علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت منعقدہ امتحان میں میٹرک کے طلبہ سے بڑی بہن پہ مضمون لکھنے کے سوال نے ملک بھر میں حیرانگی، پریشانی اور شرمندگی کی لہر دوڑادی ہے، ہر زبان پر یہی سوال ہے کہ اِس سوال کا تعلیم سے کیا تعلق ہے؟ ایک محترم رشتہ کی اِس طرح سے تشریح طلب کرنا آخِر کس ضرورت یا مجبوری کے تحت ہے؟ فزیک ٹیسٹ لینے کے لیے مرد رشتے کافی نہیں؟ بہن کے بجائے والد، دادا، نانا سے متعلق بھی تو پوچھا جاسکتا ہے، بہن کے متعلق پیپر میں سوال کرنا اقدار اور اخلاقیات پہ حملہ کے سوا کچھ بھی نہیں. اندر کی کہانی یہ ہے کہ بیرونی قرضوں پہ چلنے والا نظامِ تعلیم ایسے سوال کرنے کا، مخلوط کلاسز منعقد کرنے اور آزاد خیال نصاب نافذ کرنے کا پابند ہے. صرف محکمہ تعلیم نہیں تقریبا ہر ادارہ پورا ملک ہی گروی رکھا جا چکا ہے اور قرضہ دینے والوں کی مسلط کردہ شرائط بنا سوچے سمجھے قبول اور پوری کی جارہی ہیں، چنانچہ ترجیحی طور پہ وطنِ عزیز پاکستان جیسی نظریاتی اسلامی ریاست میں تنقیصِ دین، تردیدِ دین اور آزادخیالی کی تبلیغ زور و شور سے جاری ہے، اور قانون اِس پر کوئی گرفت نہیں کرتا، نظریہ پاکستان اور دین سےمحبت کرنے والے بےبسی کے عالم میں حقوق طلبی کے لیے ریاست (حکومت) کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایک رِٹ پٹیشن بےدینی کی اِس وبا پہ دائر کر دیں. روشن خیالی کے نام پہ پھیلائی جانے والی آزادخیالی اور لبرزم کو قانون کی دائرے میں لائیے، تنقیصِ اسلام پہ کوئی قدغن لگائیے، معاشرت اور رشتوں کے تقدس کے خلاف حرکت پر کوئی ضابطہ اخلاق ہی مقرر کردیجیے کہ دین بیزار حلقے اکثریتی آبادی مسلمانوں کی دل آزاری نہ کرسکیں. مگر افسوس کہ حکمران اپنی اِس ذمہ داری سے قطعی لاتعلق ہوچکے ہیں، اقتدار کی ہوس اور بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ایک مسلم ریاست کے حکمران ریاست کے بنیادی نظریہ اور جمہور کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے غیرملکی ایجنڈا پورا کرنے میں لگے ہیں. مان لیا کہ اقلیتوں کا تحفظ لازمی ہے، امرِ شرعی ہے، مگر اِس کے ساتھ اکثریت کا بھی تو احترام کیا جانا چاہیے، اکثریت کا یہ مطالبہ عین فطری اور مطابق قوانین جمہوریت ہے کہ ریاست اپنے مذہب کی حفاظت کا خود بندوبست کرے، چنانچہ چاہیے تو یہ تھا کہ اسلامی ریاست اپنی رعایا کے جمہور طبقے کی اِس اپیل پہ عمل کرتی لیکن حقیقت حال اِس کے برعکس ہے، اکثریت پابندیوں کی زد میں ہے بلکہ دوقدم آگے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مذہب اور نظریہ کی بات کرنے پر قسم ہا قسم کے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور اِس کو جرم سمجھا جاتا ہے یعنی کہ
√ حق مانگنا بھی ہےگستاخی کا عمل
جامعات اور اداروں میں اخلاق باختہ سروے اور اس طرح کے سوالات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہیں، پسِ پردہ گیم کچھ اور چل رہی ہے، ریاست کی فکری اور نظریاتی تبدیلی کے لیے بھرپور محنت جاری ہے اور شومی قسمت حکومتی مشینری اپنے تمام وسائل کے ساتھ اِس میں مکمل طور پر شریک کار و معاون نظر آتی ہے، جبکہ عوام کو دہشت گردی اور معاشی بدحالی میں الجھا دیا گیا ہے، تو جب حکومت اسلام اور لبرلزم کی اس سردجنگ میں جمہور کے مقابل ایک فریق کی حیثیت سے واضح پوزیشن سنبھال چکی ہے اور وزیراعظم لبرل پاکستان کا نعرہ لگا چکے ہیں تو زور پکڑتی آزاد خیالی کے خلاف ہم عوام اُس سے قانون سازی کی امید کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہاں اپنے حقوق کا مطالبہ دہراتے رہنا ہوگا کہ پروپیگنڈہ بھی ایک جنگ ہے، کوشش بھی ایک عمل ہے، اِسے جاری رکھنا ہوگا، اور ساتھ ساتھ اپنے دینی افکار، مذہبی شِعار اور عقائد و نظریات کا علمی تحفظ بھی کرنا پڑے گا، اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے اُنہیں دین کا درس دیں، دینیات سے مانوس کریں، تلاوتِ قرآن، مطالعہ دین اور اور اہتمامِ نماز کا عادی بنائیں. عمومی طور پہ اِحیائے دین اور اشاعتِ دین کی کوشش کریں، اِس کے لیے ابتدا ہمیں اپنی ذات سے کرنا ہوگی اور دوسروں کو بھی ساتھ جوڑنا ہوگا مثلاً سورۃ العصر ایک جامع اور مظبوط راہِ عمل فراہم کرتی ہے، ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کے ساتھہ دعوتِ صبر کا پیغام بھی عام کرنا ہوگا، اپنے اچھے عمل سے اپنی اولاد کو صراط مستقیم پر چلنے کا عادی بنانا ہوگا، ہم کوئی بات نافذ نہیں کرسکتے مگر رواج تو دے سکتے ہیں، عمل تو کرسکتے ہیں، پس ہمیں عمل کرنا ہوگا کہ عمل محفوظ کرلیا جاتا ہے، عمل ضائع نہیں ہوتا، خیر کی دعوت عام کیجییے، الفاظ گردش میں رہتے ہیں، آواز اپنا سفر جاری رکھتی ہے، امید باندھنے اور خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، امید پہ زندگی گذاری جاسکتی ہے، خواب کوئی دیکھتا ہے جبکہ تعبیر کسی اور کے دامن میں گرتی ہے، اپنی آنے والی نسلوں کو امید دیجیے، اپنے خواب اُن کے سپرد کردیجیے، امیدوں کی تعمیر اور خواب کی تعمیر وہ خود حاصل کر ہی لیں گے
توں شاکر دعا منگی رکھ
دعا جانڑے خدا جانڑے
تبصرہ لکھیے