آج ہم سیاسی فضا کے جس آلودہ دور سے گزر رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ نے یہ مناظر شاید پہلے نہ دیکھے ہوں. میرے خیال میں اس کے دو اسباب ہیں ایک اخلاق سے عاری رہنما، دوسرا ہمارا میڈیا جو اپنی ریٹنگ کی خاطر پورے معاشرے کو ان نام نہاد سیاستدانوں کے ذریعے اس درجے کی اخلاقی پستی پر لے آیا ہے کہ ہم سب نے مدینہ منورہ کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا. آپ ذرا غور کریں ان سیاست دانوں کے جلسوں میں گفتگو کا موضوع کیا ہوتا ہے؟ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، ایک دوسرے کی نقلیں اتارنا، ان کے نام بگاڑنا ، اس سب بداخلاقی کا مظاہرہ وہ کرکے چلے جاتے ہیں اور بعد میں عوام سوشل میڈیا ہر باہم دست و گریباں ہوتی نظر آتی ہے۔
ہمارا دین ہے کیا اور ہم سے تقاضا کیا کرتا ہے؟
سب سے بڑا باب تطہیر اخلاق ہے. ہمارے اخلاقی وجود کا پاکیزہ ہونا، اپنے حالات کے لحاظ سے ایک عام مسلمان سے بھی جس چیز کا تقاضا کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکیزگی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے اور اس کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت اخلاق کو حاصل ہوگی. اس معاملے میں قرآن مجید میں صرف اصول نہیں بلکہ اگر آپ غور کریں تو سورہ بنی اسرائیل اور سورہ النساء میں فہرست مرتب کی ہے کیا چیزیں ہیں جو آدمی کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہییں. ان کو فضائل سے تعبیر کیا جاتا ہے. اور کیا چیزیں ہیں کہ جن سے اپنے وجود کو اپنے اخلاق کے تمام پہلوؤں کو پاک کرنا چاہیے. اس سے آگے بڑھ کر یہ بتایا ہے کہ انسان اخلاقی وجود ہے، اس میں جمال اور کمال کیسے پیدا ہوتا ہے. یہ پہلا درجہ ہے ہمارا دین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمہیں اس جگہ پہنچنا ہے کہ جہاں اخلاق کا وجود تمہارےحسن سے بناہو. جہاں وہ تمہارے وجود کے اندر کمال تک پہنچے اور سوسائٹی پر بھی اس کے اثرات آخری درجے میں ہوں گے. پھر اس سے آگے بڑھ کر ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اخلاق بھی اسی طریقے سے آدمی کے اندر ایک نہایت عمدہ ذوق پیدا کرتا ہے، اور یہ ذوق اچھی روایت بھی پیدا کرتی ہے، اچھی ثقافت بھی پیدا کرتی ہے، اچھی سوسایٹی بھی پیدا کرتی ہے، ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے اندر اچھا ذوق پیدا کرے . تقریر کا ذوق، زبان کے لب و لہجہ کا ذوق، تو ہر چیز میں کمال حاصل کرنا ہی مقصود ہو۔
سورۃالحجرات میں اللہ تعالی نے جزئیات کو موضوع بنایا ہے یعنی مسلمانوں کے معاشرے میں کیا چیز ہے جن کا آپ کو خیال رکھنا ہے. ہم کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ بار بار کریں۔ کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے، تمہیں کوئی خبر ملتی ہے تو تمہارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ تم نے کسی کے بارے میں کوئی بات کرنی ہے تو کیا بدگمانی کرو گے؟ کیا تحقیق کے بغیر بات کرو گے؟ حسن ظن کے حدود کیا ہیں؟ اللہ تعالی کو بدگمانی کتنی ناپسند ہے؟ اس کے نتایج کیا نکلتے ہیں؟ غیبت کیا چیز ہے؟ چغلی کیا چیز ہے؟ آپ کسی دوسرے کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں اور اس کی ٹوہ میں رہتے ہیں، اس کے کیا نقصانات ہیں؟ ایک پوری فہرست ہے جو اس سورۃ میں بیان فرمادی گئی ہے.
اس میں بتایا گیا ہے کہ ہم انسانی تعلق کے معاملے میں بہت حساس ہوں، ایمان کا رشتہ پیدا ہوا ہے، اس میں تم سب بھائی بنا دیے گیے ہو، تو کوئی اپنے بھائی کے بارے میں غلط رویہ کیسے اختیار کر سکتا ہے. ہمارے دین نے بحیثیت مجموعی جس رویے کی تعلیم دی ہے، اس میں عربی زبان کا ایک نہایت خوبصورت لفظ ہے “الدین النصیحۃ” یعنی دین خیرخواہی کا نام ہے. اگر آپ کا خیر خواہ ہوں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کسی پر بے جا الزامات لگادیں. یہ ممکن ہی نہیں ہے کسی مسلمان کے لیے. میرے نزدیک سیاستدان ، علما، رہنماؤں کا کردار اہم ہے. عام مسلمان کو اس کا خیال رکھنا چاہیے. ہماری زندگی میں، ہماری گفتگو میں، ہماری معیشت میں، کاروبار میں، دفتروں میں، ہر جگہ سورہ حجرات کی ہدایات ہمارے سامنے رہنی چاہییں.
یہ آخری درجے کی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم کبھی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے. دنیاوی تعلیم کو ہی لے لیں. میں نے اپنے پی ایچ ڈی کی کلاس میں یہ پڑھا ہے کہ تنقید کیسے کی جاتی ہے، اس پر دلائل کیسے دیے جاتے ہیں. ہماری سیاست کا حال یہ ہے کہ سنی سنائی بات آگے پہنچا دیتے ہیں اور ہمیں کسی چیز کے بارے میں ادنیٰ درجے کا تامل بھی نہیں ہوتا. بڑے سے بڑا الزام لگاتے ہیں. تنقید کرنی ہوتی ہے مگر کسی چیز پر تنقید تنقیص میں تبدیل ہو جائے تو یہ آخری درجے کا گناہ ہے. کسی کا آپ زبان کے پہلو سے مذاق اڑائیں، کسی کی صورت شکل پر طعن کریں، کسی کا نام بگاڑیں، ان میں سے ایک ایک چیز کو لے کر قرآن مجید نے بتایا ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے، چھوٹی چیز نہیں ہے کسی کا نام بگاڑنے تک. ہم میں سے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ باہمی تعلقات میں اللہ کی حددود کے اندر رہیں اور کبھی اپنے اخلاقی وجود کو رسوا نہ کریں. سیاسی رہنماؤں پر تو یہ ذمہ داری ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر سیکھتے ہیں، اس کی باتوں کو آیڈیل بناتے ہیں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھے تو آپ نے یہ کہا ہے کہ تم لوگ جس گناہ کا ارتکاب کرو گے اس میں رعایا کی ذمہ داری بھی تم پر آجائے گی. جب لیڈر لوگوں کو غلط تربیت دیتا ہے، ان کو غلط زبان سے سکھاتا ہے، جب اخلاقی حدود سے اوپر اٹھ کر باتیں کرتا ہے، جب وہ لوگوں پر تحقیق کے بغیر الزامات لگاتا ہے، جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل یا کوئی ثبوت ہے تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا. لیکن ایسے لگتا ہے کہ زبان کی غلاظت ہے جو باہر پھینک رہا ہوتا ہے. جو شخص بھی یہ کام کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے بلکہ وہ لوگوں کو تربیت دے رہا ہے، اس کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر آتی ہے. جب کوئی عالم، جب کوئی دانشور، جب کوئی رہنما، جب کوئی سیاستدان اس طریقہ سے عوام میں آکے ان گناہوں کا ارتکاب کرے گا ، لوگوں کے نام بگاڑے گا ،جب وہ غلط الزامات لگائے گا، جب وہ ان کا تمسخر اڑائے گا، جب ان کے بارے میں غیبت کرے گا یا ایسی باتیں لوگوں کے سامنے کہے گا کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوگی یا ان کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کرے گا، ان کی بات کو بگاڑے گا، اس کو صحیح جگہ پر رکھ کر بیان نہیں کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلےگا کہ ہزاروں لوگوں پر اس کے اثرات ہوں گے اور کروڑوں لوگ اس کے نتیجے میں آراء قائم کریں گے اور وہ اپنے رویے اس کی روشنی میں مرتب کریں گے. ان سب کی ذمہ داری بھی اس رہنما پر عائد ہوگی۔
اور یہ بات اب یاد رکھیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سب سے بڑی اور آخری نصیحت حجۃ الوداع کے موقع پر یہ کی تھی کہ مسلمان کی جان، مسلمان کا مال ، مسلمان کی آبرو کوحرمت حاصل ہے. تو جب آپ کسی کی عزت پر حملہ آور ہوتے ہیں تو درحقیقت اس کی حرمت پامال کر رہے ہوتے ہیں. یہ معمولی درجے کی چیز نہیں ہے. یہ کبائر ہیں جن کا ارتکاب لوگ کرتے ہیں، اور ان کو ادنیٰ درجے میں احساس نہیں ہوتا کہ وہ یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیےکہ آج پاکستان کی سیاسی فضا ایسی نہیں ہے. اب یہ نام نہاد رہنما لوگوں کے جذبات ابھار کر، ہیجان برپا کرکے اپنی حمایت حاصل کریں گے؟بالخصوص بیرونی ممالک میں مقیم ہمارے اقربا لگتا ہے زیادہ متاثر ہیں. تو یہ قوم کے ساتھ دشمنی کریں گے آپ کہ نوجوانوں کا ذوق بگاڑ دیں، ان کے سوچنے کے انداز بگاڑ دیں. ہم یہ منظر زیادہ دور کی بات نہیں، 80 کی دہائی میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں دیکھ چکے ہیں۔
ہمیں ایک ایک شخص کی مثبت طور پر تربیت کرنی ہوگی اور مجھے یہ بات کہنے میں بالکل تامل نہیں ہے کہ اس ملک میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی موجود نہیں جو یہ کار نبوت فریضہ سمجھ کر سالوں سے انجام دے رہی ہو. اے کاش ہمارے عوام ان رہنماؤں کو پہچان سکیں کہ جو نیچے جاکر ، چھوٹی چھوٹی مجالس میں بیٹھے، گاؤں اور دیہاتوں میں جا کر، لوگوں کو اکٹھا کرکے اور ان کی تربیت کرکے ان کے درمیان چوبیس گھنٹے صرف کرتے ہیں. اس ہی اخلاقی تربیت کے خاطر جس کے لیے یہ امت برپا کی گئی ہے. ہمیں عہد کرنا ہوگاکہ ہمہ وقت لوگوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دینے والوں کے دست بازو بنیں ورنہ مدینہ منورہ جیسے واقعات معاذ اللہ پھر نہ رونما ہوں. ہمیں بحیثیت قوم بھی توبہ کرنا ہوگی کہ کسی ایسی وقتی دھارے میں نہ بہہ جائیں. اللہ کریم ہماری رہنمائی فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے