ہوم << بند لفافے میں کیا ہے! مفتی منیب الرحمن

بند لفافے میں کیا ہے! مفتی منیب الرحمن

سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل مقتدرہ کے اتفاقِ رائے سے تحریک لبیک اور حکومتِ پاکستان کے درمیان جو معاہدہ ہوا ، اس پر پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا ،سب کی نبضیں رکی ہوئی تھیں کہ خدانخواستہ کوئی انہونی نہ ہو جائے، اللہ نے کرم فرمایا اور کوئی انہونی اور ’’ناشُدنی‘‘ نہیں ہوئی ۔لیکن مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر لبرل عناصرنے شدّومدّ کے ساتھ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا،شاید ان کی خواہش یہ تھی کہ تحریک لبیک پاکستان میں جو جانثارانِ مصطفی ہیں، انھیں معاذ اللہ! گولیوں سے بھون کر رکھ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ وہ اپنی ان خواہشات میں ناکام رہے اور معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا ، اب لے دے کے یہ سوال ان کو پریشان کیے جارہا ہے :معاہدے کے ’’بند لفافے میں کیا ہے‘‘، ان کی خدمت میں گزارش ہے :’’بند لفافے میں پاکستان کے لیے امن ہے ، سلامتی ہے ، خیر ہے ،صلاح ہے اور فلاح ہے، اس میں جو کچھ بھی ہے، وہ آئین وقانون کے دائرے میں ہے‘‘۔ ہم نے کہا تھا: ’’جو طے پایا ہے، وہ آپ کو عملی شکل میں نظر آئے گا اور الحمد للہ! نظر آرہا ہے‘‘، یہ اُن کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہے، اس کے جتنے بھی پرت کھولیں گے، اس سے آپ کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔

حیرت ہے کہ اس بات کو پاکستانی تاریخ کا عجوبہ قرار دیا جارہا ہے کہ معاہدہ خفیہ کیوں رکھا گیا ہے،پس ہمارا سوال ہے: ’’نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ملک کی بَرّی وبحری حدود،فضائی اڈوں اورراہداری سمیت بہت کچھ امریکہ کے حوالے کردیا تھا، کیا کوئی تحریری دستاویز آج تک قوم کے سامنے پیش کی گئی ہے کہ اس کی شرائط کیا تھیں اوراس ڈیل میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اُس پر ہمارا لبرل میڈیا شوروغوغا کیوں نہیں کرتا، بلیک واٹر کے خونی درندوں کو مسلّمہ عالمی سفارتی روایات کے برعکس دبئی میں سینکڑوں ویزے جاری کیے گئے، اس کا معاہدہ یا اُن جاری کردہ ویزوں کی تعداد یا اُن ایجنٹوں کی واپسی کا ریکارڈ آج بھی کوئی ہمیں بتادے، لیکن ’’ہرچہ از امریکہ آمدنکوست‘‘، یعنی امریکی غلامی کی ہر ادا اور ہر عمل ہمارے لبرلز کو محبوب ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد نادیدہ معاہدے کے تحت جن لوگوں کو بیچ کر ڈالر کمائے گئے ، کوئی آج بھی ہمیں اُن کے نام ،تعداد اور وصول کردہ رقم کا میزان اور مَصرف بتادے، الغرض میڈیا کی ’’اصول پسندی‘‘ کی حقیقت ہم پر خوب عیاں ہے ، پاکستان کی پوری تاریخ ہمیں الحمد للہ ازبر ہے ،یہ تیر صرف دینی طبقات پر برسانے کے لیے ہیں،کسی نے کہا ہے:
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی

2014 کے حکومت مخالف دھرنوں میں پولس افسران وردی اتار کر یا تلاشی دے کر وہاں سے گزرتے تھے،معروف تجزیہ نگار عارف حمید بھٹی ایک چینل پر بتارہے تھے کہ اُن دھرنوں میں بھی چار پولس والے مارے گئے تھے ، ایس ایس پی کو پکڑ کر مارا تھا، اسی طرح ملتان میں پی ٹی آئی کے جلسے میں کئی افراد جان سے گئے تھے، انسانیت کا کوئی ’’ہمدرد‘‘اُن کا مرثیہ پڑھنے کے لیے آج بھی تیار نہیں ہے،اسی طرح ساہیوال میں برسرِ عام بچوں کے سامنے ان کے باپ کو مارا گیا، کیا آج تک اُن کو انصاف ملا، اب کوئی ان کے پسماندگان کو یاد کر رہا ہے۔

ایک غلط تعبیر یہ کی جارہی ہے کہ کسی ملک کے سفیر کو واپس بھیجنا سفارتی تعلقات منقطع کرنے مترادف ہے ، یہ وزراء اور میڈیا والوں کا مغالطہ ہے، آج بھی صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت سے اور بھارت نے پاکستان سے اپنے سفیر کو واپس بلایا ہوا ہے، لیکن سفارتی تعلقات بدستور قائم ہیں،بھارت اور پاکستان میں تین جنگیں ہوئیں، لیکن سفارتی تعلقات قائم رہے، الغرض دوسرے ملک کے سفیر کو واپس بھیجنا یا اپنے سفیر کو دوسرے ملک سے واپس بلانا یہ ناراضی کا علامتی اظہار ہوتا ہے، امریکہ نے جب اوکس معاہدہ کیا تو فرانس نے نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ سے اپنا سفیر وقتی طور پر واپس بلایا، یہ بھی امریکہ سے ناراضی کا علامتی اظہار تھا۔ الغرض کسی ملک کے سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ ایسا ’’سیاسی کفر‘‘نہیں ہے جو پاکستان میں پہلی بار ہوا ہو، ماضی میں بھی ایسے مطالبات ہوتے رہے ہیں، بلکہ دیواروں پربھی نقش ہوتے رہے ہیں، لیکن کسی نے اس کی ایسی تعبیر نہیں کی جو آج تحریک لبیک کے مطالبے کے حوالے سے کی جارہی ہے، امریکہ اور روس ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرتے رہے ہیں ،لیکن سفارتی تعلقات بدستور قائم رہے۔

بعض کرم فرماتحریکِ لبیک کے ساتھ حکومتی معاہدے کو ناکام بنانے کی ارادی کوشش کے لیے دودھاری خنجر استعمال کر رہے ہیں،ایک طرف یہ کہتے ہیں :’’حکومت کی رِٹ ختم ہوگئی ،حکومت کو ہزیمت ہوگئی ، حکومت نے کمزور پوزیشن کے ساتھ معاہدہ کیا، وغیرہ‘‘ ،یہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ حکومت کوجذبات میں لاکر معاہدہ شکنی پر مجبور کیا جائے اور دوسری طرف جب میں نے یہ کہا:’’شیخ رشید فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے غلط بیانی کر رہے ہیں‘‘، تو میڈیا نے اسے اس طرح تعبیر کیا کہ گویاتحریک لبیک اپنے بنیادی مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے، یہ حربہ دراصل تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو مشتعل کرنے اورچڑانے کے لیے تھاتاکہ وہ اپنی قیادت سے بدگمان ہوں، الحمد للہ! یہ حربہ بھی ناکام ہوا ۔

فارسی کا مقولہ ہے:(ترجمہ):’’یہ وہ گناہ ہے جو آپ کے ہاں بھی سرزد ہوتا رہتا ہے‘‘، خود حکومت تحریک لبیک سے ماضی میں یہ معاہدہ کرچکی ہے ، تو سوال یہ ہے کہ اُس وقت اس سے حکومت کی مراد کیا تھی،اس نے جو معاہدہ کیا تھا،وہ ہوش کے عالَم میں تھا یاعالَمِ مدہوشی میں، پس ان کے درمیان جو آخری معاہدہ طے پایا تھا، اس میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا تھا، کیا یہ آئینی وقانونی طریقۂ کار نہیں ہے، پارلیمنٹ کا فیصلہ مثبت بھی آسکتا تھا اور منفی بھی، لیکن طریقۂ کار کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ہماری تمنا ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں ملک میں کسی کا ناحق خون نہ بہے،خواہ وہ سرکاری منصب دار ہو،کسی جماعت کا کارکن ہویاغیر مسلم ہو، لیکن قوموں کی تاریخ میں ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ پولس کے شہداء کے خاندانوں سے ہمیں بھی ہمدردی ہے ، حکومت یقینازرِ اعانت بھی دے گی اور ان کی کفالت بھی کرے گی۔ اب میڈیا پولیس کے شہداء کے خاندانوں کے احوال تو بتارہا ہے، لیکن تحریک کے درجنوں شہداء کا نام بھی نہیں لیا جارہا۔کسی ریلی یا جلوس کو روکنے کے لیے یا امن وامان قائم کرنے کے لیے سلامتی کے اداروں کو اگر ناگزیر طور پربھی گولی چلانی پڑے ، تو مسلّمہ روایت ہے کہ ہوائی فائر کیا جاتا ہے یا جسم کے نچلے حصے کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ رک جائیں اور ان کی جان بھی سلامت رہے ، جسم کے بالائی حصے پرگولی نہیں داغی جاتی کہ جان چلی جائے، لیکن درجنوں شہداء کو سینے اور سروں پر گولی مار کر شہید کیا گیا ہے، کیا میڈیا نے کبھی یہ مناظر بھی دکھائے ہیں یا اُن کے پسماندگان کو بھی ٹی وی پر بلاکر ان کا دکھ دردقوم کے سامنے پیش کیا ہے ، پس رویہ منصفانہ ہونا چاہیے۔ احترام کے ساتھ عرض ہے: آپ لبرل جب ’’سُرخے‘‘ ہوا کرتے تھے ، تو آپ کا نعرہ یہ ہوتا تھا: ’’لہو کا رنگ سرخ ہے، لہو کا رنگ ایک ہے ‘‘، لیکن اب تحریک لبیک کے شہداء کے لہو کا رنگ شاید آپ کی نظر میں دوسروں سے مختلف ہے۔

ایک سوال یہ کیا جارہا ہے کہ پولس کے مقتولین کے مجرموں کا حساب کون لے گا۔ اچھا ہے، سب کا حساب صاف شفاف طریقے سے ہوجائے ، تحریک لبیک کے جن کارکنوں کے سینوں اور سروں پر براہِ راست فائر کر کے شہید کیا گیا ہے، وہ گولیاں کہاں سے چلیں ، کس نے چلائیں اور کس کے حکم سے چلیں، نیزاحتجاجی مظاہرین کے سینوں اور سروں کو براہِ راست نشانہ بناکرگولی داغنا یہ آئین وقانون میں کہاں لکھا ہے، اس کا بھی فیصلہ ہوجائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پولیس کو قتل کرنے والے یا ظلم کرنے والے کون تھے، یہ منصوبہ بندی کے ساتھ ریلی میں شامل کیے گئے ’’ گھس بیٹھیے‘‘ تھے یا تحریک کے کارکن تھے،تاحال کوئی غیر جانبدارانہ تحقیق سامنے نہیں آئی۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ قاتلوں کو معاف کیوں کردیاگیا؟ اس سلسلے میں رحمۃا للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ وقُدوہ ہمارے سامنے ہے،غزوۂ اُحد میں آپ ﷺکے محبوب چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی تو معلوم تھا، حضرت خالد بن ولید اُس دستے میں تھے ، جس نے ’’وادی عینین‘‘پر فائز پچاس کے لگ بھگ حفاظتی دستے کو اچانک حملہ کر کے شہید کردیا تھا ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسلام قبول کرنے پر سب کو معاف فرمایا اور انھیں صحابیت کے شرف سے مشرف ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔خاتم النبیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پرقصاص اور انتقام پر قدرت کے باوجود عام معافی کا اعلان فرمایا تھا، یہ انسانیت کی پوری تاریخ میں آپ کے امتیازات میں سے ہے۔یہاں تو ’’سقوطِ مشرقی پاکستان‘‘ کے ذمے داروں کا نہ احتساب ہوا ، نہ اُن کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور نہ ہمارے ان کرم فرماؤں کے پیٹ میں اس کے لیے مروڑ اٹھتے ہیں، یہ صرف اور صرف مذہبی سیاسی تنظیم کے کارکنوں کو نشانِ عبرت بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی غالب تقدیر سے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیااور ملک ایک تباہ کن صورتِ حال سے دوچار ہونے سے بچ گیااور اب ٹی ٹی پی کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی اور معاہدے کے بعد یہ تبصرے خود دم توڑ جائیں گے۔

ریمنڈ ڈیوس نے سرکاری اہلکاروں کو شہید کیا تھا، اس کے بارے میں تو لبرلز نے اس شدّومد کے ساتھ مطالبہ نہیں کیا کہ اُسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، اس سے مقتولین کا قصاص لیا جائے اور اُسے نشانِ عبرت بنایا جائے، اُس کے لیے تو عدالت اور عادل خود چل کر جیل گئے ، اُسے اعزاز کے ساتھ بری کر کے بحفاظت لاہورائیرپورٹ پہنچایا گیااورپھر خصوصی ہوائی جہاز میں امریکہ روانہ ہوا، پس تحریک لبیک کے کارکنوں کا جرم وہی ہے جو اکبر نے برطانوی استعمار کے دور میں کہا تھا:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

ایک تبصرہ بار بار کیا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے ، جبکہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا دستور کہتا ہے کہ تمام قانون سازی قرآن وسنّت کے تابع ہونی چاہیے ،اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل ، فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ جیسے آئینی ادارے قائم ہیں،دستور حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانانِ پاکستان کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سہولتیں بہم پہنچائے ، مسلمان کے لیے اسلام کا نام لینا صرف سیکولر ازم لبرل ازم کی ’’شریعت ‘‘میں حرام ہے ، ہمارے دستور میں نہ صرف اس کی مکمل اجازت ہے ،بلکہ یہ ناگزیر دستوری تقاضا ہے۔

جب میرا کوئی اور جرم سامنے نہ آیاتو اسد طوراوربعض دوسرے حضرات نے اپنے وی لاگ میں کہا:’’اب مفتی منیب الرحمن تحریک لبیک کی قیادت کریں گے‘‘، گویا اُن کے نزدیک میں نے پرامن معاہدہ کرانے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ سیاسی مقاصد کے لیے تھا، تحریک لبیک کی قیادت حاصل کرنے کے لیے تھا ، اس بدگمانی پر اظہارِ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(1) ’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچے رہو ،کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں،(الحجرات:12)‘‘،(2):’’جس چیز کا تمھیں علم نہیں ،اس کی ٹوہ میں نہ لگ جائو، (بنی اسرائیل:36)‘‘، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’تم بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے ،دوسروں کی پوشیدہ باتوں کو جاننے کی کوشش نہ کرو،کسی کی بات سننے کے لیے کان نہ لگائو، ایک دوسرے سے بغض نہ کرو اور بھائی بھائی بن جائو،(صحیح البخاری:5143)‘‘، عربی کا مقولہ ہے: ’’(جب تک یقین یا ظنِّ غالب کی حد تک شواہد نہ ملیں )مومنوں کے بارے میں نیک گمان رکھو‘‘۔

پس میری جانب سے اپنے لبرل کرم فرمائوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ میرا تحریک لبیک کی قیادت سنبھالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے،بالفرض اگران کی پوری مجلسِ شوریٰ مکمل رضا ورغبت سے بھی مجھے ا س کی پیش کش کرے، تب بھی میری طرف سے مکمل اعتذار ہوگا، اسی طرح مجھے ان کا سرپرست یا پالیسی ساز بننے کا بھی کوئی شوق نہیں ہے، ان کا اپنا امیر ہے، اپنی شوریٰ ہے ، اپنا نظم ہے ۔ بس اتنی بات ہے کہ ہماری نظر میں اُن کا مشن مقدس ہے ، ان کا موٹو تحفظِ ختمِ نبوت اورتحفظِ ناموسِ رسالت ہے ،یہ ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے، اس لیے اُن پر جب بھی کریک ڈائون کرنے اور نیست ونابود کرنے کی بات کی گئی تو میں نے اُن کی حمایت میں آواز بلند کی اور ریاست وحکومت کو کسی عاقبت نا اندیشانہ اقدام کے تباہ کن نتائج پر متنبہ کیا ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر بار بلا ٹل گئی ، یہ میرا دینی و مسلکی فریضہ تھا اور اس سے ملک وملّت کو فائدہ پہنچا، میں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور سراپا تشکر وامتنان ہوں ۔ ہمارے لبرل کرم فرمائوں کو اندازہ نہیں کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک پاکستانی مسلمان نہایت مضطرب تھے ، اس معاہدے پر انھیں بے حدقلبی مسرّت نصیب ہوئی، یہ سب کی دعائوں کا ثمر تھا،الحمد للہ!نہ میں کسی خوش فہمی یا خبطِ عظمت میں مبتلا ہوںاورنہ اَنا کا اسیر ہوں ۔

ہمارے ایک فلسفی کرم فرما یاسر پیرزادہ صاحب نے سوال وجواب کی صورت میں ہمیں اپنی دانش سے فیضیاب کیاہے، اُن سے گزارش ہے:’’ ہم آپ سے متفق ہیں ، ایک غلطی کو دوسری غلطی کا جواز نہیں بنانا چاہیے‘‘، لیکن سب لبرلز کو مل کر ایک مذہبی طبقے کو اپنی نفرت انگیز تنقید کا ہدف بھی نہیں بنانا چاہیے۔پھر تحریک لبیک کو بعض حضرات نے ایسی تنظیموں سے مشابہت دی ہے،جن کا کردار تاریخ کا حصہ ہے، میں لاہور / اسلام آباد کے اہلِ فکر ونظر سے پوچھتا ہوں : ’’کیا آپ نے کبھی سنا کہ تحریک کا ڈیتھ اسکواڈ یا ڈیتھ سیل یا بھتہ سیل ہے،کسی نے آکر آپ سے کہا:’’ تحریک کے لوگ بھتہ مانگ رہے ہیں ،وغیرہ‘‘، آپ کو یہ فرق بھی ملحوظ رکھنا چاہیے، صرف ’’لبیک یارسول اللہ!‘‘ کے نعرے سے کسی کو اختلاف ہے ،تو اُسے ہم معذور سمجھتے ہیں۔

آپ مبہم باتیں نہ کریں، کیا تحریک لبیک ایک دہشت گرد تنظیم ہے، اُن کے ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات ہوتے ہیں، کہیں آپ کو اسلحہ لہراتا ہوا نظر آیا ہے، سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں ، انصاف پر مبنی باتیں کریں ۔نیز یہ بتائیں کہ دینی وسیاسی جماعتوں کے سڑکوں پر آنے اور دھرنا دینے کی نوبت ہمیشہ کیوں آتی ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کہ حکومت پرامن لوگوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتی، ان کے جائز مطالبات کو سننے کی روادار نہیں ہوتی ، حل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے، پرامن تاریخی ریلی کے بعد بھی شکایات کا ازالہ نہیں کیا گیا ۔ ہماری ہردور کی حکومتوں کا بلا استثناء یہی رویہ رہاہے کہ جب تک لوگ نظام کو جام نہ کردیں، وہ ہرگز قابلِ توجہ نہیں ہوتے، سوپچاس لبرل خواتین کے مظاہرے اوراُن کے مطالبات کو مین اسٹریم میڈیا باربار دکھائے گا ، لیکن پرامن مذہبی لوگوں کا ہزاروں لاکھوں کے اجتماع کا بلیک آئوٹ کیا جائے گا، یہ کون سی صحافتی یا اخلاقی قدر ہے ۔

الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! تحریکِ لبیک اور حکومتِ پاکستان کے درمیان معاہدے پر اب تک کی پیش رفت نہایت حوصلہ افزا ہے، تمام معاملات درست سَمت میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں، رکاوٹیں ہرکام میں پیش آتی ہیں، لیکن اُن سے دل شکستہ ہوکر حوصلہ ہارنے کے بجائے اُنھیں دور کرنا حوصلہ مندلوگوںکا کام ہوتا ہے، مشکلات کے آگے سِپر انداز ہونا اصحابِ عزیمت کا شِعار کبھی نہیں رہا۔ میں نے وزیر آباد جاکر مظاہرین سے خطاب کیا ، انھیں اپنی قیادت سے وفادار رہنے اور اُن کی ہدایات کی بجا آوری کی تلقین کی ، اُن سے گزارش کی کہ کل مین جی ٹی روڈ خالی کردیںاور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ تحریک لبیک کی قیادت اور کارکنان معاہدے میں طے شدہ تاریخ پروزیر آباد میں مین جی ٹی روڈ کو خالی کرکے قریب ہی چٹھہ پارک میں منتقل ہوگئے ، وہاں پرامن و پرسکون رہے،’’ لبیک یارسول اللہ ‘‘کے نعرے لگاتے رہے اور اپنے دلوں کو عشقِ مصطفی سے گرماتے رہے۔ پھر گزشتہ پیر کے دن انھوں نے وزیر آباد سے احتجاجی دھرنا ختم کیا اور پرامن طریقے سے جامع مسجد رحمۃ للعالمین لاہور کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔ وہاں وہ علامہ خادم حسین رضوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے عرس کے انعقاد تک موجود رہیں گے، ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد ہے اور توقع ہے کہ امیر تحریک لبیک علامہ حافظ سعد حسین رضوی اس سے پہلے رہاہوکر آجائیں گے اور عرس کے موقع پر مرکزی خطاب کریں گے۔ اس کے بعد تحریک لبیک کی مجلسِ شوریٰ اورمرکز سے لے کر صوبائی ،ضلعی اور تحصیل سطح تک کے عہدیداران اپنی جماعتی نظم پر توجہ دیں گے ، کارکنوں کی تربیت کریں گے ، ان تمام مراحل اور تجربات سے کارکنوں کو آگاہ کریں گے اور سب کو اعتماد میں لیں گے۔

اسے اللہ تعالیٰ کا فضل، ختم المرسلین ﷺ کا فیضان ،علامہ خادم حسین رضوی کا اخلاص اوران کی کرامت جانیں اور عشقِ مصطفی ﷺ کی حرارت سمجھیں کہ ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود ان کے جذبے بدستور جوان ہیں، میں نے وزیر آباد کے خطاب میں کہا تھا: ’’علامہ خادم حسین رضوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں عشقِ رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی ہے جس کی تابانی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور انھیں اس طرح چارج کیا ہے کہ اب وہ ’’آٹو چارج ‘‘اور’’ سیلف اسٹارٹ‘‘ہیں،انھیں ریچارج کرنے کی ضرورت نہیں ہے،موسم کی شدّت وحِدّت بھی ان کے جذبوں کو ماند نہیں کرپاتی ،شاعر نے فطرتِ اسلام کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے کہاہے:
اسلام زمانے میں، دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضموں،ہم تم کو دکھادیں گے
اسلام کی فطرت میں ،قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ ابھرے گا،جتنا کہ دبادیں گے

مولانا الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مِسِ خام کو جس نے کندن بنایا

کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا

’’مِسِ خام کو کُندن بنانے‘‘ کے معنی ہیں: ’’کچی دھات (مثلاًخام سونے)کو بھٹی میں ڈال کر اور کھوٹ نکال کر خالص اور کھرا سونا بنایا، مولانا حالی نے علم ،تہذیب ، شائستگی اور اعتقادِ خالص سے عاری انسان کو خام دھات سے تشبیہ دی اور یہی خام دھات جب عشقِ رسالت کی بھٹی میں ڈھل گئی تو انسانی شاہکار وجود میں آئے،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، ان میں سے زمانۂ جاہلیت میں جس میں کوئی جوہر کمال تھا، اسلام قبول کرنے اورحقیقتِ اسلام کو سمجھنے کے بعدوہ انسانیت کے بہترین نفوس بن گئے، (صحیح مسلم :2638)‘‘۔الغرض خام کو پختہ کردیا ، بے کمال کو باکمال بنادیا اور باکمال کو اوجِ کمال پر پہنچادیا۔