اس کرہ ارض پر حکومتیں دو طرح کی ہیں: سیاسی حکومت اور معاشی حکومت۔ اور دہشت گردی بھی دو طرح کی ہے عسکری دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی۔ سیاسی حکومت تو سب کو نظر آتی ہے، کیونکہ وہ منتخب ہوتی ہے، کاروبار مملکت چلاتی ہے اور عزت یا ذلت سمیٹ کر رخصت ہوجاتی ہے۔معاشی حکومت چند لوگوں کے علاوہ کسی کو نظر نہیں آتی، کیونکہ اسے کوئی منتخب نہیں کرتا، بلکہ وہ سیاسی حکومتوں کو منتخب کرواتی ہے۔ وہ کاروبار مملکت نہیں چلاتی، مملکت چلانے والوں کو چلاتی ہے۔وہ دولت کماتی ہے، مزید کماتی ہے اور پھر اس سے زیادہ کمانے کے لئے نئے سیاسی مہرے تلاش کرلیتی ہے۔وہ کبھی بھی رخصت نہیں ہوتی کیونکہ رخصت تو بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ گر رخصت نہیں ہوا کرتے۔ دوسروں کو رخصت پر بھیج کر خود چند دن سانس لیتی ہے تاکہ نئے منصوبوں کیلئے نئے مہرے تلاش کرے اور پھر سے مملکت کا کاروبار ہاتھ میں لے لیتی ہے۔
عسکری دہشتگردی بھی سب کو نظر آتی ہے، کیونکہ دہشت کا معنیٰ یہ ہے کہ بات کو اتنا بڑھاوا دینا کہ سب سہم جائیں، جبکہ حقیقت اس سے کہیں کم ہو۔ سب لوگ اس سے متنفر و بیزار ہوتے ہیں اور اس کی عمر کم ہوتی ہے۔بلآخر اس کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔ معاشی دہشتگردی ہرکسی کو نظر نہیں آتی۔ وہ سات سمندر پار سے اثر انداز ہوکر بھی نظروں سے اوجھل رہنا پسند کرتی ہے۔ ہمدردی کے سات شفیق و مشفق پردو میں لپٹ کر سفاک آدم خور کی طرح خون چوستی ہے، لہٰذا لوگ اس سے نفرت نہیں کرتے، اس کے احسان مند رہتے ہیں۔ اسے پہچانے بغیر اپنے حال کی لگامیں اس کے حوالے اور اپنے مستقبل کے فیصلے اس کے سپرد کردیتے ہیں۔ معاشی دہشتگرد اس قوم کی محسن سمجھے جاتے ہیں جس کے وسائل وہ لوٹ رہے ہوتے ہیں، لہٰذا اس کی عمر کم نہیں ہوتی۔ وہ نسل در نسل ساتھ چلتی ہے اور وہی لوگ اس کے صدقے واری جارہے ہوتے ہیں جنہیں معاشی دہشتگرد قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر تہس نہس کررہے ہوتے ہیں۔جنگی اور معاشی دہشتگردی کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے دنیا پر راج کرنا بس فرق صرف اتنا ہے کہ عسکری دہشتگرد افراد کا شکار کرتے ہیں جبکہ معاشی قاتل قوموں کی زندگی اور مستقبل کو ہدف بناتے ہیں۔عسکری دہشتگرد انسان کا خون بہاتے ہیں اور معاشی دہشتگرد اسے چوستے ہیں۔ عسکری دہشتگردوں کے ہتھے چڑھنے والا چند لمحوں میں دنیا اور اسکے غموں سے آزاد ہوجاتا ہے، جبکہ معاشی دہشتگردوں کے شکنجے میں جو ایک دفعہ پھنس جائے، اسے آزادی کی صبح نصیب نہیں ہوتی اس کے بجٹ میں غربت اور جہالت لکھ دی جاتی ہے۔جنگی دہشتگرد موت بانٹتا ہے جبکہ معاشی دہشت گرد اپنے شکار کو مرنے نہیں دیتا۔ تب تو ساری کہانی ہی ختم ہوجائیگی۔وہ اس سسکتی بلکتی قوم کو موت و حیات کے بیچ کی کیفیت میں زندہ رکھتا ہے تاکہ اس کے وسائل سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ دائمی معاشی حکمرانی کا مزہ لیتا رہے۔جنگی دہشتگردوں کو تو ہرکوئی جانتا ہے معاشی دہشتگردی کو پہچاننا کافی مشکل ہے۔ اور کوئی اس سفاک قاتل کو پہچان بھی کیسے سکتا ہے جو موت کے زیر کو حیات کا تریاق کہہ کر بانٹے اور دامن پر داغ لگنے دے نا چھینٹ پڑنے دے۔
سود کا کاروبار کرنے والے عالمی ساہو کاروں کے علم میں جب کسی پسماندہ ملک کے وسائل آجاتے ہیں تو وہ ترقی کے پانچ سالہ اور دس سالہ پروگرام بناکر پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں کے تیل، گیس، کے کنوؤں یا سونے، ہیرے کی کانوں کے ''مفید'' استعمال کے شاندار منصوبے پیش کرتے ہیں۔ وہ اس قوم کو باور کراتے ہیں کہ ان قدرتی وسائل و ذخائر سے ہمارے ذریعے استفادہ کرنے سے جنت کے دروازے کھل جائیں گیترقی کے جن رقص کرنا شروع کردیں گے اور خوشحالی کی پریاں اترنا شروع ہوجائیں گی۔شہری سہولتیں عام ہوجائیں گی اور ہم بیک وقت دوکام کررہے ہونگے۔ ایک تو معدنیات نکالنے کیلئے آپ کی مددکررہے ہوں گے تو دوسری طرف ہماری ملٹی نیشنل کمپنیاں جنہوں نے ہمارے ملک میں سڑکوں کے جال بچھائے، ڈیم تعمیر کیے، بجلی اور گیس گھر گھر پہنچائی، وہ آپ کے ہاں اپنا سازوسامان لے کر آ پہنچیں گے اور پھر ان کے بنائے گئے منصوبوں کے لیے قرض ہم دیں گے، جبکہ خوشحالی اور ترقی آپکو ملے گی۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سودی قرض دینے والے ادارے اور ملکوں کے بجٹ ست بڑا بجٹ رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں وہ جڑواں معاشی دہشتگرد ہیں جو اس روئے زمین پر پائے جانے والے وسائل کو اپنی جلڑبندی میں رکھنے کیلئے پسماندہ ملکوں کی حکومتوں کو دباؤ یا لالچ کے ذریعے قرض لینے اور معدنیات گروی رکھنے پر آمادہ کرتی ہیں اور پھر قرض کے ذریعے گھاؤلگاتے ہیں اور پھر ملٹی نیشنل کمپنیاں ان زخموں پر سود کا نمک چھڑک کر اس مظلوم قوم کو اس حالت تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ غلامی کو آزادی پر اور موت کو زندگی پر ترجیح دیتی ہے۔
جب کسی ملک کی معیشت بے سہارا ہوجاتی ہے اور مجبورا وہ موصوف ایکسپائر شوکت ترین کی طرح امریکہ جانے سے پہلے ایڈوانس مہنگائی کرکے جاتے ہیں تو بھی یہ قرض دینے والے ادارے اپنی اپنی ٹرمز اینڈ کنڈیشن اور قوم کا معاشی گلہ گھونٹنے والی مہنگائی کی سخت ترین شرائط سامنے رکھتے ہیں۔ یہ شرائط اور قرضے معاشی غلامی کا وہ تسلسل ہیں جن سے آزاد ہونے کیلئے کئی حکمرانوں نے جان دے دی مگر وہ سفاک قاتلوں سے اپنی قوم کو چھڑا نہ سکے۔ انسانی تاریخ می ترکی اور چائنا وہ واحد ممالک ہیں جو اس مہم میں کامیاب ہوگئے یہ دونوں ممالک پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے تیار ہیں لیکن جب ہم خود ہی زہر کو تریاق، دشمن کو دوست ہوں تو زمانے کے ظالم ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارا شوق خودکشی ہی ہمیں چائنا سے دور رکھنے اور معاشی دہشتگردوں کیلئے اپنی گردن پیش کرنے کیلئے کافی ہے۔
تبصرہ لکھیے