ہوم << تنقید اور تحقیر آمیز لہجے - نجم درویش

تنقید اور تحقیر آمیز لہجے - نجم درویش

میں نے بچپن کے دوستوں میں رنجشیں جنم لیتے دیکھا.
کلاس فیلوز کو ایک دوسرے سے روٹھے دیکھا.
ایک دوسرے سے نہ بچھڑنے والوں کو ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے کتراتے دیکھا.
ہاتھوں سے ہاتھ ملائے کئی فرلانگ سفر طے کرنے والوں کو دست و گریباں ہوتے دیکھا.

میں ان کے قریب گیا تاکہ دوریوں کا سبب جان سکوں.
"السَعِیْدُ مَنْ وُّعِظ لِغَیْرِہ"ِ .... "مطلب سعادت مند ہے وہ شخص جو دوسروں سے نصیحت پکڑے" کے تحت تاکہ میں اُس غلطی کا ارتکاب نہ کر بیٹھوں کہ جس کی وجہ سے اپنے بگانے یار خار بَن بیٹھے. اور شکووں کے علاوہ یہ شکوہ سب سے زیادہ ملا کہ میری تحقیر کی گئی. جب تحقیر کرنے والوں سے معلوم کیا تو اُن کا جواب تھا کہ ہم نے دوستی اور تعلق کے ناطے اصلاح کی کوشش کی. ایک کے ہاں اصلاح، دوسرے کے ہاں تحقیر تھی.

صاحب!
تنقید تو کسی نہ کسی حد تک قابلِ قبول ہوتی ہے. مگر تحقیر نہیں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بندہ دوسرے کی تصحیح کر رہا ہوتا ہے. انداز ایسا ہوتا ہے جیسے تحقیر، توہین، تذلیل کر رہا ہو. کسی حد تک تنقید تو برداشت ہو سکتی ہے مگر تنقیص نہیں، کانے کو منہ پہ کانا کہنا حق گوئی نہیں پرلے درجے کی بےشرمی ہے. بات کا اثر آپ کا لب و لہجہ ڈالتا ہے، باتیں بھول جایا کرتی ہیں. مگر لہجے یاد رہ جایا کرتے ہیں.

بہترین تعلق میں بہتری تب لائی جا سکتی ہے جب سامنے والا تمہارے لہجے سے پُرخلوص محبت کی خوشبو محسوس کرے!