اسد کی پیدائش نارمل ہوئی، وہ ایک خوبصورت صحت مند بچہ تھا۔گھربھر کی آنکھوں کا تارا تھا۔ پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا ہی تھا کہ پولیو کے موذی مرض کا شکار ہو گیا۔ پولیو کے اثرات سے نہ صرف وہ جسمانی طور پر معذور ہو گیا بلکہ اس کی ذہنی صحت بھی اس سے متاثر ہو گئی۔ وہ پوری زندگی کے لئے دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ یہ صرف اسد کی کہانی نہیں بلکہ پولیو سے متاثرہ بہت سے بچوں کی زندگی کا المیہ ہے۔ ہر سال پاکستان سمیت پوری دنیا میں 24 اکتوبر کو پولیو کا دن منایا جاتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ پولیو کیا ہے؟
پولیو ایک وبائی مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضاءکے پٹھوں میں کمزوری کا باعث بھی بن سکتا ہے اور محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ایک دفعہ کسی صحت مند فرد کو پولیو ہو جائے تو پھر اسکا علاج ممکن نہیں ہے۔ پولیو کسی صحت مند فرد تک کیسے پہنچتا ہے؟ پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہوجانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پولیو کی علامت میں بخار ، تھکاوٹ، سر درد، متلی، گردن کا اکڑاؤ، اعضاء میں درد ، ٹانگوں پر فالج کا حملہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ پولیو سے اگرچہ ہر عمر کے افراد کو خطرہ ہے مگر پانچ سال تک کی عمر کے بچے جن کو پولیو کے قطرے نہ پلائے گئے ہوں اس مرض کے لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ پولیو سے متاثرہ 5سے 10 فیصد بچے ابتدا ہی میں مر جاتے ہیں۔ بچ جانے والے افراد میں ذہنی و نفسیاتی عوارض فورا یا 15 سال کے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن افراد کو بچپن میں پولیو ہوا ،ان کے زندگی کے کسی مرحلے پر نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
پولیو کا مرض کے شواہد ہمیں قدیم مصر کی تاریخ میں بھی ملتے ہیں۔ لیکن 20 ویں صدی تک دنیا اس سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تھی۔ قدیم مصر اور رومن بادشاہت کے ادوار کی پینٹنگ اور نقاشی میں بھی پولیو کی وجہ سے معذور افراد کو دکھایا گیا ہے۔ ایک خیال کے مطابق پولیو کا سب سے پہلا رجسٹرڈ کیس معروف ناول نگار و شاعر سر والٹر سکاٹ کا تھا، 1773ء میں سکاٹ کی دائیں ٹانگ مفلوج ہوئی تو اس وقت انہیں یہ کہا گیا کہ ایسا شدید بخار کی وجہ سے ہوا ہے، حالانکہ یہ پولیو تھا۔ پولیو کے بارے میں پہلی باقاعدہ رپورٹ 1843ء میں شائع کی گئی۔ 1880ء تک پولیو خاموشی کے ساتھ یورپ میں موجود رہا پھر وہاں سے امریکہ پہنچ گیا۔ امریکہ میں اس مرض کی وجہ سے بہت زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور اس کے تدارک پر کام شروع کر دیا۔بہت سے تجربات کئے اور بالآخر 12اپریل 1955ء میں جونس سالک نے پولیو ویکسین بنانے کا اعلان کر دیا۔ ویکسین بننے کے بعد 1957ء میں پہلی بار امریکہ میں پولیو مہم چلائی جس سے پولیو کے کیسز میں واضح کمی ہوئی اور جلد ہی اس پر قابو پا لیا۔
1988 میں عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے خاتمے کا بیڑہ اٹھایا ۔ کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں پولیو کے خاتمے کے لئے مہم چلائی گئی ہے۔ زیادہ تر ممالک میں اس کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر آج بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں پولیو کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پولیو کا کوئی حتمی علاج نہیں ہے۔ اسے صرف حفاظتی قطروں کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے محفوظ اور موثر ویکسین موجود ہے۔ منہ کے ذریعے پلائے جانے والے پولیو کے قطرے (OPV) یعنی پولیو ویکسین بچوں کو پولیو کے خلاف تحفظ دینے کے لئے ضروری ہے۔ کئی مرتبہ پلانے سے، یہ بچے کو عمر بھر کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مگر بعض دفعہ پولیو ویکسین پلانے کے باوجود بھی بچے اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ دراصل ویکسین بچے میں قوت مدافعت پیدا تو ضرور پیدا کرتی ہے مگر قوت مدافعت کا انحصار کچھ اور چیزوں پر بھی ہوتا ہے جن میں ارد گرد کا ماحول، صفائی ستھرائی اور صحت کے بہترین نظام کی موجودگی شامل پے۔ ایک بچے کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے لئے پولیو ویکسین کی کم از کم تین خوراکیں درکار ہوتی ہیں۔ گرم اور مرطوب آب و ہوا والے ممالک یا ایسے ترقی پذیر ممالک جہاں بچوں میں غذائی کمی اور دستوں کی بیماری عام ہو، صفائی ستھرائی کا نظام اچھا نہ ہو اور حفظان صحت کی سہولیات بڑی سطح پر میسر نہ ہوں، وہاں بچوں میں پولیو کے خلاف مضبوط قوت مدافعت کے حصول کے لئے پولیو کے قطروں کی بہت سی خوراکوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہے۔ بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ اس لئے یہاں ہر چند ماہ بعد پولیو مہم چلائی جاتی ہے۔ تاکہ بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچایا جائے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے پولیو مہم چلائی جاتی ہے۔انسداد پولیو پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس چھ پولیو مہمات چلائی گئیں۔ رواں سال ماہ ستمبر تک پولیو کا صرف ایک نیا کیس سامنے آیا ہے۔ جو کہ خوش آئند بات ہے۔
یاد رکھیں پولیو ایک مہلک اور متعدی بیماری ہے، جو آج تک ہزاروں افراد کی یا تو جان لے چکی ہے یا عمر بھر کی معذوری ان کا مقدر بن گئی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پولیو کے سامنے ہتھیار پھینک کر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا جائے؟ علاج کرانا اور حفاظتی اقدامات کرنا سنت ہے۔ پولیو کا جنم پاکستان میں نہیں ہوا، اس کی جائے پیدائش یورپ اور امریکہ ہے، مگر ان ممالک نے اپنے شہریوں کی جان کو حقیقتاً قیمتی جانتے ہوئے آج اس مرض سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پوری دنیا نے پولیو کے مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور آج دنیا کا 80 فیصد سے زائد علاقہ اس سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ ہمیں اپنا غیر سنجیدہ رویہ ترک کرنا ہو گا۔ پولیو ویکسین کو لے کر جو افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ بےشک توکل اللّٰہ پر کرنا چاہیئے مگر اپنے اونٹ باندھ کر۔
تبصرہ لکھیے