مجھے سمجھ نہیں آتی" آزادی اور غلامی " کی تکرار کرنے ولوں میں آزاد کون ہے اور غلام کون ۔؟ شریف خاندان ہو یا عمران خان بھکاری تو دونوں ہی ہیں۔ بس ایک کی بھیک، بھیک ہے اور دوسرے کی بھیک پیکج ۔
ایک کی بربادی، بربادی ہے اور دوسرے کی بربادی تبدیلی ۔ ایک کی غلامی ، غلامی ہے اور دوسرے کی غلامی یوٹرن ۔ ١٠ مارچ بروز اتوار کراچی اسلام آباد ، پشاور ، لاہور پر عمران خان کے حق میں عوام کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں۔ ان سب کے لبوں پر چند نعرے تھے جن میں " امریکہ کی غلامی قبول نہیں " بھی سننے کو ملا۔ میں اس وقت سے یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا عمران خان امریکہ کا غلام نہیں تھا ؟
تو پھر آسیہ ملعونہ کو کس کی خشنودی کی خاطر رہا کیا ؟ کہتے ہیں "امریکہ مردہ باد ، امریکہ کو نہیں مانتے" جب یہ ٹرمپ کے بغل میں بیٹھے تو یہ جزبہ کہاں تھا ؟ جب یہ جوبائیڈن کے فون کا انتظار کررہے تھے تو یہ جزبہ کہاں تھا ؟ آئی ایم ایف کی ناجائز شرائط کو مانتے اور اپنی قوم پر مہنگائی کا عذاب مسلط کرتے وقت ہی آزادی کا جزبہ جاگ جاتا۔ ؟ایک فون کال پرملائشیا کا دورہ منسوخ کرنے والا ہمیں کہتا ہے ہم غلام نہیں ہیں فرانسیسی سفیر کو نہ نکالنے والا کہتا ہے ہم غلام نہیں ہیں۔
پھر بات کرتے ہیں ریاست مدینہ کی اور جب صحابہؓ کا زکر آتا ہے تو کہتے ہیں وہ لوٹ مار کررہے تھے۔ یہ تو ان کا حال ہے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام اتنی ناسمجھ ہے کہ محض باتوں اور تقریروں سے متاثر ہوکر اندھی تقلید کرنے لگتی ہے ۔؟ پہلے یہ عوام قوم پرستی کا شکار ہوکر ملک و قوم کے لیے تکلیف کا باعث بنی اب یہ شخصیت پرستی میں مبتلا ہوکر ملک و قوم کو نقصان پہنچارہی ہے۔ آج عمران خان کو ہٹانے والے بھی وہی ہیں جو انہیں انگلی پکڑ کر لے کر آئے۔ تب تو عمران خان بہت خوش تھے پھر آج یہ شکوہ کیوں ؟؟؟
آج جب کرسی چھن گئی تو صلاح الدین ایوبی بن گئے۔ اور عمران خان کے حامیوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نظام سڑکوں پر نوجوان نسلوں کو نچانے سے قائم نہیں ہوتا۔مسلمانوں کو چاہیے کے وہ دنیاوی تعلیمات اور ڈگریوں کے ساتھ ساتھ دین کا علم حاصل کریں اور پھر سیاست کریں۔
بقول شاعر
~ جدا ہو د ین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
تبصرہ لکھیے