خواتین نے صدیوں سے جنگ میں بہت سے کردار ادا کیے ہیں، قدیم زمانے میں گھر مین چولہا جلانے ، سلطنتوں کو چلانے سے لے کر، 18 ویں صدی کے اوائل میں گھریلو کاموں میں فوج کی مدد کرنے تک، اور فرنٹ لائنز کے قریب نرسنگ کی پوزیشنیں سنبھالنے تک۔ کریمیا اور یورپ کی خندقیںکھودنے تک میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جب کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہزاروں خواتین نے نرسوں کے طور پر رضاکارانہ طور پر کام کیا اور جنگی کاموں میں حصہ لیا، 1939 ء میں جنگ میں خواتین کے لیے اہم موڑ ناگزیر عجلت کے ساتھ آیا۔ پہلی جنگ عظیم میں خواتین کے کردار کو پہلے تو بہت کم سمجھا جاتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگی کوششوں میں خواتین کی مدد کرنے والے غیر معمولی طریقے سامنے آئے ہیں۔ نرسنگ اس تنازعہ میں خواتین کی اہم شمولیت تھی، اور نوجوان اکیلی خواتین رضاکارانہ امدادی دستہ یا برٹش ریڈ کراس کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتی تھیں۔ان حالات میں کام کرتے ہوئے جو اکثر چونکا دینے والے ہوتے تھے اور بہت کم یا کوئی طبی سامان نہیں تھا، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی رضاکار نرسوں کو زخمیوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔ سومے جیسی اہم لڑائیوں میں، جہاں لفظی طور پر ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں، نرسوں کو اکثر زخمی فوجیوں کو بچانے اور انہیں فیلڈ ہسپتال لے جانے کے لیے جنگ کے میدان میں جانا پڑتا تھا۔
عارضی ایمبولینسوں کو خواتین نے ناممکن علاقے میں لے جایا تھا، اور زندگی بچانے کے طریقہ کار اکثر خوفناک حالات میں کیے جاتے تھے۔ لیکن یہ صرف فیلڈ ہسپتالوں میں نہیں تھا جہاں خواتین شامل تھیں۔کچھ خواتین دراصل اپنے ملک کے لیے لڑنے کے قابل ہونا چاہتی تھیں، اور خواتین سپاہیوں کے کئی ایسے کیسز سامنے آئے جو فرنٹ لائن پر جانے کے لیے مردوں کے بھیس میں شامل ہوئیں۔ لیکن زیادہ تر خواتین کو ملک کو چلانے کے لیے گھر پر چھوڑ دیا گیا تھا جب کہ مرد جنگ کے دوران دور تھے۔ اندراج شدہ مردوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے، خواتین کو زیادہ سے زیادہ اہم کردار سونپے گئے، بشمول ریلوے میں، بطور پولیس افسران، فیکٹری ورکرز اور جنگی سامان چلانے والے۔
اعلیٰ طبقے میں، خواتین نے بھی یونیفارم بنا کر، نئے بننے والے ریڈ کراس جیسے خیراتی اداروں کے لیے رقم اکٹھی کر کے اور خندقوں میں فوجیوں کو لکھ کر جنگی کوششوں کی حمایت کی۔ بہت سی خواتین کے لیے نئی پائی جانے والی آزادی اس تبدیلی کی علامت تھی جو وسیع تر معاشرے میں رونما ہو رہی تھی: ووٹروں کی تحریک شروع ہو رہی تھی اور 1914 ء تک، اگرچہ جنگ میں خلل پڑا، برطانیہ میں تبدیلی کے لیے ایک بڑی طاقت بن چکی تھی۔ خواتین کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔دوسری جنگ عظیم میں خواتین کے کردار میں بہت زیادہ توسیع ہوئی۔ 1945 ء تک لاکھوں خواتین فوج کو ہوائی جہاز، بحری جہاز اور گولہ بارود فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی تھیں۔
خواتین کو نہ صرف رضاکارانہ طور پر فنڈز اکٹھا کرنے، انخلا کرنے والے بچوں کو لے جانے، اپنے باغات میں 'جیت کے لیے کھودنے'، اور جنگی کام کرنے والی فیکٹریوں میں ملازمتیں لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی تھی بلکہ ان سے فوجی صفوں میں شامل ہونے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔ افواج میں شامل ہونے والی 75 فیصد خواتین رضاکار تھیں۔خواتین کے لیے فوجی کردار وسیع پیمانے پر تھے۔ ایئر ٹرانسپورٹ کے معاون پائلٹوں نے فیکٹریوں سے فوجی اڈوں تک خطرناک راستوں پر طیارے اڑائے ۔ 640,000 سے زیادہ خواتین نے تمام خدمات میں خدمات انجام دیں۔عورت کو دنیا نے جس نگاہ سے دیکھا وہ مختلف جگہوں میں مختلف رہی لیکن جو عزت اور مقام عورت کو اسلام نے دیا ہے وہ دنیا کی کسی مذہبی تاریخ میں نہیں ملتا۔
اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کر دئیے بلکہ انکو مردوں کے برابردرجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے ۔اسلام جو مکہ او مدینہ کی سرحدوں سے نکل کر روم ایران شام جیسی سپر پاور سلطنتوں کو تہ و تیغ کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا یقینا ان فتوحات کا سہرا ان بہادر عورتوں کے سر ہے جنہوں نے ماں. ہونے کی حیثیت سے جوان بیٹوں کو خود میدان کارزار کی طرف رخصت کیااور بہنوں نے بھائیوں کو خود تیار کر کے روانہ کیا ۔ان بہادر مسلمان عورتوں نے دفاع اسلام کی خاطر خود بھی میدانوں کا رخ کیا اور مجاہدین اسلام کو جوش دلانے کے لیے جہادی اشعار کہے۔کتب حدیث، سیرت نبوی اور تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بعض معرکوں میں خواتین شریک ہوا کرتی تھیں۔
غزو احد کے موقع پر خود آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ بعض دوسری صحابیات (ام سلیم، ام سلیط) کے ساتھ زخمیوں کو پانی پلانے اور ان کو شہر منتقل کرنے میں مشغول تھیں اور ایک مشہور صحابیہ حضرت ام عمارؓ تو تلوار لیے باقاعدہ کافروں سے جنگ کر رہی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کادفاع کر رہی تھیں۔ وہ ناپاک کافر ابن قم جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کرنے کے لیے بڑھا تھا، اس پر حضرت ام عمارہ نے تلوار کا وار کیا، لیکن چونکہ وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا، اس لیے اس وار کا اس پر اثر نہ ہوا اور بھاگتے ہوئے اس نے حضرت ام عمارہؓ پر وار کیا۔ اس سے ان کو کاری زخم لگا جس کو انہوں نے برداشت کیا۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے بھی اس جنگ میں لڑ رہے تھے۔ حضرت ام عمارؓ نے اس موقعے پر کئی کافروں کو قتل کیا۔
ان کی بہادری کے جوہر دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (کس میں اتنی طاقت ہے جو ام عمارہ میں ہے؟) ام عمارہ پھر جنگ خیبر میں بھی شریک تھیں اور جنگ یمامہ میں تو انہوں نے وہی بہادری کے جوہر دکھائے جو جنگ احد میں دکھائے تھے۔ وہ مسیلمہ کذاب کو اس جنگ میں اپنے بیٹے عبداللہ کی شہادت کے بعد ذاتی طور پر قتل کرنے کے درپے تھیں، لیکن جب وہ اس کے قریب پہنچیں تو دور سے وحشی قاتلِ حمزہ کا، جو مسلمان ہو چکے تھے، بھالا مسیلمہ کذاب کے لگا جس نے اس کی جان لے لی۔ ام عمارہ ؓکے علاوہ ام عطیہؓ اور ام سلیم ؓوغیرہ کی جنگ احد اور خیبر میں شرکت کا ذکر ہمیں سیرت وتاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔
تبصرہ لکھیے