاری کے حوالے سے کیا پلان بنایا ہے تو وہ یہ ہی تفصیلات گوش گذار کرتی ہیں. بیٹے یا بیٹی کو ازدواجی تعلقات، ذمہ داریوں، نکاح کی حقیقت و مقاصد، خاندان اور رشتوں کی حرمت کے خصوصی مطالعہ اور تربیت کے حوالے سے کوئی منصوبہ عمل شامل نہیں ہوتا. بغیر تیاری کے جب پرچے کیے جاتے ہیں اور قدم قدم پر دھکے لگتے ہیں اور اگر خاندان نبھ بھی جائے تو خاندان کے وہ مقاصد جن کا تعلق صحت مند معاشرت وجود میں لانے سے ہے، وہ حاصل نہیں ہو پاتے.
ثقافتی تبادلہ
خاندانوں میں خلیج اور تلخٰیاں پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ نکاح کے نتیجے میں جب دو خاندان ملتے ہیں تو یہ دراصل دو کلچرز کا بھی ملاپ ہوتا ہے. یہ بالکل فطری بات ہے کہ ہر خابدان کے رہنے سہنے، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، میل ملاپ کے اپنے طریقے ہوتے ہیں. جب دو خاندان ملتے ہیں تو دراصل یہ ایک طرح کا ثقافتی تبادلہ بھی ہوتا ہے. اگر رویے، مزاج اور رد عمل متوازن ،لچکدار اور مفاہمانہ نہ ہو تو یہ بے ضرر اختلافات بڑے تنازعات کا سبب بن جاتے ہیں اور خاندانوں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں. ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے غیر اہم معاملات خاندان کے بزرگوں کی انا کی جنگ بن جاتے ہیں اور وہ بننے والے خاندان کے زوجین کے لیے ذہنی اذیت اور دباؤ کا سبب بنتے ہیں ۔ اگر ان معاملات کو فوری سنبھالا نہ جائے تو رفتہ رفتہ بغض اور کینہ رشتوں اور تعلقات میں بگاڑ پیدا کر دیتا ہے جبکہ اس کے برعکس ایک دوسرے کا احترام رشتوں میں مضبوطی پیدا کرتا ہے ۔
ابلاغی خلا اور منفی ابلاغ
موجودہ دور میں جبکہ تنازعات کو حل کرنےکی بڑی بڑی ٹریننگز منعقد ہوتی ہیں، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار لوگ بھی گھر اور خاندان کے دائرے میں ان پرعمل کرنے کا نہیں سوچتے . میاں بیوی یا نسبی و صہری رشتوں کے درمیان معمولی اختلافات بعض دفعہ محض براہ راست بات چیت کے ذریعے دور نہ کرنے کی غلطی وقت کے ساتھ بڑے مسائل پیدا کر دیتی ہے اور خاندان کی یکسوئی اور وحدت کو متاثر کرتی ہے. غیر متعلقہ افراد کی اس حوالے سے مداخلت اور منفی ابلاغ مسئلے کو بعض دفعہ اس حد تک گھمبیر بنا دیتا ہے کہ طلاق کی نوبت آ جاتی ہے یا گھریلو تشدد کا راستہ کھلتا ہے. کبھی کبھی والدین کے شکوے پر بلا تحقیق رد عمل کا اظہار بھی جھگڑے کی بنیاد بن جاتا ہے۔ عمومی طور پر بےوقت درست بات یا درست وقت پر غلط بات دونوں ہی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لیے ماہرین نفسیات جذبات کو کنٹرول کرنے کے طریقے اور بات کو بیان کرنے کے طریقے سکھانے کی خصوصی تلقین کرتے ہیں۔
خود غرضی اور خود پسندی ؛
ایک بہت اہم وجہ جو ہمارے ارد گرد خاندانوں میں تنازعات پیدا کرتی ہے وہ زوجین میں سے کسی کے بھی بڑوں یا خاندان کے مؤثر افراد کی خود غرضی وخود پسندی کا رویہ ہے۔ میں نے اکثر ماؤں کو آج کی بیٹیوں کو یہ نصیحت کرتے دیکھا ہے کہ صرف اپنے میاں کو دیکھو ، باقی کی تم نوکر ہو نہ مکلف ہو۔ اب اس سوچ کے ساتھ خاندان کا آغاز کرنے والی لڑکی کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شوہرسے وابستہ رشتہ وتعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرسکے. دوسری جانب لڑکے کے لیے بیوی کے والدین اور رشتہ داروں کو عرف عام میں نو لفٹ کرانے اور اہمیت نہ دینے کا پریشر اور سوچ شفٹ کی جاتی ہے. پھر یہی نہیں، اگر خاندان کے افراد بیٹے کی شادی اس نیت سے کرتے ہیں کہ دراصل وہ گھر کے لیے ایک خدمت گار یا سہولت کار لا رہے ہیں اور اس کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش اور شوہر کی دیکھ بھال تو اس کی ذمہ داری ہے ہی تو یہ خود غرضانہ سوچ اصل میں خاندان کی تشکیل کے مقاصد سے عدم واقفیت کی عکاس ہے اور ہمارے معاشرے میں اس غیر متوازن اور غیر منصفانہ سوچ کی وجہ سے بھی خاندان تنازعات کا شکار ہوتے ہیں.
معاشی اور معاشرتی بے انصافی
جس گھر میں عدل نہ ہو تو وہاں خاندان کا شیرازہ بالآخر بکھر کر رہ جاتا ہے. ہمارے معاشرے میں عموماََ بچوں کی شادیاں کرتے وقت بہت عمر رسیدہ نہیں ہوتے، لیکن نفسیاتی اعتبار سے وہ لاشعوری طور پر نظر انداز کیے جانے کے خوف میں مبتلا ہو کر اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو جذباتی دباؤ میں لے لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ خود اپنے لیے ہمدردی حاصل کرنے کی وجہ سے دوسرے بچوں کی کبھی فرضی اور کبھی حقیقی غلطیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں. اس طرح وہ خود اپنے ہی بچوں یعنی بہن بھائیوں کے درمیان خلا اور فاصلہ پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں .اسی طرح بیٹوں، بیٹیوں اور بہوؤں کے درمیان معاشی اور معاشرتی انصاف قائم نہیں کرتے، کسی کو مسلسل رعایت دیتے ہیں اور کسی کو کوئی گنجائش نہیں دیتے. مجموعی طور پر گھر میں عدل نہ کرنے کی وجہ سے معاملات میں خرابی اور دلوں کے فاصلے بڑھتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیےضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہ حیثیت مجموعی عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے انفرادی کردار پہ آگہی پیدا کی جائے۔ خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جہاں محبت اور تعاون کے کئی عوامل موجود ہوتے ہیں، یہاں ایسا اجتماعی ماحول پیدا کرنا کہ جس میں عدل کی بنیاد پر معاشی اور معاشرتی توازن قائم کیا جا سکے نسبتاً آسان ہے. بس حکمت اور اخلاص درکار ہے۔
خلاصہ
اصل بات جو سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے، وہ یہ کہ خاندان کے اندر مسائل پیدا ہونے کی وجہ کوئی خاص طرز زندگی یا رہائش نہیں ہے، بلکہ خاندان کے قیام کے مقاصد کا نظروں سے اوجھل ہو جانا ہے. اگر تشکیل خاندان کے مقاصد ہر نئے خاندان کے قیام کے وقت دہرا لیے جائیں کہ اس نکاح کے ذریعے وجود میں آنے والے خاندان کی تشکیل بقائے انسانی، تعارف وپہچان،عفت وعصمت کی حفاظت ، مؤدت و رحمت اور زوجین کے سکون کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اور یہ مقاصدپورے ہونا اہم ہے۔ خاندان کی ایک اخلا قیات ہے اور وہ یہ کہ افرد خانہ ایک دوسرے کے حقوق و مفادات کے محافظ ہوں. رشتے کی بنیاد نیکی اور تقویٰ ہو ، خاندان میں جنگ حقوق کی نہیں اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ہو. قرآن اور سنت کا ز اویہ نگاہ اختیار کیا جائے تو ہر طرح کی زیادتی اور استحصال کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔خاندان کے اندر پیدا ہونے والے بیشتر مسائل کی وجہ اخلاقی ضابطوں اور معیارات کا ختم ہو جانا ہےاور اس کا متبادل قانون تلاش کرنا ہے جبکہ زندگی قوانین کے سہارے سے نہیں اخلاقی بنیادوں کے احترام سے بنتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ قانونی اصلاحات سے معاشرتی انقلاب نہیں آتا، گھر کے اندر اخلاقی نظام نافذ نہ ہو تو معاشرہ مستحکم نہیں ہو گا اور خاندانی نظام بحال نہیں ہو سکتا، جب تک اخلاقی نظام بحال نہیں ہوتا۔
تبصرہ لکھیے