ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جہاں انسان بستے ہیں وہاں ان کے حقوق بھی ہوتے ہیں۔ حقوق انسانی بنیادی طور پر معاشرے میں موجود ہر شخص کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ یہ انسانوں کو اپنے حقوق سمجھنے اور اس کی تگ و دود کے لیے بنیادی اصولوں سے آگاہ کرتا ہے ۔ سماج میں مستحکم معاشرہ قائم کر نے میں انسانی حقوق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ توقع رکھتے ہیں کہ اس معاشرے میں اصولوں کے تحت زندہ رہا جائے۔ چاہے بچہ ہو، بڑا ہو، کھیتوں میں کام کرنے والا ہو یا کوڑا اٹھانے والا ہو، بلا تفریق مذہب و ملت ان حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتا ہے ۔ مذہب اسلام معاشرے میں ان حقوق اور مساوات کا درس دیتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ دنیا، یہ کائنات ایک سچائی ہے اور اس سچائی میں ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
لیکن یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ انسانی معاشرے میں جو تہذیبی ، تمدنی اور علمی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ کہلاتا ہے میں انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں؟ کیا سیمیناروں ، واکس اور موم بتیاں روشن کر کے ہم انسانی حقوق کے تقاضے پورے کر لیں گے ؟ نہیں۔ بالکل نہیں!
یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ سماجی تعلقات اور مساوات کے لیے (چاہے وہ انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی سطح پر )تعلیم کا حصول ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ارشاد ِ نبوی ﷺ بھی ہے کہ محد سے لے کر لحد تک تعلیم حاصل کرو ۔ سکول و کالج کی تعلیم پورے ملک میں مفت ہونی چاہیے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں الٹی گنگا بہ رہی ہے ۔ امیر ، امیر تر ہو رہا ہے جبکہ غریب غربت کے اندھیرے کنوئیں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ امیر کے بچے کی رسائی اعلیٰ تعلیمی اداروں تک جب کہ غریب کا بچہ آج بھی ٹاٹ پر یا درخت کے سائے تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے ۔ ان بیچاروں کو اپنے حقوق کے بارے میں سرِے سے علم ہی نہیں ہے ۔
انسانی حقوق کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے سے انسانی حقوق بارے عوامی آگاہی خود بخود بڑھ جائے گی اور عام آدمی اپنے بنیادی حقوق جاننے کے قابل ہو جائے گا۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ ناصر ف بنیادی تعلیم مفت مہیا کرے بلکہ یہ بھی اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ ایسا ماحول بھی مہیا کریں کے بچہ اس قابل ہو کہ وہ اپنے خیالات کا بھرپور طریقے سے اظہار کر سکے ۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ہے ۔ نہ اساتذہ کو اپنے بنیادی حقوق معلوم ہیں اور نہ ہی طالب علم اپنے بنیادی حقوق جانتا ہے ۔ اگر بچہ کبھی بھولے سے بھی کوئی سوال پوچھ لے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ بیچارہ زندگی بھر کسی سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا ۔ ایسی ذہنیت اسی وقت تبدیل ہو گی جب انسانی حقوق کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق چودہ سال سے کم عمر بچہ کسی فیکٹری یا کسی بھی جگہ مزدوری یا نوکری نہیں کر سکتا ۔ کیا ہمارے نصاب میں یہ پڑھایا جاتا ہے؟ کیا ہم روزانہ سڑکوں پر آئینِ پاکستان کی دھجیاں اڑتے نہیں دیکھتے کہ جہاں تین، چار سال کے بچوں کی ہڈیا ں توڑ کر ان سے زبردستی بھیک منگوائی جاتی ہے ۔ اسی طرح کسی واقعے یا جرم کے وقوع پذیر ہونے پر ملزم کو موقع پر ہی سزا نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کا فیصلہ عدالت میں کیا جاتاہے ۔ کیا آپ کو سیالکوٹ کے وہ دو کم سن نوجوان یاد نہیں جنھیں مجمعے نے سر بازار زندہ جلا دیا تھا؟ یہ بنیادی انسانی حقوق سے لاعلمی ہی تو ہے کہ آج مرنے والا بھی نعرہ تکبیر بلند کر رہا ہے اور مارنے والا بھی ۔ میں پوچھتا ہوں ایسا کیوں؟
پاکستان کے کروڑوں لوگ دور دراز علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی ، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہیں نہ تعلیم کی سہولت میسر ہے نہ صاف پانی کی ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کہ جنھیں تعلیمی درسگاہوں میں ہونا چاہیے تھا وہ چائے خانوں ، موٹر مکینک کی دکانوں اور گھریلو ملازمین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جن کے انداز حکمرانی کا گمشدہ ورثہ تھا کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی مر گیا تو قیامت کے دن اس کا ذمہ دار اس وقت کا حکمران ہوگا۔ اسی طرح جب مصر کے گورنر نے رعایا پر معمولی سی پابندیاں لگائیں تو حضرت عمرؓ نے مصر کے گورنر کو لکھا تھا کہ : ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا تم نے انھیں کب سے غلام بنا لیا ؟
میری حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ وہ انسانی حقوق کو فی الفور تعلیمی نصاب کا حصہ بنائے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چند صوبوں میں اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے