ہاندے فرات 15 جولائی کی رات تک غیر معروف صحافی تھیں‘ یہ سی این این ترکی میں نیوز اینکر ہیں اوریہ چینل طیب اردگان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے‘ یہ 42 سال کی خاتون ہیں‘ ایک بیٹی کی ماں ہیں اور یہ 20سال سے صحافت سے وابستہ ہیں‘ 15 جولائی کی رات اردگان غائب تھے‘ فوج‘ پولیس‘ سیاستدان اور میڈیا انھیں ڈھونڈ رہا تھا‘ ہاندے فرات بھی تلاش کرنے والوں میں شامل تھیں‘ یہ بالآخر ان تک پہنچ گئیں‘ طیب اردگان اور ہاندے فرات میں ’’فیس ٹائم‘‘ کے ذریعے رابطہ ہو گیا‘ ہاندے نے موبائل فون پر اردگان کا انٹرویو شروع کر دیا‘ یہ انٹرویو سی این این کے ذریعے پورے ترکی میں لائیو دیکھا گیا‘ اردگان نے انٹرویو میں عوام سے باہر نکلنے‘ فوج کا مقابلہ کرنے اور باغیوں کا سر کچلنے کی اپیل کی‘ یہ اپیل ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی‘ اردگان کے حامی باہر نکلے اور پھر وہ انقلاب آ گیا جس کا مشاہدہ پوری دنیا چھ دن سے کر رہی ہے‘ یہ حقیقت ہے عوام اردگان کی اپیل پر باہر بھی نکلے‘ یہ ٹینکوں کے سامنے بھی لیٹے اور انھوں نے اپنی فوج کی درگت بھی بنائی لیکن اس حقیقت کے پیچھے بے شمار حقیقتیں ہیں‘ ہم جب تک ان حقیقتوں کا تجزیہ نہیں کریں گے ہم ’’عوامی رد عمل‘‘ کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکیں گے۔
آپ یہ ذہن میں رکھئے ترک لوگ مذہبی ہیں جب کہ ترک فوج خوفناک حد تک سیکولر ہے ‘ترکی میں عوام اور فوج کے درمیان 70 سال سے جنگ چل رہی ہے‘ فوج نے ترکی میں چار مارشل لاء لگائے‘ یہ چاروں مارشل لاء عوام کی خواہش کے خلاف تھے‘ عوام نے ان ادوار میں انتہائی مشکل وقت گزارہ تھا‘ ملک مارشل لاؤں کی وجہ سے 2002ء تک یورپ کا مرد بیمار بن گیا‘ ملک میں معیشت‘ کلچر‘ فیملی لائف اور اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا‘ عوام فوج کو ان حالات کا ذمے دار سمجھتے تھے‘ طیب اردگان آئے‘ قوم کو سچی لیڈر شپ دی اور آٹھ برسوں میں کمال کر دیا‘ 2002ء سے 2010ء تک ترکی کی تاریخ کا سنہری ترین دور تھا‘ عوام کو ان آٹھ برسوں میں امن بھی ملا‘ خوشحالی بھی‘ مذہبی آزادی بھی‘ عزت بھی اور ترقی بھی چنانچہ لوگ دل سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی عزت کرتے تھے‘ یہ طیب اردگان کو اپنا نجات دہندہ بھی سمجھتے تھے۔
یہ نجات دہندہ تھے بھی لیکن 2011ء کے الیکشن کے بعد ان میں بے شمار کیمیائی تبدیلیاں آ گئیں‘ یہ تبدیلیاں انھیں‘ ان کی پارٹی اور ملک تینوں کو تباہی کے راستے پر لے آئیں‘ عوام ان تبدیلیوں کو محسوس کر رہے تھے‘ ملک میں طیب اردگان کے خلاف آہستہ آہستہ نفرت پنپ رہی تھی‘ اس نفرت نے اگلے چند برسوں میں جوان ہو جانا تھا اور اس کے بعد جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اندر سے نئی قیادت نے سامنے آنا تھا‘ ترک سسٹم اس نئی قیادت کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن پھر پندرہ جولائی آ گیا اور عوام ایک خوفناک دوراہے پر کھڑے ہو گئے۔
اس رات ان کے سامنے دو آپشن تھے‘ یہ اس سیکولر فوج کے سامنے سر جھکا دیتے جو ترکی میں مسجد‘ اذان‘ نماز‘ قرأت اور حجاب کے خلاف ہے یا پھر یہ سول ڈکٹیٹر طیب اردگان کا ساتھ دیتے‘ عوام کے پاس طیب اردگان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا چنانچہ یہ کھائی کے بجائے کنوئیں میں کود گئے‘ طیب اردگان نے اگلی صبح ثابت کر دیا یہ واقعی سول ڈکٹیٹر بن چکے ہیں‘ کاش طیب اردگان نے 16 جولائی کو عام معافی کا اعلان کر دیا ہوتا‘ کاش انھوں نے عوام کو فوجیوں کی وردیاں پھاڑنے‘ انھیں جوتے مارنے اور انھیں سڑکوں پر گھسیٹنے سے روک دیا ہوتا اور کاش انھوں نے گرفتاریوں کا یہ خوفناک سلسلہ شروع نہ کیا ہوتا تو آج ترکی سیٹل ہو گیا ہوتا‘ آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے‘ دنیا میں حقائق تلخ بھی ہوتے ہیں اور غیر مقبول بھی اور میں اس وقت غیر مقبول بات بھی کر رہا ہوں اور تلخ بھی لیکن یہ بات کتنی بڑی حقیقت ہے‘ یہ وقت ثابت کرے گا‘ وقت یہ بھی مانے گا اردگان نے فوج اور معیشت دونوں تباہ کر دیں اور اس تباہی کے بعد اب ان کی باری ہے‘ آپ وہ دن بھی دیکھیں گے جب ٹینکوں کے سامنے لیٹنے والے عوام طیب اردگان کے گھر سے ترکی کا جھنڈا اتار رہے ہوں گے اور جب اسی تقسیم اسکوائر میں اردگان کے خلاف نعرے لگ رہے ہوں گے‘ کیوں؟ کیونکہ اردگان کے فیصلے غلط ہیں اور غلط فیصلوں کے نتائج کبھی صحیح نہیں نکلتے۔
آپ اب پاکستان کی طرف آئیے‘ پاکستان واقعی ترکی نہیں ‘ پاکستانی فوج نے ملک میں چار مارشل لاء لگائے لیکن یہ ان مارشل لاؤں کے باوجود آج بھی مقبول ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک میں جنرل راحیل شریف میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان سے زیادہ پاپولر ہیں‘ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا پاکستانی فوج سیکولر نہیں‘ یہ آج بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگاتی ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہمارے ملک میں فوج کے علاوہ کوئی ادارہ نہیں بچا‘ ہم فوج کے بغیر کراچی میں امن قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں‘ ہمیں چھوٹو گینگ سے نبٹنے کے لیے بھی فوج کی ضرورت پڑتی ہے‘ ہم چیف جسٹس سندھ کے صاحبزادے کو دہشت گردوں سے رہائی دلانے کے لیے بھی فوج کے محتاج ہیں‘ ہم کرکٹ ٹیم کی ٹریننگ ‘ زلزلوں‘ سیلابوں‘ بارشوں‘ لینڈ سلائیڈنگ‘ آتش زنی‘ پولیو ویکسین‘ الیکشنوں اور ووٹر لسٹوں تک کے لیے فوج کی مدد لیتے ہیں۔
ہم ملک میں فوج کے بغیر مردم شماری بھی نہیں کرا سکتے اور ہم فوج کے بغیر اپنے وی وی آئی پیز کو سیکیورٹی بھی نہیں دے سکتے‘ آپ بتائیے فوج کے بعد ملک میں کون سا ادارہ کام کر رہا ہے؟ کیا واپڈا کام کر رہا ہے؟ کیا محکمہ مال‘ پولیس‘ ریلوے‘ واسا‘ محکمہ تعلیم‘ محکمہ صحت اور نظام عدل کام کر رہا ہے؟ کیا عوام یہ حقائق نہیںجانتے؟ یہ جانتے ہیں چنانچہ یہ کبھی پاک فوج کے ساتھ وہ سلوک نہیں کریں گے جو ترک عوام نے ترک فوج کے ساتھ کیا اور آپ اس پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر بھی ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ پاک فوج ترک فوج کے بعد اسلامی دنیا کی واحد مضبوط فوج بچی ہے اور ہماری فوج اور ہمارا ایٹمی پروگرام یہ دونوں دنیا کا ٹارگٹ ہیں اورجس دن یہ ٹارگٹ بھی اچیو ہو گیا اس دن پوری اسلامی دنیا غلام ہو جائے گی‘ ہم اب آتے ہیں پاکستانی حکمرانوں اور جمہوریت کی طرف‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
اگر ہمارے ملک میں میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان طیب اردگان کی طرح عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کریں تو کیا لوگ ان کا اقتدار بچانے کے لیے سڑکوں پر آئیں گے؟ آپ کا جواب یقینا ناں ہو گا‘ ہمیں ماننا ہوگا ہمارے حکمرانوں کی پرفارمنس تسلی بخش نہیں‘ آصف علی زرداری کو پانچ سال ملے لیکن انھوں نے کیا کیا؟ قائم علی شاہ سندھ اور میاں شہباز شریف پنجاب میں مسلسل آٹھ سال سے حکمران ہیں‘ یہ 2018ء میں دس دس سال پورے کر لیں گے‘ ملک میں آج تک کسی وزیراعلیٰ کو مسلسل دس سال نہیں ملے‘ کیا انھوں نے ان دس برسوں میں کوئی ایک ایسا ادارہ بنایا جس کی مثال دی جا سکے؟ کیا ان دونوں صوبوں کی پولیس مثالی ہے‘ کیا یہ لوگ تعلیم اور صحت کو بلند سطح پر لا سکے‘ کیا انھوں نے اپنے شہریوں کو صاف پانی فراہم کیا اور کیا ان صوبوں میں بے روزگاری‘ لاقانونیت اور بیماری ختم ہوئی؟ ان کی پرفارمنس کیاہے؟
یہ درست ہے پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں حالات بہتر ہیں‘ میاں شہباز شریف نے سڑکوں اور میٹروز کی حد تک کام کیا لیکن یہ اس کے باوجود عوامی توقعات سے بہت نیچے ہیں‘ہمیں ماننا ہوگا طیب اردگان نے فوج کی خوفناک مخالفت کے باوجود آٹھ برسوں میں ملک کی تقدیر بدل دی تھی مگر ہمارے حکمران فوج کی حمایت اور مدد کے باوجود آٹھ برسوں میں کچھ نہیں کر سکے‘ عمران خان کو خیبر پختونخواہ میں مکمل اختیار ملا‘ پاکستان تحریک انصاف نے وہاں کیا کیا؟ عمران خان کوئی ایک ایسا کارنامہ بتائیں جس کی بنیاد پر یہ طیب اردگان کی طرح اپیل کریں اور لوگ ملک میں انقلاب برپا کر دیں؟ چنانچہ آپ یہ ذہن سے نکال دیجیے آپ اپیل کریں گے اور عوام سڑکوں پر آ جائیں گے‘ آپ کا ساتھ تو آپ کی پارٹیاں‘ آپ کے خاندان بھی نہیں دیں گے‘ آپ تو اپنے بھتیجوں‘ اپنے بھانجوں کو اپنے ساتھ کھڑا نہیں کر سکتے! آپ عوام کو خاک باہر نکالیں گے۔
ہمیں ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ جیسے مغالطوں سے بھی نکلنا ہوگا‘ جمہوریت بدترین اور آمریت بہترین کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ فرمائیں بدترین زندگی سے بہترین خودکشی اچھی ہوتی ہے‘ میرے بھائیو جس طرح زندگی بدترین اور خودکشی بہترین نہیں ہو سکتی بالکل اسی طرح آمریت اچھی اور جمہوریت بری نہیں ہوتی‘ ہم در اصل جس جمہوریت کو جمہوریت کہہ رہے ہیں وہ جمہوریت جمہوریت نہیں ہے‘ جمہوریت تو ڈیوڈ کیمرون ہیں‘ یہ ریفرنڈم ہار گئے تو انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار اپنی ہی جماعت کی تھریسامے کے حوالے کر دیا یوں پارٹی بھی قائم رہی‘مینڈیٹ بھی‘ سسٹم بھی اور جمہوریت بھی لیکن ہمارے ملکوں میں طیب اردگان جمہوریت ہوتے ہیں۔
ہم میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کو جمہوریت سمجھتے ہیں‘ یہ ہیں تو جمہوریت ہے‘ یہ نہیں ہیں تو جمہوریت نہیں ہے چنانچہ اُدھر اردگان نے اقتدار کے لیے ترکی تباہ کر دیا اور اِدھر میاں نواز شریف بھی یہی کر رہے ہیں‘ ہمارے حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے عوام نے پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے اور اگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پرفارم نہیں کر رہے یا ان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو پارٹی کسی اور کو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنا دے‘ کیا پارٹی میں کوئی دوسرا اہل شخص نہیں یا پھر اقتدار (نعوذ باللہ) نبوت ہے جو کسی دوسرے کو منتقل نہیں ہو سکتی‘ آپ اقتدار کے لیے ملک کو کیوں تباہ کررہے ہیں‘ آپ کیوں کسی ایسی 15 جولائی کا انتظار کر رہے ہیں جس میں آپ ہار جائیں تو بھی ملک تباہ ہو جائے اور اگر آپ جیت جائیں تو بھی ملک ہارجائے‘ آپ کیوں یہ چاہتے ہیں؟ آپ مہربانی کر کے ملک میں جمہوریت کو جمہوریت بنا دیں ورنہ دوسری صورت میں کوئی ایک تصادم ہمیں خزاں کے پتوں کی طرح بکھیر دے گا۔
تبصرہ لکھیے