یہ دھند ہے، نہیں یار دھند ایسی نہیں ہوتی۔ پھر کیسی ہوتی ہے؟ دھند میں کچھ نظر نہیں آتا اور گاڑیاں ٹکراتی ہیں۔ دیکھ لو کچھ بھی نظر نہیں آرہا اور گاڑیاں ٹکرانے سے کئی لوگ بھی مر گئے ہیں۔ مگر دھند میں تو سردی لگتی ہے، کپکپی طاری ہو جاتی ہے، یہ کیسی دھند ہے؟ اس سے تو آنکھوں میں مرچیں لگ رہی ہیں اور گلے خراب ہو رہے ہیں۔ دھند میں لوگ شاعری کرتے ہیں، ہم بیماروں کی تیمارداری کر رہے ہیں۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے، سردی بھی نہیں لگ رہی، نظر بھی کچھ نہیں آرہا، اگر یہ دھند نہیں تو پھر کیا ہے؟
اس قسم کی گفتگو آپ کو ان دنوں لاہور میں عام سننے کو ملے گی۔ سادہ لوح لاہوریے آلودہ دھوئیں کو دھند سمجھ کر مونگ پھلی کی ریڑھیاں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے، باہر نکل کر احساس ہوا کہ اس گرمی میں مونگ پھلی کون کھاتا ہے، سو بیچارے مونگ پھلی کے بجائے آنکھوں کے ڈراپس لے کر گھروں کو لوٹ آئے۔ سارا سال روگ اور سوگ میں رہنے والی عوام فوگ اور سموگ کے فرق کو نہیں سمجھ سکی اور نہ ہی کبھی کسی نے اس کے بارے میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا میں جمع ہوتا رہتا ہے. اس دھوئیں میں زہریلی گیسیں، گرد و غبار اور دیگر کثافتیں موجود ہوتی ہیں، جب موسم ذرا سرد ہوتا ہے تو یہ کثافتیں دھند کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، جنہیں تکنیکی زبان میں سموگ کہا جاتا ہے۔ سموگ آلودہ گیسوں اور مٹی کے ذرات کا مجموعہ ہوتا ہے جو آنکھوں اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق سموگ کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا تعمیراتی کام ، کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیسیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیزی سے کم ہوتے ہوئے درخت اور سبزہ بھی سموگ کی ایک وجہ ہیں۔ قدرتی ماحول زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے اور جب اس قدرتی ماحول کو ایک خاص حد سے زیادہ چھیڑا جائے تو اس کا ردعمل ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔ انسان اپنے گھروں اور شہروں کو تو خوبصورت بنا رہا ہے مگر اس بات کو یکسر نظرانداز کر رہا ہے کہ اس خوبصورتی کے پیچھے قدرتی ماحول کا چہرہ کتنا بھیانک ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی کرنا اور دنیا کے ساتھ قدم ملانا کوئی بری بات نہیں مگر ماحول کو داؤ پر لگا کر ترقی کرنا ضرور برا ہے۔ ترقی کس کا نام ہے؟ یہی ناں کہ انسانوں کی صحت اور ان کا معیار زندگی بلند ہو سکے، ہر فرد کو صاف پانی، صاف ہوا اور صاف غذا مہیا ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا ہم ترقی کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں زندہ رہنے کے لیے ایک صاف ستھرا اور صحتمند ماحول دستیاب ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا فائدہ یہ اونچی اونچی عمارتیں اور لمبی چوڑی سڑکیں بنانے کا؟ کیا فائدہ کارخانوں پہ کارخانے لگانے کا؟ یہ ترقی انسانوں کے فائدے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ انھیں بیمار کرنے کے لیے۔ ذرا سوچیں بلند و بالا عمارتوں میں رہنے والے اور چمکتی دمکتی گاڑیوں میں سفر کرنے والے انسان تندرست نہ ہوں اور ذہنی طور پر الجھے ہوئے ہوں تو ترقی کی یہ چمک دمک کس کام کی؟ بظاہر ہم ترقی کر رہے ہیں مگر حقیقت میں ہمارا سفر تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ تفریح و تعیش کے تمام اسباب مہیا ہیں مگر چہروں پر ہنسی نہیں، دلوں میں امنگیں نہیں۔
سموگ، سموک یعنی دھوئیں اور فوگ یعنی دھند کا مرکب ہے. بدقسمتی سے بیشتر عوام عناصر سے ہی واقف نہیں تو مرکب کو کیا سمجھے گی۔ سموک سے ہماری جانکاری فقط سموکنگ تک ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ فوگ میں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور بندے مرتے ہیں، اس کے آگے ہمیں پتہ ہے نہ ہم جاننا چاہتے ہیں۔ آلودگی ہمارا مسئلہ نہیں، یہ ساری دنیا میں ہوتی ہے تو ہم کیوں پریشان ہوں؟ کیا ہم امریکہ کی طرح بڑی بڑی عمارتیں نہ بنائیں یا جاپان کی طرح زیر زمین ٹرین نہ چلائیں۔ ہمیں آلودگی کا درس دینے والے بتائیں کیا اب ہم سائیکل پر کاروبار اور دفتروں میں جائیں؟ رب نے پیسہ دیا ہے تو خرچ کیوں نہ کریں؟ کارخانے کیوں نہ لگائیں؟ ویسے بھی آلودگی پر قابو پانا حکومت کا کام ہے ہمارا نہیں۔ ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں، اس لیے ہمیں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ ایک دن انسان نے مرنا ہی ہے ناں چاہے کسی بھی بیماری سے مر جائے۔ ویسے بھی ہمیں بچپن سے ہی یہی بتایا گیا ہے کہ کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلے گا تو ہمارے گھروں کے چولہے جلیں گے اور پکی سڑک بنانے سے ہی علاقے میں ترقی آتی ہے۔ ہم کارخانے لگائیں گے اور سڑکیں بنائیں گے تو پاکستان ترقی یافتہ ملک کہلائے گا۔ کاش کوئی اس سوچ کے حامل افراد کو یہ بتا دے کہ کارخانوں کا دھواں اب گھروں کے چولہے جلانے کے ساتھ ساتھ ان کے اور ان کے بچوں کے پھیپھڑے بھی جلا رہا ہے۔ پاکستان کو ترقی کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بھی ضرورت ہے جو اس ترقی کے ثمرات دیکھ سکیں۔
پچھلے دنوں ایک ماہر ماحولیات ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ لاہور میں سموگ کی وجہ بھارت میں جلائی جانے والی چاول کی فصلیں ہیں، انہوں نے یہاں یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ لاہور جو کبھی اپنے باغات کی وجہ سے مشہور تھا، اب خطے کا چوتھا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ انفرادی سطح سے لے کر حکومتوں تک ہمیشہ یہ سننے کو ملا ہے کہ اگر فلاں ایسا نہ کرتا تو میں یہ ہوتا، یہ سب کیا دھرا ان کا ہے۔ خود کو ہمیشہ بری الذمہ قرار دینا اور تمام واقعات سے خود کو الگ کرنا ہمیں خوب آتا ہے۔ انفرادی طور پر ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم اپنے ارد گرد کا ماحول صاف رکھیں، حکومت کا یہ کام نہیں کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کوئی پالیسی بنائے۔ لگتا ہے کہ اب ہمیں قہر کو کہر اور مجبوری کو شکریہ پڑھ لینے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔
تبصرہ لکھیے