ہوم << اب پاکستانی کیا کریں گے ۔۔۔نجم ولی خان

اب پاکستانی کیا کریں گے ۔۔۔نجم ولی خان

image description
image description
ترکی کے جمہوریت اور اسلام پسند بہادرعوام نے اپنے لیڈر طیب اردگان کی کال پر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ورنہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کرتی فوجوں کے سامنے عام لوگ کب آیا کرتے ہیں، ٹینکوں کا راستہ گاڑیوں سے کب روکا کرتے ہیں، بندوقوں والوں سے کب ہاتھاپائی کیا کرتے ہیں۔ ان کی تصویریں اور ویڈیوز ایک نئے دور کی بنیاد رکھ رہی ہیں، مقبوضہ کشمیر سے ترکی تک سمارٹ فونز نے حق اور سچ کے سفرکو بہت ہی آسان بنادیا ہے مگر پاکستان میں ترکی کی ناکام فوجی بغاوت نے مٹھی بھر نام نہاد دانشوروں کے ساتھ بہت خوب کیا ہے، ان کے چہروں کو ایک مرتبہ پھر سب کے سامنے بے نقاب کر کے کررکھ دیا ہے۔کچھ غرض مندوں نے ترکی میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت کے ساتھ ہی خوشیاں منانا شروع کر دیں، یہ بوٹ چاٹنے والے اپنی مستی میں یہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے کہ بوٹ بدیسی ہیں مگر انہیں بس بوٹ درکار تھے،ان کی طرف سے ترکی میں آمریت کے قیام کے تصدیقی اعلانات شروع ہو گئے اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ طیب اردگان سیاسی پناہ کے لئے پاکستان آ رہے ہیں۔
ایک قانون دان نے مجھے واٹس ایپ پر ترکی میں فوجی مداخلت کی چند تصویریں بھیجیں اور ساتھ ہی اپنی طوطا فال بھی کہ نواز شریف کے برے دن بھی آنے والے ہیں،پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کے دشمن کے طور پر جانے والے قانون دان کی خوشی دیدنی تھی، میں نے انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ پوچھا، حضور آپ خود کو قانون دان کہلوانا پسند کرتے ہیں کیا آپ نے کبھی آئین، قانون ، جمہوری نظام اور انسانی حقوق کا مطالعہ کیا ہے؟ اسی دوران سوشل میڈیا پر ترکی اور پاکستان کا موازنہ شروع ہو گیا، ایک نے کہا، ترک طیب اردگان کے لئے نکلے ہیں مگر پاکستانی کبھی نواز شریف کے لئے نہیں نکلیں گے ، دلیل بارہ اکتوبر ننانوے کی رات تھی جب ہوکا عالم طاری ہو گیا تھا، میر ا کہنا تھا،ترک بھی چار مارشل لا لگوانے کے بعد اب نکلے ہیں ورنہ اس سے پہلے تو یہ پہلا مارشل لاء لگانے اور خلافت رخصت کرنے والے کو اپنا باپ بنائے پھرتے تھے ، میں نے یہ بھی کہا، آئین اور قانون، ریاستوں اور معاشروں کے لئے ہوتے ہیں،انہیں افراد کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی فوج سے محبت مگر آمریت سے نفرت ہے تو یقینی طور پر بہت سارے چھوٹے دماغوں میں یہ بڑی بات نہیں گھس سکتی کہ یہ محض ترکی میں طیب اردگان اور پاکستان میں نوا ز شریف نامی اشخاص کا نہیں اپنے بنیادی حقوق کا دفاع ہے۔ ویسے اگر آپ افراد کا بھی موازنہ کرنا چاہیں تو پاکستانی معاشرے کی خلیج ترک سوسائٹی کی تقسیم کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں۔ میں استنبول کی کم کپے فش مارکیٹ میں موجود تھا، وہاں شراب جاموں سے چھلک رہی تھی، میوزک اور گانوں نے ماحول رنگین بنا رکھا تھا، خواتین اپنے اپنے خاندان کے ساتھ مچھلی کھانے کے ساتھ ساتھ رقص بھی کر رہی تھیں کہ میں نے استنبول کے مئیر قادر توباش کا ذکر کر دیا، خوشی سے ہنسنے بولنے والوں کے ماتھوں پر تیوریاں پڑ گئیں، لہجوں میں تلخیاں بھر گئیں تو مجھے غلطی کا احساس ہوا۔ اتاترک کے ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابی نے ترکی کو دوواضح ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ کم کپے مارکیٹ کے بعد اگلے روز بلدیہ کے معروف ریستوران میں کھانا کھایا تو معاشرتی خلیج کا کھل کراحساس ہوا، وہاں شراب پیش نہیں کی جاتی، وہاں عموماًباپردہ فیملیز آتی ہیں کیونکہ اسے قادر توباش کی بلدیہ چلاتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک دوسر اپروپیگنڈا بھی دھڑلے سے کیا جاتا ہے کہ سیاستدان کرپٹ ہیں لہٰذاتنقید کرنے والے جمہوریت کے نہیں بلکہ کرپشن کے دشمن ہیں۔ اہل علم سے پوچھئے، کیا کسی مہذب معاشرے میں آمریت سے بڑی کوئی دوسری کرپشن ہے، میں آمرانہ اور جمہوری ادوار میں ہونے والی کرپشن کے حجم کے موازنے پر نہیں جانا چاہتا مگر یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ سیاسی کرپشن کی ذمہ داری بھی آمروں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ آپ میں سے بہت ساروں کو بھٹو صاحب پسندنہیں ہوں گے اور کچھ نواز شریف کے نام سے خار کھاتے ہوں گے مگر سیاست میں یہ نام آمروں نے ہی متعارف کروائے ہیں۔ کیاآپ جاننا پسند کریں گے کہ یہ آمریت کے گملوں میں لگے ہوئے یہ پودے تناوردرخت کب بنے، جب انہوں نے آئینی اور جمہوری حکمرانی کے اصولوں کے عین مطابق خود فیصلے کرنے شروع کئے، اینٹی اسٹیبلمشنٹ بنے تو حقیقی معنوں میں لیڈر بن گئے پھر ایک کوعدلیہ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ماتحت عدلیہ کا جج دوسرے کو قتل کرنے کی ہمت نہ کر سکا تو اسے جلاوطن کر دیا گیا۔ تیسرا پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ڈیلیور ہی نہیں کر سکی، ایسے میں مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم یاد آجاتے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ آپ گلاب کے پودے کو ہرروز اکھاڑ کے دیکھتے ہیں کہ یہ پھول نہیں دے رہا اور کہتے ہیں کہ اس نے جڑیں نہیں پکڑیں، آپ سے بڑھ کر بے وقوف کون ہے۔ اسے دو لخت کرنے سمیت جو نقصانات آمریت نے اس قوم کوپہنچائے ہیں ان کو چند وقتی معاشی کامیابیوں کے تناظر سے باہر نکل کر دیکھنے کی ضرورت ہے مگر اسکے باوجود پاکستان کا کوئی بھی سیاستدان فوج کے خلاف پروپیگنڈا نہیں کرتا،کسی ڈر یا خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ قومی مفاد میں اس کا احترام کیاجاتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں مارشل لاء کی مارکیٹنگ اسی لئے نہیں کی جا رہی،’موو آن‘ جیسی کاغذی جماعتوں والے حساس علاقوں میں’ چلے آؤ‘ جیسے ہورڈنگز اسی وجہ سے نہیں لگا رہے کہ انہیں علم ہے کہ اس مرتبہ سیاستدانوں نے ڈیلیور کرنے کا عزم کرر کھا ہے۔ ایک آئینی ، سیاسی اور جمہوری دور میں اس دہشت گردی کا قلع قمع ہونے جا رہا ہے جس کے بیج ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق کے دورمیں بوئے گئے تھے۔ اگلے ڈیڑھ سے دو سال میں بجلی کے بڑے کارخانے مکمل ہوجانے جا رہے ہیں، ملک میں موٹر ویز کا جال بچھ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نقل و حمل اور پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں انقلاب برپا ہو رہا ہے، سی پیک منصوبے سے پورے ملک کی تقدیر بدلنے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔ قوم کو ادراک ہو رہا ہے کہ سیاستدان حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے جا رہے ہیں۔ برسبیل تذکرہ، طیب اردگان سے قادر توباش تک پوری ترک قیادت پاکستانی حکمرا نوں کی دوست ہے، ان کے سعودی عرب اور چین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور وہ بھارت کے ساتھ بھی غیر ضروری محاذ آرائی کے مخالف ہیں۔ پہلی مرتبہ سیاست کو خدمت کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے ، قوم کی زندگی میں سازشیوں کو اپنی موت نظر آ رہی ہے۔ یہاں جمہوری اور سیاسی رہنماوں کو بھی بطور برادری سوچنے کی ضرورت ہے ، اس ضرورت کو دھرنا سازش کے دوران پارلیمنٹ کی موثراور ذمہ دار جمہوری قوتوں نے پورا بھی کیا ہے۔
پاکستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی تین نسلوں نے آمریت میں ہی شعور کی آنکھ کھولی ، ایوب خان کے دور والے آج ہمارے بزرگ ہیں، ضیاء الحق کے دوروالے آج بااختیار ہیں اور مشرف دور والے سوشل میڈیا پر رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آمریت کے قیدی جمہوریت کی تصویر کشی نہیں کر سکتے اور مجھے بھی یہ وہم کبھی نہیں رہا کہ ہمارا نظام تعلیم اور معاشرتی ڈھانچہ باغی پیدا کر سکتا ہے جو ڈگریاں تو دے رہا ہے مگر شعور نہیں، پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد میں خوف ناک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔شاہ دولہ کے چوہے سیاسی اور جمہوری حکومتوں کی مخالفت اور مذمت کو ہی انقلابی سوچ کا درجہ دیتے ہیں حالانکہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ملکوں میں ہمت ، جرات بہادری کے تقاضے کچھ اور ہیں، جو اکیسویں صدی میں ترکی کے عوام نے نبھائے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کو درپیش کسی بھی خطرے کی صورت میں ترکوں جیسا ردعمل دے سکیں گے یا نہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ترک عوام نے صدیوں سے جاری روایت کے سامنے ایک نئی ، مضبوط اور خو ش کن روایت کھڑی کر دی ہے، سمارٹ فونز کے ذریعے دنیا گلوبل ویلج بن چکی، اس کے وائرس کچھ نہ کچھ تو پاکستان پہنچیں گے۔

Comments

Click here to post a comment