اسلام کی مثال ایک درخت کی سی ہے. دعوت وتبلیغ،درس وتدریس،تصوف وسلوک،جہاد وقتال،سیاست وحکومت کی حیثیت اس درخت کی شاخوں کی سی ہے. یہ شاخیں اپنے درخت کی خوبی بھی ہیں اس کا حسن بھی ہیں. اگر ہر شاخ سے منسلک افراد یکسو ہو کر اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنی شاخ کی تعمیر وترقی کے لیے استعمال کریں تو دین اسلام کا یہ درخت پھلے گا بھی اور پھولے گا بھی.
خزاں تو دور کی بات خزاں کا سایہ بھی نہیں پڑے گا. اس پر لیکن اس معاملے میں دعوت وتبلیغ کی شاخ میں کچھ کمزوری ہے .مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ کبھی کسی درس وتدریس والے نے دعوت وتبلیغ والے کو نہیں کہا کہ آپ درس وتدریس کے لیے وقت دیں. اس لیے کہ وہ درس وتدریس کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں اور دعوت وتبلیغ کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں. اور ایک شخص یکسو ہو کر ایک ہی شعبہ میں کام کر سکتا ہے. جامع الصفات تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں. اس کے بر خلاف دعوت وتبلیغ والے جس طرح عام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں.
درس وتدریس والوں کو بھی مجبور کرتے ہیں ،تصوف وسلوک والوں کو بھی غرض دین کے ہر دوسرے شعبہ والوں کے کام میں مداخلت کرتے ہیں ،معذرت کے ساتھ اس میں عام لوگ اور تبلیغی علماء سب برابر ہیں. اب یا تو یہ انکی کم علمی ہے یا پھر ان لوگوں کو درس وتدریس کی اہمیت کا احساس نہیں ہے .اس کے نتیجہ میں درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ والوں میں مقابلہ کی فضاء بن گئی ہے. جن کو ایک دوسرے کو معاون ومددگار بننا تھا. وہ ایک دوسرے کی خامیاں ڈھونڈ رہے ہیں اور جن صلاحیتیں کو اسلام کی سربلندی ونشرواشاعت کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا.
وہ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں صرف ہو رہی ہیں اور اس سارے قضیہ میں نقصان اسلام کا ہو رہا ہے. یہ تاثر جا رہا ہے کہ اسلام کا ایک شعبہ دوسرے کا مخالف ہے. جس سے اسلام کی تعمیر وترقی جو ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہو پا رہی ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ دعوت وتبلیغ والے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں دینی علوم کی قدر ومنزلت کو پہچانیں دعوت وتبلیغ والوں کو یہ بات کبھی بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ تبلیغ کی عمارت کی بنیاد دینی علوم ہیں. اور جہاں یہ دینی علوم پڑہائے جاتے ہیں. وہ مدارس ہیں یہ کہنا کہ تبلیغ کی برکت سے مدارس آباد ہو رہے ہیں.
في الواقع درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کی برکت سے تبلیغی کام ہو رہا ہے کیونکہ تبلیغ دینی علوم کی ہوتی ہے اور دینی علوم کی اصل روح اور سرچشمہ مدارس ہیں بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ایک طالب علم دس، بارہ سال لگا کر عالم بنتا ہے اور یہ تبلیغ والے چار ماہ لگا کر خود کو اس عالم سے بڑا سمجھنے لگتے ہیں. بانی تبلیغ مولانا محمد الیاس رحمةالله عليه فرمایا کرتے تھے :
علماء کا احترام نہ کرنے والوں کا سوء خاتمہ کا ڈر ہے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تبلیغی جماعت ایک مدرسہ میں جاتی ہے وہاں جاکہ پوچھتی ہے یہاں دین کا کام ہو رہا ہے یا پہر اس مدرسہ میں کون کونسے اساتذہ کا وقت لگا ہوا ہے .
ان لوگوں کی نظر میں ایک مدرس کا اپنے گھر اور بیوی بچوں سے دور رہ کر روکھی سوکھی کھا کر قلیل تنخواہ پر کسمپرسی کی زندگی گذارنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے. رعونت بھرے لہجہ میں کہتے ہیں یہ تو یہاں کمانے آیا ہے. ان لوگوں کی نظر میں اللہ کا راستہ صرف یہ ہے کہ تبلیغ میں وقت لگایا جائے دعوت وتبلیغ کی اہمیت سمجھا تے ہوئے آیة جہاد يقتلون ويقتلون کی تفسیر يخرجون ويخرجون سے کرنا تو ان کے یہاں عام سی بات ہے. دعوت وتبلیغ والوں کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ جس طرح اہل مدارس انکی عزت کرتے ہیں. انکے کام میں انکے معاون ومددگار بنتے ہیں.
اسی طرح دعوت وتبلیغ والوں کو بھی علماء کا احترام کرنا ہوگا(چاہے سال لگا ہو یا نہیں).ان کے کام کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا تاکہ شجر اسلام جس کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے.
اصلها ثابت وفرعها في السماء کا حقیقی مظہر دیکھنے کو ملے
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاق



تبصرہ لکھیے