میں جانتا ہوں کہ آپ کے لیےیہ بالکل نامانوس آئیڈیا ہے۔ کیوں کہ آپ نے نہ کبھی اسے سنا ہے اور نہ دیکھا ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ آپ فورًا اسے رد کردیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے اس منظر کا تصور کریں، جو میں نے تصور کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ ہوسکتا ہے وہ منظر آپ کو بھی اچھالگے۔ آپ تصور کریں کہ ملک کی تمام مسجدوں سے یہ آواز بلند ہورہی ہے، اور ملک کے سبھی لوگ اسے سن رہے ہیں:
ایشور بڑا مہان ہے (چار بار)
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایشور کے سوا کسی کی پوجا نہیں ہونی چاہیے (دو بار)
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ایشور کے دوت ہیں (دو بار)
آؤ ایشور کی پوجا کریں (دو بار)
آؤ سپھلتا کی اور (دو بار)
ایشور بڑا مہان ہے (دو بار)
ایشور کے سوا کوئی پوجنیہ نہیں (ایک بار)
سوچیے، یہ انسانوں کے نام کتنا عظیم اور واضح پیغام ہے؟ کیا یہ زبردست آئیڈیا نہیں ہے کہ ملک میں رہنے والے تمام لوگ روزانہ پانچ بار ان خدائی پیغامات کو سنیں، ان کا مطلب سمجھیں اور ان کے بارے میں دن رات سوچیں؟ کیا یہ زبردست آئیڈیا نہیں ہے کہ اسلام کی دعوت بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی اصلی صورت میں ملک کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔ نہ صرف پہنچ جائے بلکہ روزانہ بار بار پہنچے؟
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اس ملک میں ہزار سال سے روزانہ پانچ بار اذانیں دی جارہی ہیں، کوئی ستّر سال سے ہمارے ملک میں لاؤڈ اسپیکر سے اذانیں دی جارہی ہیں، لیکن ابھی تک یہاں کے عوام کو اذان کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ سب کی بات چھوڑیں، خودمسلم عوام میں بہتوں کو اس کا مطلب معلوم نہیں ہے۔
اذان کے الفاظ پکار پکار کر کہتے ہیں، کہ اذان صرف نماز کی دعوت نہیں ہے، اذان تو پورے اسلام کی دعوت ہے۔ اس میں توحید و رسالت کو دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اذان کی زبان سمجھ میں نہیں آنے کی وجہ سے اسلام کی دعوت تو لوگوں تک پہنچ نہیں رہی ہے، ہاں شر پسندوں کو غلط فہمیاں پھیلانے کا موقع خوب مل رہا ہے۔
مسجدوں سے ہندی اور علاقائی زبان میں اذان سنانے کے تین بڑے فائدے ہیں:
مسلمانوں کو اذان کا مطلب سمجھ میں آئے گا اور ان کے ایمان کی بار بار تجدید ہوگی۔
تمام لوگوں تک اسلام کی دعوت روزانہ بار بار پہنچے گی۔
اذان کے خلاف شرپسندوں کی ساری کوششیں دم توڑ دیں گی۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ عربی اذان کی جگہ ہندی اذان دی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ عام طور سے اہلِ علم نےعربی میں اذان دینے کو ضروری قرار دیا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ عربی اذان دی جائے اور اس کے ساتھ ہندی اذان سنائی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے ہندی میں اذان سنادی جائے، بعد میں عربی میں اذان دے دی جائے۔ پہلے ہندی میں اس لیے تاکہ سب لوگ متوجہ ہوکر سنیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عربی میں اذان بغیر لاؤڈ اسپیکر کے دی جائے اور ہندی میں لاؤڈ اسپیکر سے دی جائے۔
اس تجویز پر عمل کرنے کی سب سے زیادہ گنجائش حنفی فقہ میں ہے۔ حنفی فقہا کے یہاں خاص اذان کی زبان کے سلسلے میں ہمیں یہ فقہی جزئیہ ملتا ہے کہ ’اذان میں رواج کا اعتبار کیا جائے گا‘ ( وفی الأذان یعتبر التعارف ، صاحب ہدایہ، زیلعی، ابن نجیم) یعنی کسی جگہ کے لوگ اگر کسی اور زبان میں اذان دینے لگیں، اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ یہ اذان ہے تو وہاں وہ اذان درست ہوگی۔ فقہ حنفی کے ممتاز ترین فقیہ علامہ سرخسی نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد حسنؒ نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’اگر کوئی فارسی میں اذان دے، اور لوگ یہ جانتے ہوں کہ یہ اذان ہے تو یہ جائز ہے۔‘‘ (مبسوط) یہاں میں پھر واضح کردوں کہ میری تجویز صرف ہندی میں اذان دینے کی نہیں ہے (گو کہ فقہ حنفی میں اس کی گنجائش ہے)، تجویز یہ ہے کہ اذان تو عربی میں ہی ہو، لیکن اسے ہندی میں سنایا جائے۔
کیا یہ تجویز کسی مداہنت پر مبنی ہے؟ کیا یہ حالات کے دباؤ کے تحت دی جارہی ہے؟
نہیں، اس تجویز میں ذرا بھی مداہنت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں اذان کے کسی مفہوم کو تبدیل کرنے کی بات نہیں ہے، بلکہ اذان کے سارے معانی کو بلا کم و کاست ایک ایک انسان کے دل و دماغ تک پہنچانے کا عزم ہے۔ یہ تجویز حالات کے دباؤ کو قبول کرنے والی نہیں ، بلکہ حالات کو تبدیل کرنے والی ہے۔ مجھے اس پر پورا اطمینان ہے کہ اگر ہندی ریاستوں میں ہندی زبان میں اور غیر ہندی ریاستوں میں وہاں کی علاقائی زبانوں میں اذانیں سنانے کا رواج قائم ہوگیا تو ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے سازگار ماحول بن سکتا ہے اور شر پسندوں کی کوششیں خاک میں مل سکتی ہیں۔ اذان کے ذریعے آپ اس ملک کے سو کروڑ سے زیادہ انسانوں تک دین کا پیغام پہنچاسکتے ہیں۔ اس زبردست امکان کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مولانا نسیم غازی نے ہندی زبان میں ایک کتابچہ لکھا: ’اذان اور نماز کیا ہے؟‘ اس کتابچے میں انھوں نے اذان اور نماز میں پڑھی جانے والی چیزوں کا ترجمہ لکھا، جب لوگوں کے ہاتھ میں یہ کتاب پہونچی، تو حیرت انگیز تاثرات سامنے آئے۔ بہت سے وہ لوگ جو مسجدوں اور نمازوں کے سلسلے مں سخت بدگمانی رکھتے تھے، ان کی رائے بالکل بدل گئی، اور انہوں نے کہا یہ نمازیں تو اس ملک کے لئے اور یہاں کے باشندوں کے لئے خیر اور بھلائی کا باعث ہیں، ایسی نمازیں تو ضرور پڑھی جانی چاہئیں۔ جن نمازوں میں ایسی اچھی اچھی باتیں کہی جاتی ہوں، وہ نمازیں ضرور بہت اچھے انسان بنائیں گی۔ یہ ایک کتابچے کی بات ہے، تصور کریں کہ جب ہر مسجد سے لوگوں کو اذان کا مطلب بتایا جائے گا، تو دل و دماغ میں کتنی بڑی تبدیلی واقع ہوگی۔
اذان دین کی تبلیغ کا خدائی انتظام ہے۔ زبان کی محدودیت کی وجہ سے ہم اب تک اس انتظام سے فائدہ نہیں اٹھاپائے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب نہیں ہے کہ اذان کانوں سے ٹکراکر گم ہوتی رہے، عرب کے لوگوں کے لیے عربی میں اذان اسی لیے رکھی گئی کہ وہ اسے سمجھیں اور پورے شعور کے ساتھ اس پر لبیک کہیں۔
زیادہ دیر ہوچکی ہے، صدیاں بیت گئی ہیں، لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ایک انقلابی فیصلہ لیں اور اذان کی صورت میں دین کا پیغام ملک کے سارے انسانوں تک پہنچادیں۔مسجدوں سے ملک کی سبھی زبانوں میں اذانیں سنائی جائیں، مسجدوں کے نمایاں مقامات پر اس علاقے کی زبان میں اذان کو نقش کرایا جائے اور ملک کی سبھی زبانوں میں اذانوں کے ویڈیو بناکر عام کیے جائیں۔
یہ تصور کتنا فرحت بخش ہے کہ اس ملک کے ہر فرد کے دل و دماغ پر اذان کا پیغام نقش ہوجائے اور اذان یہاں کا سب سے محبوب نغمہ بن جائے۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح بات کو جاننے اور اسے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (واضح رہے کہ یہ میری ذاتی تجویز ہے )
تبصرہ لکھیے