ہوم << کلام اقبال میں قرآنی تلمیحات کا استعمال - پروفیسر اخلاق احمد ساغر

کلام اقبال میں قرآنی تلمیحات کا استعمال - پروفیسر اخلاق احمد ساغر

اقبال ؔکی شاعری کی نغمگی نے گذشتہ ایک صدی کے دوران مشرق ومغرب کے بے شمار انسانوں کو مسحور کیاہے اور جوں جوں وقت بڑھتاجاتاہے. اقبال کی شاعری کا یہ سحر اور گہرا ہوتا جاتا ہے، کیوں کہ آج بھی اقبالؔ کے اشعارخطباکے وعظوں میں، صوفیا کی نصیحتوں میں، علماواساتذہ کی تقریروں میں، فلاسفہ وحکما کے فلسفوں میں اور ادبا وقلم کاروں کے مقالوں میں کبھی زینت تو کبھی دلیل بن کر سامنے آتے ہیں۔جن لوگوں نے اقبال کی شاعری کو سمجھا وہ تو متاثر ہوئے ہی مگر جن کی نگاہیں اقبال کی شاعری کے متون سے آگے بین السطور تک نہ جاسکیں، گنگنائے بغیر وہ بھی نہ رہ سکے۔کیوں کہ اقبال ؔکا اندرون جتنا روشن ہے، بیرون بھی اتنا ہی منورہے۔ اقبال فرماتے ہیں؛

بیا بہ مجلَسِ اقبال و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سَر نَتَراشَد قلندری دانَد

اقبال کی مجلس کی طرف آ اور ایک دو ساغر کھینچ، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے. بقول ڈاکٹر حاتم رامپوری: ’’اقبال کے اظہار میں چٹکیاں لیتی ہوئی شوخی ہے، جوش وولولہ ہے، موسیقیت ہے، توانائی کی گھن گرج ہے، عشق کی مستی ہے، عرفانی ترنم ہے، وجدانی اور الہامی تجربے ہیں، حرکت وتمازت،توانائی،روشنی، لہر، تابناکی، فرحناکی اور احساس مسرت ہے، ڈرامائیت ہے، تصویریت ہے، ارتقاپذیر علامتیں ہیں۔صدیوں پر محیط تلمیحاتی دائرے ہیں۔ الغرض وہ سب کچھ ہے جو ذوق جمال کی تسکین کا باعث ہوسکے.‘‘ (اقبال آشنائی)

کلامِ اقبالؒ کے عمیق مطالعے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اقبالؒ کا اندازِ فکر و نظر قرآنی ہے۔اقبال کے نزدیک قرآن اللہ کی آخری نازل کردہ کتاب ہے جس میں ابدی حکمت سے معمور رہنما ئی کا بحر بیکراں موجزن ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک قرآن تمام انسانوں کے لیے ہے۔ یہ کسی خاص ملک، نسل یا نسلی گروہ تک محدود یا اس کا مقصد نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک تمام انسان بنیادی طور پر ایک ہیں۔ وہ ایک ہی جڑ کی ٹہنیاں ہیں۔وہ آدم کی اولاد ہیں، مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ روحانی طور پر وہ ایک ہیں، ایک ہی روح یا روح سے پر جوش ہیں۔ونفخت فیہ من روحی (اور میں نے اس میں اپنی روح کا ایک حصہ پھونک دیا ہے) انسان کا تعلق ایک طرف نفس سے ہے اور دوسری طرف کائنات سے۔اس کا وجود روحانی بھی ہے اور مقامی بھی۔ اور ہر انسان کو اسی پناہ گاہ میں لوٹنا ہے۔ وہی ماخذ اور اصل ہے۔ وہ وہ مقام ہے جس کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

بنی آدم اعضائے یکد یگر ند
کہ در آفرینش زیک جوہر اند

انسان ایک دوسرے کے اعضاء کی مانند ہیں کیونکہ وہ اپنی تخلیق کے لحاظ سے ایک ہی جوہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

قرآن مجید فکرِ اقبال کا نمایاں ترین منبع و مآخذ ہے اور اقبال ؒ اپنی ارفع ترین علمی و فکری اور روحانی سطح پر قرآن مجید کے اسرار و رموز، اسرارِ تکوین ِ حیات اور حکمت و معرفت کی گہرائی بیان کرتے ہیں۔ کلام اقبال میں تلمیحات کا استعمال نہایت دل نشیں انداز میں کیا گیا ہے۔ اقبالؒ نہ صرف قرآن کا شاعر بلکہ شاعروں کا بھی قرآن کہلائے - ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اپنی معروف تصنیف ’’اقبال اور قرآن‘‘میں یہ حقیقت کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں: ’’عشقِ رسول (ﷺ) اور قرآن مجید ہی سے علامہ کے شخصی عناصر کی تشکیل ہوئی ہے اور اس اجمال کی تفصیل ان اقوال و احوال میں پیش کی جاتی ہے جو مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں.'' رموزِ بیخودی کی نظم ’’عرضِ حال مُصنّف بحضور رحمتہ اللعالمین‘‘ اسی حقیقت کا اظہار ہے جس میں اقبالؒ بارگاہِ سرورِ کونین (ﷺ)میں عرض گزار ہیں کہ

گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآں مضمر است

’’اگر میرے دل کا آئینہ جوہر سے خالی ہے اور میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے‘‘

پردۂ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن

’’(اگر میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور کہہ رہا ہوں) تو آپ (ﷺ) میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک فرما دیجئے اور خیابان (دنیا)کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے۔''

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ’’روح ِا قبال‘‘ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:’’اقبال کا کلام شاعرانہ پیرائہ بیان میں اور جدید علوم کی روشنی میں سراسر قرآن کریم کی تشریح ہے-اگر مثنوی روم کو آٹھ سو برس قبل ’’قرآن در زبان پہلوی‘‘ سمجھا گیا تھا تو ہم کلام اقبال کو بھی الف ثانی میں وہی رتبہ دے سکتے ہیں.‘‘ اقبال نے قرآنی آیات یا الفاظ کی منظوم ترجمانی اپنے کلام میں تین طرح سے کی ہے۔ ایک طریقہ تو یہ کہ انہوں نے اپنے اشعار میں نہ صرف قرآن کے عربی متن کا کوئی لفظ یا قرآنی آیت کا کوئی فقرہ عربی متن میں ہی استعمال کیا ہے۔ دوسرا طریقہ ان کا یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کریم کی کسی پوری آیت کی منظوم ترجمانی کردی ہے۔ تیسرا قرآن کی آیات کو نظم کا موضوع بنادیا ہے جیسے ’’بال جبریل‘‘کی نظم ’’الارض للہ‘‘ جس کے ہر مصرع پر کسی ایک آیت کا اطلاق نہیں بلکہ بہت سی آیات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس مضمون میں اقبال کے کلام میں چند ایسی قرآنی تلمیحات پیش کی جارہی ہیں۔

قرآن مجید میں ’’شَرَاباً طَہُوْراً‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ اس تلمیح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی شعر ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’عشرت امروز‘‘ میں ہے:

نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش وسرور
نہ کھینچ نقشہ ٔ کیفیت شراب طہور

اقبال نے یہ تلمیح سورہ الدہر کی آیت اکیس کے اس فقرے سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا’’اور ان کا رب ان کو پاکیزہ شراب پلائے گا‘‘ قرآن مجید میں ’’سَلْسَبِیْلاً‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ یہ تلمیح اقبال کے کلام میں صرف ’’بانگ درا‘‘ کیاشعار میں آئی ہے۔ پہلا شعر ’’عشرت امروز‘‘ کا ہے اور دوسرا ’’صحرانووردی‘‘ کا ہے:

مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر
بیانِ حور نہ، ذکر سلسبیل نہ کر

اقبال نے سلسبیل کی تلمیح سورہ الدہر کی آیت سترہ اوراٹھارہ سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا ’’ان (جنتیوں) کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہاجاتا ہے.‘‘ اقبال یہاں شعر کے پہلے مصرع میں ’’ساقی جمیل‘‘ کی ترکیب سورہ الدہر کی آیت انیس سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا ’’ان (جنتیوں) کی خدمت کیلئے ایسے لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھردیئے گئے ہیں‘‘۔ اقبال نے ’’وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک‘‘ کی تلمیح سورہ الم نشرح کی آیت سے اخذ کی ہے اور پوری آیت کو مصرع بنادیاہے۔ فرمایا گیا’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام کو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ دُنیا کے ہر خطے میں پانچ وقت آپ کا مبارک نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ مسجدوں سے بلند ہوتا ہے۔ نیز آپ کے مبارک تذکرے دُنیا بھر میں انتہائی عقیدت کے ساتھ ہوتے ہیں، اور اُنہیں ایک عظیم عبادت قرار دیا جاتا ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ بَارَکَ وَسَلَّمَ۔ اقبال نے اس آیت کو اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’جواب شکوہ‘‘ کے درج ذیل بند میں استعمال کیا ہے:

دشت میں، دامن ِ کوہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک دیکھے

اقبال نے ’’وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ‘‘ کے فقروں کو جو مختلف آیات کا جز وہے تلمیح کے طور پر اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’لاہور وکراچی‘‘ کے درج ذیل شعر میں استعمال کی:

آہ! اے مردِ مسلماں تجھے کیا یا دنہیں
حرفِلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إلٰہاًآخَر

یہ نظم مختصر ہے اور یہ اس کا آخری شعر ہے۔ اس شعر کا پس منظر اقبال نے اس نظم کے درج ذیل شعر میں ذہن نشیں کرایا ہے:

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور
موت کیا شے ہے؟فقط عالم معنی کا سفر

دل ز ’’حتّٰی تنفقوا‘‘ محکم کند
زر فزاید اُلفت زر کم کند
[/poetry] پہلا مصرع پارہ نمبر چار کی پہلی قرآنی آیت کا حصہ ہے- ’’لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‘

خرقۂ ’’لا تحزنو‘‘ اندر برش
’’انتم الاعلون‘‘ تاجی بر سرش

اس شعر میں سورۃ العمران (آیت: ایک سو انتالیس) کا کچھ حصہ شامل ہے -ارشادِ ربانی ہے: ’’وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘

کم حق ہے ’’لیس للانسان الا ماسعی‘‘
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

شعر کے پہلے مصرع میں ’’سورۃ نجم،آیت:انتالیس‘‘ہے - اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔ (عرفان القرآن)

قرآن مجید میں سورہ یونس، آیت اکیاون میں ’’وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن‘‘ کاذکر ہے۔سورہ الانبیاء، آیت چھیانوے میں ہے ’’حَتّٰی إِذَا فُتِحَتْ یَأ ْجُوْجُ وَمَا ْجُوْجُ‘‘ کے الفاظ ہیں جبکہ اسی آیت کا آخری فقرہ ’’یَنسِلُوْنَ‘‘ ہے۔دیکھئے اقبال نے ان آیات کی تلمیحات کو کس طرح استعمال کیا ہے:

محنت وسرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے
دیکھئے ہوتا کس کس طرح تمناؤں کا خون
حکمت وتدبیرسے یہ فتنۂ پرآشوب خیز
ٹل نہیں سکتا وَقَدْ کُنتُم بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن
کھل گئےیاجوج وماجوج کے لشکر تمام
چشم ِ عالم دیکھ لے تفسیرحرفِ یَنْسِلُوْنَ

یہ تلمیحات اقبال کے کلام میں ایک بار’’بانگ درا‘‘ کے ’’ظریفانہ‘‘ کی نظم میں آئی ہیں۔ اقبال نے یہ اشعار 1917ء میں روس کے اشتراکی انقلاب سے متاثر ہوکر لکھے گئے ہیں۔

اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر
آیٔہ ’لاَ یُخلِفُ الْمِیْعَاد‘ رکھ
یہ ’لِسان العصر‘ کا پیغام ہے
’’اِنَّ وعْد اللہِ حقٌ‘‘ یاد رکھ

پہلے شعر میں ’’سورۃ العمران، آیت:نو‘‘ جبکہ دوسرے شعر میں ’’سورۃ لقمان، آیت: تینتیس‘‘ کا کچھ حصہ لیا گیا ہے-

مدعائے علم الاسماء ستے
سرِّ سبحان الّذی اسرا ستے

پہلے مصرع کی تلمیح ’’سورۃ البقرہ،آیت: اکتیس، ’’وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ کُلَّہَا‘‘ - اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ (عرفان القرآن) ، جبکہ دوسرے مصرع کی تلمیح ’’سورۃ بنی اسرائیل،آیت:ایک ہے - ’’سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ‘ ۔
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ? کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔(عرفان القرآن)

اے ترا حق خاتمِ اقوام کرد
بر تو ہر آغاز را انجام کرد

پہلے مصرع میں اقبالؒ نے آقائے دو جہاں (ﷺ) کے وصف ِ ختمِ نبوت کا ذکر کیا ہے جو ’’سورۃ الاحزاب،آیت: چالیس کی تلمیح ہے: ’’مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَ لَ?ٰکِن رَّسُولَ اللَّ?ہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّ?ہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا‘‘ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ? نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (عرفان القرآن)

دوسرا مصرع ’’سورۃ المائدہ،آیت:تین کی تلمیح ہے۔ ’’الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔ (عرفان القرآن)۔

فکرِ اقبالؒ کے اجزائے ترکیبی قرآن و سنت نبوی (ﷺ) ہیں اور اقبالؒ کے نزدیک ہر چیز کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن و سنت تھی اس لئے جو فکر انہیں روحِ اسلام کے منافی نظر آئی اقبالؒ نے اس کے خلاف بھر پور علمی وقلمی جہاد کیا۔ کلام اقبال میں تلمیحات کا احاطہ مجھ جیسے کم فہم و کم علم کی بساط نہیں ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہراہے مرے بحرِخیالات کا پانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں مسخر نہیں واللہ نہیں ہے