اقبال جیسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے بہت سے پہلو ہیں اور ہر پہلو اتنا تابناک اور روشن ہے کہ لگتا ہے کہ یہی پہلو سب سے اہم ہے۔ مگر ان کی شاعری کا فلسفیانہ پہلو سب پر چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے فلسفے میں ماسٹر کیا تھا اور اپنی شاعری میں فلسفے کے دقیق رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اقبال کو لفظوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ قادر الکلام شاعر تھے۔ فلسفے کی پیچیدہ گتھیوں کو اس طرح آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرتے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ نظریات، وہ فلسفیانہ موشگافیاں جس کی تشریح اور تفسیر میں ادیبوں نے کتابیں سیاہ کر ڈالیں۔ اقبال نے دو مصرعوں میں بیان کر دی ہیں، چند مثالیں درج ذیل ہیں:
زندگی اور موت کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے:
زندگی کیا ہے، عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے، ان ہی اجزاء کا پریشان ہونا
وطنیت پر اقبال کی رائے دیکھیے:
ان تازہ خدائوں میں وطن سب سے بڑا ہے
جو پیرہن اس کا ہے ۔ مذہب کا کفن ہے
اقبال مرکزیت کے حامی تھے۔ فرماتے ہیں:
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی
زندگی کا فلسفہ دیکھیے:
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروزوفردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں ، ہر دم جواں ہے زندگی
قوموں کے عروج و زوال پر اس سے بہتر شاید ہی کوئی کہہ سکے:
آتجھ کو بتائوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طائوس رباب آخر
اقبال کی نظر میں شاعر کا کام مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ امید پیدا کرنا ہے ۔ فرماتے ہیں:
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
ہو جس سے چمن افسردہ، وہ باد سحر کیا
اقبال کی نظر میں آزادی سب سے بڑی نعمت ہے ، آزاد انسان کی صلاحیتیں کھل لر کام کرتی ہیں:
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے ایک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
زندہ رہنے کا فلسفہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
مسلمان قوم کے اجزائے ترکیبی بیان کرتے ہوئے:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمیعت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
اقبال خودی کے جوہر کو بہت اہم جانا کرتے تھے، مگر یہ خودی کہاں سے پیدا ہوتی ہے تو فرماتے ہیں:
خودی کا سر نہاں م لا الہ الا اللہ
خودی ہے اک دو جہاں، لا الہ الا اللہ
اور اب آخر میں اقبال کا وہ شعر جو ہم سب کے دل کی آواز ہے:
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
تبصرہ لکھیے