712 عیسوی سال تھا جب سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم کی فوج نے تجربہ کار راجہ داہر کی فوج کو ان کے اپنے ہی ملک میں شکست دیکر یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا۔ محمد بن قاسم کے حسن انتظام اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر سندھ کے بہت سارے خاندان مسلمان ہو گئے روایت یہ بھی ہے کہ راجہ داہر کا ایک بیٹا بھی مسلمان ہو گیا۔ یوں بقول قائداعظم برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ظاہر ہے جس شخص نے بتوں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک اللہ کو اپنا معبود مان لیا تو اس نے ان تمام رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کو چھوڑ دیا جس پر وہ عمل پیرا تھا۔ اس نے اس نام تک کو ترک کر لیا جو اسے پیدائش پر دیا گیا تھا۔ یہی کچھ بر صغیر میں ہوا اور ایک نئے نظریہ زندگی نے جنم لے لیا جو موجود طرز زندگی سے با لکل مختلف تھا۔
اسلام اور ہندومت دو مختلف سمتوں چلتی ہوئے دو قوموں کی صورت میں موجود رہے۔ مسلمانوں نے محمود غزنوی اور قطب الدین ایبک سے لیکر تا وقت اپنا تشخص برقرار رکھا کیونکہ ان کے پاس ایک دین، مذہب اور اصول تھے۔ اس کے برعکس ہندو مذہب مخص رسوم و رواج کا ایک مجموعہ ہی ہے وہ ہر اس چیز کو معبود بنا دیتے ہیں جو انکے فائدے یا نقصان کا باعث بنے۔ اسلام مساوات کا داعی ہے جسمیں کالے کو گورے اور عربی کو عجمی پر برتری نہیں۔ یہاں ہر انسان اپنے اعمال کی بنا پر عزت یا ذلت کا حقدار ہے۔ جبکہ ہندو مت میں عزت و ذلت خاندان اور ذات پات کی بڑائی پر ہے۔ صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہب اور رہن سہن پر مکمل طور پر قائم رہے۔ البیرونی اپنی مشہور کتاب، کتاب الہند میں1001میں لکھتے ہیں ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔ البیرونی کے صدیوں بعد بھی یہی صورتحال قائم رہی۔ اور ہندو اور مسلمان اپنے اپنے طرز زندگی پر قائم رہے۔ دراصل یہ معاملہ دو مذاہب کا تھا۔ سرسید احمد خان جو ایک عرصہ تک ہندو اور مسلمان کو ایک ہندوستانی قوم کے افراد سمجھتے رہے لیکن اردو ہندی تنازعے کے بعد نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے خیالات بدلے بلکہ بڑی شدت سے ہندو اور مسلمان کو پہلی بار دو قوموں کے طور پر پیش کیا اور اعتراف کیا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے مذہب اور زندگی گزارنے کا طریقہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ سید امیر علی اور کئی دوسرے اکابرین نے اس نظریے کی بڑی مدلل اور منطقی انداز میں تشریح کی۔ اقبال کی آواز قوم مذہب سے ہے نے برصغیر کے مسلمانوں کے شعور کو مزید جلا بخشی۔ قائد اعظم نے اس نظریے کو سیاسی طور پر اتنے مضبوط انداز میں پیش کیا کہ انگریز کو پاکستان کے مطالبے کے سامنے ہار ماننا ہی پڑی۔ قائد نے کہا مسلمان اقلیت نہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔۱۹۳۷? میں قائد نے کہا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ ہی اس کے رہنے والے ایک قوم۔ یہ بر صغیر ہے جس میں بہت ساری قومیں بستی ہیں جن میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔
آج جب ہم ایک آزاد ملک میں آزاد شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں تو کچھ ناشکرے اور احسان فراموش لوگوں کی دو قومی نظریے پر تنقید بھی سنائی دے دیتی ہے اور چند لوگوں سے منسوب اس بیان کی طرح کہ بنگلہ دیش کے قیام نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جو تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہیں ورنہ وہ جانتے کہ چوہدری رحمت علی نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگال میں بانگ اسلام کے نام سے مسلم مملکت کا منصوبہ پیش کیا تھا اور ابھی بھی ان کا ایک منصوبہ تشنہ تکمیل ہے یعنی حیدر آباد دکن میں عثمانستان کا قیام۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان رہ گئے، وہ بھی اپنا ریکارڈ اگر درست کر لیں تو بہتر ہوگا کہ اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان میں مسلمان ہندوستان سے دوگنا تھے اور جو لوگ پاکستان نہ پہنچ سکے، وہ بھی مجبوراً وہاں رہ گئے اور آج بھی کوئی اچھی زندگی نہیں گزار رہے۔ وہ لوگ اب بھی ہندوستان میں دو قومی نظریے کے ثبوت کے طور پر اپنے مذہب اور طرز زندگی پر قائم ہیں، وہ آج بھی عید میلاد النبی اور عاشورہ محرم مناتے ہیں، دیوالی اور ہولی اب بھی ان کے مذہبی تہوار نہیں، ان کے مہینے آج بھی محرم، صفر اور ربیع الاول ہیں، ماگھ اور جیٹ نہیں، اگرچہ وہ ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا کیلنڈر ہجری ہے ہندی نہیں، لباس کے معاملے میں بھی وہ ہندوؤں سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اور تو چھوڑیے طرز تعمیر ہی کو لیجیے جہاں روایتی طور پر ہندو تنگ اور ہوا بند گھروں میں رہتے ہیں، وہیں مسلمان کھلے اور ہوادار گھر بناتے ہیں، ان کے روایتی برتن اور ان کے رسم و رواج آج بھی یکسر مختلف ہیں۔ پیدائش، شادی اور موت ہر ہر طریقہ آج بھی ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ماڈرن ازم کے نام پر رسم و رواج کے ہندو ملغوبے کو اگرچہ میڈیا سے دیکھ دیکھ کر ہم میں سے بھی کچھ لوگ اپنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن سنجیدہ طبقوں میں یہ سب کچھ آج بھی نا پسندیدہ ہے۔
جو لوگ قوم کو مذہب سے الگ کر کے اس نظریے کو باطل ثابت کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قومیں بنتی ہی مذہب کی بنیاد پر ہیں ورنہ آج امریکہ مسیحی صدر کی شرط نہ رکھتا اور اسرائیل میں بھی مسلمان صدر ہونا ممکن ہوتا۔ لہٰذا اس انتہائی نا معقول نظریے پر بجائے فخر کے ندامت ان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ بھارت میں مسلمان صدر بن جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ اب وہاں دو قومیں نہیں بستی گجرات، بہار اور احمد آباد بھی بھارت ہی کے شہر ہیں جہاں مسلمان کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور انہیں ان کی مسلمانی کی شدید سزا دی جاتی ہے۔ گائے کی تقدیس کے لیے اب بھی انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچ لینا کہ دو قومی نظریہ کوئی فرسودہ نظریہ ہے میرے خیال میں یہ خیال ہی فرسودہ ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی اتنا ہی جواز رکھتا ہے جتنا آج سے سو یا تریسٹھ سال پہلے رکھتا تھا۔ دو قومی نظریے نے ہی برصغیر کے عوام کو وہ توانائی عطا کی جس نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے دشمن جب پاکستان کے خلاف سازش کرتے ہیں تو سب سے پہلے جو بھارت سے محبت اور دوستی کا ثبوت دینے کی کوشش اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ ہمارا کلچر یعنی ثقافت ایک ہے اور اس کے لیے چھوٹی چھوٹی علاقائی مماثلتوں کا سہارا لیا جاتا ہے جیسے پتنگ بازی۔ اب اگر سوچا جائے تو پتنگ بازی تو چین میں بھی ہوتی ہے چائے پاکستان سمیت پوری دنیا میں پی جائے تو کیا ساری دنیا کو ایک ہی ملک تصور کر لیا جائے گا۔ بات آج بھی وہی ہے جو البیرونی نے ہزار سال پہلے کہی تھی کہ مسلمان اور ہندو دھارے ایک دوسرے کو چھوتے ضرور ہیں آپس میں مدغم نہیں ہوتے۔
ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے معاہدے یا دوستی کی کوشش میں کوئی حرج نہیں لیکن ایک تو اپنی غیرت ملی کی قیمت پر نہیں یعنی اتنا نہ جھکا سر کو کہ دستار سر سے گر پڑے اور دوسرے اپنی قومی شناخت کی قیمت پر بھی نہیں۔ آخر میں میں اس اہم ترین تقسیم کا ذکر کرونگی جو رب کائنات نے کی ہے یعنی مسلمان ایک ملت ہے اور غیر مسلم دوسری ملت۔ اور یہی حقیقت بر صغیر میں بھی ہے کہ مسلمان ایک قوم اور ہندو دوسری قوم ہے۔
تبصرہ لکھیے