ہوم << نظریاتی اور صحافتی فتوے - روبینہ فیصل

نظریاتی اور صحافتی فتوے - روبینہ فیصل

"عمران خان کو فوج لائی، اس لیے وہ سلیکٹیڈ ہے اور بس اس لیے ہم اسے قبول نہیں کر سکتے،ہم کسی قیمت پر ایسا کمپرومائز نہیں کر سکتے، ہم نظریاتی لوگ ہیں۔ ہم صرف عمران خان کی ایمانداری پر واہ واہ نہیں کر سکتے، ہم اسے جمہوریت کا قاتل سمجھتے رہیں گے۔"
یہ فتوے نون لیگ کے جلسوں میں چیخ چیخ کر بیان کیے جاتے بلکہ فوج کو محلے کی مائیوں کی طرح طعنے اور کوسنے بھی دیے جاتے۔ اورکئی دانشور، اینٹی اسٹبلیشمنٹ کا نعرہ مار کر شلواریں ٹنگ کر میدان میں اتر آئے جن میں ایک نجی ٹی وی اور ایک دو ویب سائٹس کچھ زیادہ ہی حلق کے بل چیخنے لگے تھے اور دو چار صحافی تو اس میدان میں باقاعدہ نہ صرف خود ہیرو کے درجے پر پہنچے بلکہ انہوں نے نواز شریف کو ایک مزاحمتی لیڈر کے طور پر نیلسن مینڈیلا، چی گویرا سے ملانا شروع کر دیا۔

خیر ساڑھے تین سال زرداری کا بچہ اور نواز کی بچی مل جل کر خوب لوگوں کو خواب ِ غفلت سے جگاتے رہے اور میک اپ کر کے جمہوریت کا حسن سمجھاتے رہے۔ ہم بھی سر پھینک کر خود کو سمجھانے لگے بلکہ تقریبا قائل ہی ہو گئے اور ان نظریاتیوں سے یہ بھی نہ پو چھتے کہ اگرخان ایسے آیا ہے تو پہلے والے بھی توایسے ہی آئے ہو ں گے تو اب یہ چیخیں کیسی؟ہم خود کو ہی دل میں برا بھلا کہہ لیتے اور سوچتے واقعی کپتان سے ہماری محبت بس اندھی ہی ہے۔۔ فضول سی۔ چوبیس سال کی تنہا، آئیڈلسٹ جد و جہد کے بعد اب بھی نہ کمپرومائز کرتا اور مختلف طریقے سے اقتدار میں آتا۔فٹے منہ ایسی جیت اور جمہوریت کا۔

اس کے بعد اخلاقی لوگ اٹھے اور شور مچایا کہ خان یہ جو جلسوں میں لوگ اکٹھے کرتا ہے وہ سب جہانگیر ترین اور علیم خان کے کالے دھن اور جہازوں کا کمال ہے۔ یہ جانتے ہو ئے بھی کہ پاکستان جیسے ملک میں نہ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ کا نعرہ چلتا ہے، پھر بھی خان جیسے آئڈیلسٹ کو اخلاقیات کی ایسی دھجیاں نہیں اڑانی چاہیے تھی، کسی ایماندار کھوتے ریڑھی والے کو دوست بنا لیتا ان پاپیوں کے جہازوں اور پیسوں کو سیاست میں استعمال نہ کرتا۔

جب نواز شریف نے لاہور ہائی کورٹ پر حملہ کروایا تھا تو ہمیں سمجھایا گیا تھاکہ ایسی بکاؤ عدالتوں کا کیا کر نا جو ہر دم نظریہ ضرورت پر جیتی ہیں،ہم نے سر تسلیم خم کیا اور عدالتوں کو جی بھر کر برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ہمیں ہر جج بکاو اور ہر عدالت ایک فریب لگنے لگی۔ پھرعمران خان نے جلسوں میں للکارتے ہو ئے کر پٹ عناصر کے مواخذے کا اعلان اور مطالبہ کیا تو ہر طرف سے تمیز و تمدن، سلجھی ہو ئی گفتگو اور لحاظ و رواداری کی باتیں کی جانے لگیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان باتوں کا آغاز ایسے ہو تا تھا، " گھمنڈی،یہودی ایجنٹ، بدتمیز، گنوار، کنجوس،منہ پھٹ، ذلیل،کم بخت، ٹٹ پینا، بے شرم بے حیا، زانی، نشئی،پاگل خان نے ہماری نوجوان نسل کی لینگوئج خراب کر دی ہے۔''
پھر یہ بھی اداسی چار سو پائی گئی کہ وہ نوجوان جو پہلے کر پشن اور منافقت دیکھ کر خاموش رہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دو خاندانوں کی غلامی ہی ہمارا مقدر ہے، وہ اب منہ کو آنے لگے ہیں وہ سوال پو چھنے لگے ہیں اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے لگے ہیں۔ ٹھیک ہی تو تھا عمران خان نے نئی نسل کو بر باد کر کے رکھ دیا ، کوئی ایسے بھی منجمند تالاب میں کنکریاں پھینکتا ہے کیا؟ بدتمیز بچے۔ انھیں واپس زرداری اور شریف خاندان جیسی اعلی خاندانی روایتوں کے طور طریقے سکھانے کے لئے سب دانشور اور صحافی جت گئے۔۔ ہم خاموش ہو گئے کہ یہی ٹھیک ہو گا۔

نواز شریف کوجمہوریت کا شہید اور اینٹی اسٹبلیشمنٹ لیڈر بنا کر پیش کر نے والوں نے اسے چی گویرا، نیسلن مینڈیلا اور منصور الحاج سے جا ملایا، ہم چپ رہے ہم دیکھتے رہے،ہم بس مسکراتے رہے اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو مجرم سمجھتے رہے کہ خان کی حمایت کر کے ہم صرف سٹیٹس قو کا حصہ بن رہے ہیں۔۔تف ہے ایسی محدود سوچ والی زندگی پر۔ پھرمولویوں نے کہا یہ اسلام کا دشمن اور یہودیت کے ایجنڈے پر آیا ہے کیونکہ اس کا سابقہ سسرال یہودی ہے۔۔ ہم اس پر بھی ایمان لے آئے۔۔ مگر۔۔رکیے ابھی کہیں نہ جائیں۔۔۔ یہ بھی پڑھ لیں!۔۔

جب وہی اسٹبلیشمنٹ سب عمران خان کو ہٹانے اور اسی منڈیلا کے چھوٹے بھائی کو لانے کے لئے تیار ہو ئی تو یہ سارا عمل ایک دم جمہوری اور نظریاتی ہو گیا۔ عدلیہ نے رات بارہ بجے اپنی کاروائیاں کی تو محترم ہو گئی اس کے خلاف ایک بھی لفظ نکالنے والا مجر م تصور کیا جانے لگا۔۔ یہ دونوں ادارے جو دس اپریل سے پہلے تک نظریاتی دانشوروں اور سیاستدانوں کی توپوں کے دہانے پر رہتے تھے انہی پرچڑھ کر سواری کرنے لگے۔ وہی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے کل کے ڈان آج کے نگہبان سر آنکھوں پر بٹھا لئے گئے، اور کالی دولت ایکدم چٹی گوری ہو گئی۔ خان کے لئے عام جنتا کھوتیوں ریڑھیوں پر سوار ہو کر اس کے جلسوں میں پہنچنے لگی۔ اور سوال کر نے لگی کہ ہمارا سودا کس سے پو چھ کر کیا جا رہا ہے؟۔۔ان میں غصہ تھا، کرب تھا۔۔ وہ آپے سے باہر ہو رہے تھے۔

وہ پو چھ رہے تھے جمہوریت کیا ہے؟ ہمارے ووٹوں سے لائی گئی حکومت کہاں گئی؟ یہ مجرم جو ضمانت پر رہا ہے وہ ہمارا وزیر ِ اعظم کیسے ہو سکتا ہے؟ سارے ضمانت پر رہا مجرم کابینہ کیسے بنا سکتے ہیں؟ ہارس ٹریڈنگ کس کتاب میں لکھا ہے کہ جمہوریت کا حسن اور آئینی ہے؟ زرداری اور شریف خاندان کی منافقت بھری باتوں کو اخلاقیا ت کی کون سی کتاب سے پڑھ کر ہمارے نصابوں میں شامل کیا جا رہا ہے؟ اگر وہ یہودی ایجنٹ تھا تو سب سے زیادہ ایک یہودی شدت پسند گیرت وایلڈرز ہی اس کے جانے سے کیوں خوش ہوا؟

پھر سب نظریاتی اور اخلاقی اپنے پرانے سارے بیانئے چھوڑ کر ایک نئے بیانئے کے ساتھ ان سب سوالوں کا جواب دینے میدان میں اتر آئے؛ " خان ملک میں فساد ڈلوانے آیا ہے۔ یہ پاگل خان خانہ جنگی کروائے گا، یہی اس کی سازش تھی۔ " سیاست میں برداشت اور اختلافات میں محبتوں کے ذکر ہو نے لگے۔ ہمارا دماغ جب ان دوہرے معیاروں سے پھٹنے لگا تو راحت اندوری نے کہا چھڈو جی۔۔ سب باتوں کی ایک بات ہے۔۔

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے کہ سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے کہ سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے سچ بولو

یہ سن کر ہم چپ رہے ہم مسکرا دیے۔۔۔۔۔۔۔نظریاتی سیاسی فتوؤں کی ایسی کی تیسی۔

Comments

Click here to post a comment