ہوم << پیارے ڈونلڈ! وعدہ وفا کرنا - سید اسرارعلی

پیارے ڈونلڈ! وعدہ وفا کرنا - سید اسرارعلی

سید اسرارعلی ڈونلڈ ٹرمپ کے جیت سے بہت سارے لوگ خوش ہیں۔ کچھ لوگ اس لیے خوش ہیں کہ امریکی سامراج اب کھل کر مسلمان دشمنی کا اعلان کریں گے لہذا مسلمانوں کے بھٹکے ہوئے ’آہوں‘ کو سوئے حرم جانے میں اب دقت نہ ہوگی۔ خود جائیں گے تو عزت قائم رہےگی ورنہ گھسیٹ کر پہنچا دیے جائیں گے۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ’’مسلمان کو مسلمان کردے گا طوفان ڈونلڈ کا‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے وہ لوگ بھی خوش ہیں جن کے رشتہ دار امریکہ میں مقیم ہیں اور ان سے اپنے رشتہ داروں کی ترقی نہیں دیکھی جا رہی، لہذا وہ چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے کم ازکم ان کے رشتہ داروں کو پھینٹی تو لگ جائے گی۔ ویسے بھی دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ لہذا یہ لوگ اب یہی دعائیں کریں گے کہ مولا! ’’شکر ہے تیرا کہ ہماری دعائیں قبول کیں، بس اس ٹرمپ بھائی کو انتخابی وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
کچھ لوگوں کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اندرونی معاملات پر توجہ دینا چاہتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ٹرمپ کا فوکس امریکہ ہے، دنیا ہرگز نہیں‘‘ جبکہ ڈیموکریٹس کی ڈرون پالیسی کو وہ پہلے ہی مسترد کرنے کا اعلان کر چکا ہے کہ ’’ڈرون حملے کسی ملک میں کسی بھی قیمت پر نہیں ہوں گے، کم از کم میرے دستخط سے تو ہرگز نہیں ہوں گے‘‘۔ اس لیے یہ طبقہ یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ دوسرے ممالک میں امریکی اثررسوخ میں کمی آجائے گی۔ ویسے اسے خام خیالی ہی تصور کی جائے تو بہتر ہے۔ جو یہ سوچ رکھتے ہیں وہ شاید امریکی تاریخ سے اور پینٹاگون کی طاقت سے نابلد ہیں۔
مذہبی طبقہ اس لیے بھی خوش رہے گا کہ مظلومیت بیچنے کا کاروبار مزید ترقی پائے گا۔ انہیں اس بات کی بھی خوشی ہوگی کہ ہندوستان اور امریکہ میں کٹر مذہبی اور اینٹی مسلم حکومتیں آسکتی ہیں اور انتہاپسندانہ نظریات پرباقاعدہ سیاست کرسکتی ہے تو پاکستانی دینی جماعتیں کیوں نہیں؟۔ ویسے دینی جماعتوں کے لیے بہرحال ’’وِن وِن‘‘ صورتحال ہے۔ اب امریکہ مردہ باد اور مرگ بر امریکہ نعروں میں مزید شدت آنے کی امید ہے۔ جبکہ اس معاملے میں حقیقت وہی ہے جس کے طرف معروف صحافی فیض اللہ خان نے کیا لطیف اشارہ کیا تھا۔ ’’طاغوت کا عملی انکار کرنے والا مارا جائے گا، جس نے زبانی مخالفت کی انتہا پسند تصور ہوگا، اور جو مصلحت کے نام پہ سودا کرے گا اقتدار میں حصہ پائے گا‘‘۔
میں نے تو الیکشن سے پہلے ہی کہا تھا کہ ’’چاہے گدھا میدان مارے یا ہاتھی، بکروں نے بہرصورت ذبح ہی ہونا ہے‘‘ اور مظلوم اقوام اچھی طرح جانتی ہیں کہ قربانی کے بکرے بھلا اور کون ہوسکتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment