بعض لوگ تسلسل سے ’’رِٹ آف دا گورنمنٹ‘‘ کی بات کرتے ہیں ، اُن کا مطلب ہوتا ہے :’’ طاقت حق ہے ‘‘، یہی اہلِ مغرب کا موٹو ہے :’’چونکہ مادّی طاقت ہمارے پاس ہے ، اس لیے حق وہی ہے جو ہم کہیں یاہم کریں یا جو ہمیں قبول ہو،اس کے سوا سب کچھ باطل ہے‘‘ ،اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو کربلا کا سارا فلسفہ ہی الٹ جاتا ہے ،فلسفۂ کربلا تو یہ ہے:’’ حق طاقت ہے‘‘، حقانیت کے فیصلے مُہلک اسلحے کی فراوانی اور مادّی طاقت کے بل پر نہیں ہوتے،بلکہ اصول و اَقدار اور دلیل واستدلال پر مبنی ہوتے ہیں۔ہمارے لبرل سیکولر کرم فرماؤں کا حکومتِ وقت سے شکوہ یہی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے جاں نثاروں کو طاقت استعمال کرکے العیاذ باللہ! نیست ونابود کیوں نہ کردیا گیا، امریکہ اوران کے فکری ہمنوائوں کا بھی یہی نظریہ ہے کہ اُن کے نظریاتی مخالفین کو نیست ونابود کردیا جائے۔ جبکہ اُن کا اپنا حال یہ ہے کہ اگر چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے ان میں سے کسی ایک کو غائب کردیا جائے تو قیامت برپا کردیتے ہیں کہ پریس کی آزادی سلب ہوگئی ،انسانی حقوق کی حرمت پامال ہوگئی، کیونکہ طاقت ور فرد ہو یا طبقہ ،صرف اپنی ذات یا گروہ کے لیے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، ان کے نظریے میں کمزور طبقات کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔
بعض حضرات نے کہا ہے:’’احتجاج پر مائل مظاہرین بھی شہید اور انھی کے مقابل اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے پولس کے مقتولین بھی شہید، دونوں کا حکم ایک کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘،اس کا جواب درج ذیل احادیث میں ہے:
(۱)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب دومسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ (یعنی مسلّح ہوکر)ایک دوسرے کا سامنا کریں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے، آپﷺکی بارگاہ میں عرض کیا گیا:یارسول اللہ!قاتل کا جہنمی ہونا توسمجھ میں آتا ہے ،مقتول کیوں جہنم میں ہوگا، آپ ﷺنے فرمایا:کیونکہ وہ بھی اپنے فریقِ مخالف کے قتل کا خواہاں تھا، (مسلم:2888)‘‘۔ اس حدیث میں قاتل ومقتول دونوں کا یکساں حکم جہنمی ہونا بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جرمِ قتل کی نیت میں دونوں کی حیثیت برابر تھی، یہ الگ بات ہے کہ ایک کا داؤ چل گیا اور دوسرے کا نہ چل سکا.
(۲)’’یزید بن اَصمّ کہتے ہیں:انھوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے جنگِ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا ، تو امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہمارے اور اُن کے (یعنی طرفین کے)مقتولین جنّت میں ہوں گے اور (حق اور باطل کا)معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان دائر ہوگا. (مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۷۸۸۰)‘‘، یعنی دونوں طرف کے مقتولین اپنے اپنے امیر کی اطاعت میں اور ان کے حکم پر لڑ رہے تھے، اسی کو ہمارے ہاں ریاستی فریضہ کہاجاتا ہے۔ لہٰذا کسی معاملے کے دونوں فریق اپنے اپنے عمل اور نیت کے مطابق جنتی بھی ہوسکتے ہیں اور جہنمی بھی ہوسکتے ہیں۔
(۳)’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ دو آدمیوں سے راضی ہوتا ہے ، ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور دونوں جنت میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ!یہ کیسے؟، آپ ﷺنے فرمایا:ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور شہید کردیا جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ کی توفیق عطا فرماتا ہے ،پس وہ اسلام لے آتا ہے ،پھر وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے (تو یقینا وہ بھی جنت میں جائے گا). (صحیح مسلم:۱۸۹۰)‘‘۔
(۴)’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اہلِ نہروان ( خوار ج ) کے بارے میں پوچھا گیا : کیا وہ مشرک ہیں ،آپ نے فرمایا: شرک سے تو وہ بھاگ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں. پھر پوچھا گیا : کیا وہ منافق ہیں ، آپ نے جواب دیا : منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں. پھر سوال ہوا : تو آخر وہ کیا ہیں؟ آپ نے جواب دیا : وہ ہمارے (اسلامی ) بھائی ہیں جنھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، اس لیے ہم ان سے قِتال کر رہے ہیں. (البدایہ والنہایہ ،ج:5، ص: 393-94)‘‘۔ اسی طرح کی روایات فقہِ جعفریہ میں بھی موجود ہیں: امام حسین بیان کرتے ہیں :امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اہلِ نہروان (خوارج) کے بار ے میں سوال ہوا : کیا یہ مشرک تھے؟ فرمایا : شرک سے تو انہوں نے دوری اختیار کی (اور اسلام قبول کیا ). عرض کی : تو کیا منافق تھے؟ فرمایا : منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں. عرض کی: تو آخر یہ کون لوگ تھے؟ فرما یا : انھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تو اللہ نے ان پر ہمیں فتح عطا فرمائی. (الجعفریات ، ص : 234)‘‘۔ حضرت امام جعفر صادق نے امیر المومنین حضرت علی سے روایت کیا : ’’حروریوں (خوارج ) سے ہم نے جنگ نہ اس لیے کی ہے کہ ہم نے ان کی تکفیر کی ہو اورنہ اس لیے کہ انھوں نے ہماری تکفیر کی ، جنگ کا سبب یہ تھا کہ ہم حق پر تھے اور وہ باطل پر. (الحمیری ، ص: 45)‘‘۔
یہاں بھی صورتِ حال یہی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکن ناموسِ رسالت کے لیے سراپا احتجاج تھے اور پولس کی گولی یا شیل لگنے سے شہید ہوگئے، سیاسی مظاہروں میں پاکستان کی چوہتّر سالہ تاریخ میں احتجاج پر مائل مظاہرین اور پولس میں جھڑپیں ہوتی رہی ہیں، بلکہ اس طرح کے واقعات امریکہ ویورپ کے ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں، پس عوام کی مزاحمت یعنی ڈنڈے مارنے یا پتھراؤسے پولس کے افراد زخمی ہوجاتے ہیں یا شہید ہوجاتے ہیں ، ایک مقدس مشن کے لیے مزاحمت کرتا ہے ، دوسرا اپنے ریاستی فرضِ منصبی کے لیے اقدام کرتا ہے، کیونکہ اُسے ذاتی حیثیت میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے جسم کے زیریں حصے پر یعنی پاؤں یا ٹانگوں پر گولی چلانی ہوتی ہے ، کیونکہ مقصد قتل نہیں ہوتا ،بلکہ پیش قدمی کو روکنا ہوتا ہے ، لیکن تحریک لبیک پاکستان کے ایسے درجنوں شہداء ہیں،جن کے جسم کے بالائی حصے (یعنی سینے اور سر)پرگولیاں لگیں اور وہ شہید ہوگئے، سوبعض صورتوں میں پولس نے بھی حد سے تجاوز کیا۔
شریعتِ مطہرہ کے مطابق ہر جائز اور معروف کام میں مسلمان حکمران کی اطاعت وفرمانبرادی واجب ہے،خواہ وہ مسلمانوں کے باہمی اتفاقِ رائے سے حاکم اور ریاست ومملکت کا سربراہ منتخب ہوا ہویابزورِ بازواور قوت وطاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں پر اقتداراور غلبہ حاصل کرلیا ہو،لیکن قرآنِ کریم نے صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ﷺ کی اطاعت کو غیر مشروط قرار دیا ہے، حاکم کی اطاعت مشروط ہے اور حاکم کی خلافِ شرع بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے صاحبانِ اقتدار اور اختیار کی اطاعت کرو، پھر اگر تمہارا (حاکمِ وقت سے)کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو،اگرتم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ،یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے. (النسآء:59)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ﷺ کی اطاعت غیر مشروط طور پر لازم ہے،لہٰذا جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم سامنے آجائے تو اسے کسی پس وپیش اور حیل وحجت کے بغیرماننا ہوگا، البتہ حاکم کی اطاعت مشروط ہے، اگر اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہے یا اس کے خلاف نہیں ہے ،تو اُسے تسلیم کیا جائے گااور اگر اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہے ،تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسے امر میں غیر اللہ کی اطاعت (خواہ وہ کوئی بھی ہو)لازم نہیں ہے ، جس میں اللہ کی معصیت لازم آتی ہو(غیر اللہ کی اطاعت )صرف نیک کاموں میں لازم ہے. (صحیح مسلم: 1840)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں فرمایا تھا: ’’لوگو!میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں، حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے افضل(ہونے کامدعی) نہیں ہوں، اگر میں ٹھیک ٹھیک کام کروں توتم میری اعانت کرو اور اگر (بفرضِ مُحال)میں راہِ راست سے ہٹ جاؤں تو تم مجھے سیدھا کردو،سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تم میں سے جو (بظاہر )کمزور ہے، وہ در حقیقت میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ میں (ظالم سے) اُس کا حق لے کر ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کوواپس دلا دوںاور تم میں جوبظاہر بڑا طاقتور ہے ،وہ میرے نزدیک (سب سے)کمزور ہے تاوقتیکہ میں اُس سے ان شاء اللہ تعالیٰ (مظلوم کا) حق واپس لے لوں، جو قوم’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘کوچھوڑ دیتی ہے،اللہ تعالیٰ (اس کے وبال کے طور پر)اُس پر ذلت وخواری مسلّط فرما دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی وبدکاری کی وبا پھیل جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پرمصیبتیں نازل فرما دیتا ہے اور (سنو!)جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جادۂ مستقیم پر قائم رہوں، تم بھی میری اطاعت کرنا اور اگر (بفرضِ مُحال) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم کی اطاعت کا بندھن توڑ کر نافرمانی کے رستے پر چل پڑوں، تو پھر تم پر میری اطاعت ہرگز لازم نہیں ہوگی. (سیرتِ ابن ہشام،ج:2،ص:661)‘‘۔
تبصرہ لکھیے