قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں ہونے والے ’’معاہدہ تاشقند‘‘کو ایک’’ ہوا ‘‘بنا کر ایوب خان کے خلاف ایک بھرپور عوامی تحریک شروع کی تھی ۔اس اعلان تاشقند کا مسودہ بحیثیت وزیر خارجہ خودقائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکی اختراع تھی .
جسے اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے تحریر کیا تھا ۔’’اعلانِ تاشقند ‘‘میں کیا لکھا گیا اس راز کی ’’بلی‘‘ تھیلے میں ہی رہی اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹواس راز کو اپنے سینے میں لئے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے ۔اس وقت ’’اعلان تاشقند ‘‘ کو ملک و ملت کے خلاف سازش قرار دیا گیا اور سارا الزام ایوب خان کے سر تھوپ دیا گیا ۔فیلڈ مارشل ایوب خان کا روس جانا امریکہ کو ناگوار گزرا۔کہا جاتا ہے کہ سی آئی اے نے بھٹوکو ایوب خان کے خلاف استعمال کیا ۔امریکن سی آئی اے کی طرف سے پیپلز پارٹی بنانے اور عوامی تحریک چلانے کے لئے باقاعدہ کروڑوں روپے کی فنڈنگ کے الزامات سامنے آئے ۔صدرکو ملک بھر میں ’’ایوب کتا ہائے ہائے ‘‘کہہ کر رسوا کیا گیا ۔امریکی ناراضگی ایوب خان کے جانے کا سبب بنی ۔بعد ازاں بھٹو کاانجام ساری دنیا نے دیکھا ۔امریکہ نے انہیں استعمال کیا ۔لیکن جب بھٹو نے امریکہ سمیت ان قوتوں کو للکارا جو انہیں اقتدار میں لائیں تو موصوف کو اگلے جہان پہنچا دیاگیا ۔
دیکھا جائے توموجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی اسی قسم کے حالات سے دوچار ہو چکے ہیں ۔اور اپنے خلاف اس خطرے کو بھانپتے ہوئے وہ سخت ذہنی الجھن کا شکارہیں ۔گذشتہ دنوںبحیثیت وزیراعظم عمران خان نے جو جلسہ کیا وہ بھی اپنی نوعیت کا واحد جلسہ ہے کہ جو کسی وزیر اعظم نے اقتدار میں ہوتے ہوئے کیا ۔اس عظیم الشان جلسے میں انہوں نے’’ کمال ذہانت‘‘ کا ثبوت فراہم کیا اور ایک خط عوام کودکھاکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے کوئی عالمی سازش کی گئی ہے اور انہیں تحریر ی دھمکی دی گئی ہے۔حکومت کے راز ہائے اندرون خانہ کو طشت ازبام کرنا ایک قومی جرم، آئین پاکستان اور حلف کی خلاف ورزی ہے۔اس حوالے سے ہائی کورٹ نے بھی وزیر اعظم کواس کام سے روکا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کوئی عام آدمی نہیں ،پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور 24کروڑ عوام کے نمائندہ ہیں ۔ایسا کوئی بھی خط یا تحریر جس میں عمران خان یا وزیر اعظم کو دھمکی دی گئی ہوتو یہ براہ ء راست ’’پاکستان‘‘ کو دھمکی ہے ،یہ ملکی سلامتی و استحکام کونقصان پہنچانے کی سازش کہلائے گی ۔اس صورت میں عمران خان کوایسی تحریر کے بارے میں صدر مملکت اور حکومتی ذمہ دار اداروں کو آگاہ کرنا لازم ہے، انہیں اعتماد میں لینا چاہئے۔ایک بات تو طے ہے کہ دشمن چاہے کتنا ہی ہوشیار اور چالاک کیوں نہ ہو ،وہ اس کا ثبوت نہیں چھوڑتا ۔ ایسی حرکت توعملی زندگی میں عام قسم کے غنڈے بھی نہیں کرتے ۔زبانی کلامی تو یہ سب معاشرے میں چلتا ہے لیکن عام شہری بھی تحریری دھمکی کے مضمرات سے اچھی طرح آگا ہ ہے ۔اس لئے وہ ایسی بے وقوفی نہیں کرتا ۔فی زمانہ تو Love Letterلکھنے کا رجحان بھی ختم ہو چکا ۔ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں’’آئی لویو‘‘کہنے کے لئے لوگ ’’واٹس ایپ ‘‘یا’’ فیس بک میسنجر‘‘کا سہارا لیتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا یہ اظہار محبت انہیں کسی عذاب میں نہ مبتلا کر دے ۔چہ جائیکہ بندہ کسی معشوق کو تحریری طور پر ’’آئی لویو‘‘لکھ بھیجے ۔
دھمکی دینا کوئی اتنا آسان نہیں۔وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔دیکھا جائے تو وہ جب بولتے ہیں تو ’’پاکستان‘‘ بول رہا ہوتا ہے ۔ ان کا ایک ایک جملہ حکومت کی پالیسی کا عکاس ہوتاہے ۔اس لئے انہیں بولنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے ۔کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں ۔گذشتہ تین برس میں انہوں نے بارہا ایسے بیانات دئیے ہیں کہ جو وزیر اعظم کے شایان شان نہیں تھے ۔وہ تو دل کی بات کہہ جاتے ہیں مگر ان کے ارشاداتِ عالیہ سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔عمران خان کو 72برس کی عمر میں بھی یہ بات نہیں سمجھ آئی کہ کون سی بات پاکستان کی شان بڑھاتی ہے اورکونسی بات وزیر اعظم کی عزت میں اضافہ کرتی ہے ۔ایک لمحے کو انہیں سوچنا چاہئے کہ اللہ نے انہیں وزیراعظم کا مرتبہ عطا کیا ہے تو اس کی لاج بھی رکھیں ۔
وزیر اعظم عمران خان نے جلسے میں ایک خط دکھایا لیکن اس کے مضمون کو چھپایا ،یوں اپوزیشن سمیت سبھی سیاسی رہنمائوں اور عوام میںشکوک و شبہات پیدا ہوئے ،اور سوشل میڈیا پر ایک تماشا سا لگ گیا ۔البتہ گذشتہ روز خط کے حوالے سے جو مندرجات سامنے آئے ہیں ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سفیر محترم نے کسی اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے وزیر اعظم کو ایک تحریر بھیجی ،جس کے بارے میں موصوف نے یہ تاثر دیا کہ یہ سب میری حکومت کے خلاف ایک سازش ہے ۔ایک غیر مصدقہ تحریر کو ’’دھمکی آمیز خط ‘‘ کا نام دینا اور عوام سے ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے ۔عمران خان کو اس بات کی تسلی کر لینا چاہئے تھی کہ مذکورہ تحریر ارسال کرنے والا سفیر کتنا سچا اور معتبر ہے ۔
اس کی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنا بھی ایک المیہ ہے ۔ہر انسان اپنے مفادکی جنگ لڑ رہا ہے ۔عین ممکن ہے کہ سفیر محترم نے کسی دوسرے شخص کے ایماء پر یہ خط/تحریر عمران خان تک پہنچائی ہو ۔اور انہوں نے اس پر یقین کرکے اسے’’ پبلک‘‘ کردیا ۔یوں مخالفین نے اس وجہ سے پروپیگنڈہ تیز کر دیا ۔ اس بارے ہر شخص اپنی سوچ و فکر کے مطابق فلسفہ جھاڑنے میں لگا ہے ۔ اس صورتحال نے سب کو پریشان کیا تو ذہن میں خط کے کچھ مندرجات آئے ۔لہذاء عام شہری کی سوچ کے مطابق ذیل میں پیش کردہ خط محض خیال کی چاشنی سمجھتے ہوئے پڑھیں۔اس خط میںکسی قسم کی غلطی یا کسی فرد یا ادارے کی سوچ و فکر سے مماثلت محض اتفاقیہ ہے ۔کسی بھی گھبرانے ،شرمانے کی ضرورت نہیں ۔خط پڑھئیے اور تھوڑا سا مسکرا دیجیے ۔پہلے ہی سونامی حکومت کی پالیسیوں ،مہنگائی کے طوفان اور دنیا کے غموں نے عوام کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ہے ۔
پھر بھی توجہ سے پڑھئے : محترم جناب عمران خان صاحب:ہم نے آپ کو ’’کرسی‘‘پر بٹھایا تھا لیکن آپ تو اس پر ’’لیٹ ‘‘ ہی گئے ہیں ۔اور ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔آپ شاہد یہ بھول گئے کہ جب ہم ’’کرسی ‘‘دلا سکتے ہیں تو اس کو نیچے سے کھینچ بھی سکتے ہیں۔ہم ہاتھ جوڑ کر آپ سے ’’بنتی‘‘ (التجا)کرتے ہیں کہ آپ ’’کرسی‘‘ چھوڑ دیں ۔ورنہ ہم اس کرسی سمیت آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے ۔ہم آپ کو ’’واٹس ایپ ‘‘اور’’میسنجر‘‘پر بھی کہ حکم دے سکتے تھے ۔لیکن ہم نے سوشل میڈیا سے ہٹ کر آپ کو ’’تحریری خط‘‘ لکھنا مناسب سمجھا ۔ہم کسی سے ’’’ڈرتے، ورتے ‘‘نہیں ۔یہ کھیل ہم گذشتہ 70سال سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں ۔اسی ملک کے نام نہادضمیر فروش سیاستدان اور بھولے عوام ہمیشہ ہمارے اس کھیل کا حصہ ہوتے ہیں ۔
سیاستدان اپنی کرسی کے لئے اور عوام اپنے روشن مستقبل کے لئے ہماری سازش میں شریک ہو جاتے ہیں ۔اور ہم منتخب وزیر اعظم کو ہی چلتا کر دیتے ہیں ۔اور آپ جو یہ خطرناک ہونے کی بڑکیں ماررہے ہیں ۔آپ نہیں جانتے کہ ہم کتنے خطرناک ہیں ۔اب آپ فوری طورپر اپنا بوریا بستر سمیٹیں ،اور نکلیں ورنہ ہم آپ کو بتائیں گے کہ ’’عزت ‘‘کیا ہوتی ہے اور ذلت کس بلا کا نام ہے ۔اب آپ نے گھبرانا نہیں ۔بلکہ خاموشی سے جانا ہے ۔(عالمی اسٹیبلشمنٹ)
موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ وزیرا عظم عمران خان اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جائیں ،کیونکہ جن لوگوں نے انہیں گھر بھیجنے کاپلان تیار کیا ہے ،انہیں اس کام پر ملکہ حاصل ہے ۔وزیراعظم کی ڈوبتی کشی کو بچانے اب کوئی نہیں آنے والا ،وزیر اعظم عمران خان یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ان کے اپنے حواری اور خیرخواہ جنہوں نے گذشتہ تین سال سے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے ۔وہی لوگ انہیں ’’دیس نکالا‘‘دینے کی سازش میں حصہ دار ہیں ۔اور جب آستین میں پلنے والے ہی ڈسنے پر آجائیں تو انسان کو دنیاکی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی ۔
عمران خان صاحب آپ کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔اس لئے حکومت سے دستبردار ہونے میں ہی عافیت ہے ۔یہ جلسے جلوسوں میں نظر آنے والاہجوم بھی کسی لیڈر کو بچا نہیں سکتا کیونکہ یہ محض ایک ہجوم ہے جو سیاسی جلوسوں کی رونق بڑھا نے کا کام کرتا ہے ۔یہ لوگ اپنے ساتھ مخلص نہیں تو وہ اپنے قائد کوکیسے بچانے کی سعی کر سکتے ہیں ۔
تبصرہ لکھیے