میری طرح تقریبا 99.9 فیصد پاکستانیوں کو امریکی الیکشن کی اتنی ہی سمجھ آتی ہوگی جتنی کسی کو چودھری شجاعت کی تقریر اور شیخ رشید کی سیاست، مگرسوشل میڈیا پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے امریکی الیکشن نہ ہوئے، این اے 122 لاہور کے ہوگئے. تبصروں اورتجزیوں کی بھرمار ہے، پاکستان اور اسلام کے لیے کون فائدہ مند اور کون نقصان دہ ہوگا؟ ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ، ڈیموکریٹس یا ری پبلکن؟ جیسے سوالات کا گھر بیٹھے کچھ جانے بغیر جواب دیا جا رہا ہے.
امریکہ صدر چونکہ دنیا میں طاقت کا استعارہ ہے، اس لیے اس کے انتخاب کو بنیادی اہمیت حاصل ہے مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ صدارتی الیکشن کے ساتھ عام انتخاب بھی ہو رہا ہے جس میں کانگریس کے لیے نمائندے چنے جا رہے ہیں، ساتھ میں ایک تہائی سینٹ کی نشستوں پر بھی انتخاب ہو رہا ہے. یہ بات ذہن میں رہے کہ امریکہ میں حکومت تین طاقتور اداروں صدر، کانگریس اور سپریم کورٹ کے مجموعہ کا نام ہے. امریکی آئین ان تینوں اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو ممکن بناتا ہے. حقیقت میں یہ تینوں مل کر ”چیک اینڈ بیلنس“ کا نظام قائم کرتے ہیں. طاقت کے اس مثلث میں امریکی کانگریس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس کی حیثیت بقیہ دونوں اداروں کو مانیٹر کرنے اور ان میں توازن برقرار رکھنے کی ہے. ملکی معیشت، بجٹ اور دفاع (جنگیں) وغیرہ جیسی اہم ترین چیزیں کانگریس کے ذمہ ہیں. امریکی صدر، امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف اور طاقت ور ترین شخص ہوتا ہے، مگر اندرونی و بیرونی پالیسیوں کے لیے کانگریس کی منظوری ضروری ہوتی ہے، جیسے امریکیوں کا محبوب مشغلہ ”جنگ“، کانگریس کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے. موجودہ کانگریس 114 ویں کانگریس ہے، اور اس میں ڈیموکریٹ صدر بارک اوباما کی مخالف پارٹی ری پبلکن کی اکثریت ہے، اس لیے بارک اوباما اپنے آخری دنوں میں شدید مشکلات کا شکار رہے ہیں، اور بعض اہم امور جیسے سپریم کورٹ میں جج کے تقرر میں ناکام رہے ہیں. اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوباما کے دور میں دنیا میں جو اچھا یا برا ہوا، اس میں ری پبلکن پارٹی بھی اتنی ہی شامل اور ذمہ دار ہے جتنی ڈیموکریٹس اور اس کا صدر، چاہے وہ عراق جنگ ہو، داعش کی خلافت ہو، کولیشن سپورٹ فنڈ ہو یا ماضی قریب میں ایف-16 اور پاکستان کو نئے قرضے کی فراہمی میں معطلی، وغیرہ وغیرہ. چنانچہ ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ، دونوں میں سے کسی کے آنے سے امریکی ریاست کی بنیادی حکمت عملی اور پالیسیوں میں کوئی خاص فرق نہیں آئے گا. پاکستان کے حوالے سے تو دونوں ہی خطرناک خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور آنے والے دن کافی سخت ہو سکتے ہیں.
گزشتہ دہائیوں میں کئی امریکی صدارتی انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ کالا آئے یا گورا، مسلمان کا بیٹا آئے یا یہودی و عیسائی کا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تہذیبی کشمکش اور اس میں طاقت کے استعمال اور جنگ مسلط کرنے کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آئے گا. امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ میں کوئی بھی جیتے، ان کی پالیسیز میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آتی، اور نہ ہی اس سے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو کوئی فرق پڑتا ہے. مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو چاہیے کہ ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ بنے بغیر، اور زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے کے بجائے حالات کا ادراک کرتے ہوئے ان ممالک میں اپنے بہتر مستقبل کے زمینی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں، اور خود کو اتنا طاقتور بنائیں کہ ان ممالک کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکیں، جیسا کہ یہودی، ہندو یا دوسری کمیونٹیز ہوتی ہیں. امریکہ اور یورپ کی مسلم تنظیمیں دہائیوں کی خاک چھان کر یہ بات جان چکی ہیں کہ اب ان کی بقا وہاں کے سیاسی سسٹم میں زیادہ سے زیادہ شمولیت پر ہے، جس کے لیے بادی النظر میں تو پارٹی اہمیت نہیں رکھتی مگر جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ اور ری پبلکن نے اپنی سیاسی مہم کو ”مخصوص رنگ“ دیا، اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ متحد ہو کر اس کو رد کریں. گو کہ ماضی میں ری پبلکن مسلم یا پاکستانی و ایشیائی افراد کی زیادہ بڑی چوائس رہی ہے لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے. اس انتخاب میں مسلمانوں کے لیے نہ گزیر ہے کہ وہ ”نفرت“ کے خلاف رائے دیں کیوں کہ اگر ٹرمپ جیت گیا تو یہ نفرت کی جیت ہوگی، ویسے ہی جیسے Brexit سے برطانیہ میں ہوئی. برطانیہ میں بھی Brexit کی حمایت سراسر امیگریشن اور غلط ڈیموگرافکس بتا کر کی گئی اور کہیں بھی سنجیدہ اور علمی بحث دیکھنے میں نہیں آئی. ظاہر ہے کہ عام افراد پر اس کا اثر پڑتا ہے اور وہی ہوا کہ Brexit کے بعد انگلش نیشنلزم میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور اب یہی کچھ ٹرمپ اور ری پبلکن کر رہے ہیں جس کا نتیجہ کچھ بہتر آنے کی امید نہیں. 8 دسمبر 2015ء کو گارڈین میں چھپنے والے ایک سروے کے مطابق اسلام مخالف جذبات سب سے زیادہ 45 سال سے بڑی عمر کے سفید فام امریکیوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کا تعلق زیادہ تر ری پبلکن سے ہے. ٹرمپ نے ان جذبات کو ہوا دی ہے، اس کے انتخاب کی صورت میں اس کو اور بڑھاوا ملے گا.
آخری بات! پاکستانی یہ بھی سمجھ لیں کہ اس وقت ٹرمپ کی حمایت ساری بھارتی کمیونٹی کر رہی ہے، حالانکہ ری پبلکن کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ پاکستان کے لے کچھ نرم رویہ رکھتی ہے، مگر ٹرمپ نے نہ صرف بھارت کی حمایت اور اشتراک کا اعلان کیا بلکہ امریکہ میں بڑی ہندو ریلیز سے بھی خطاب کیا. اس کے بعد اور بھی ضروری ہے کہ پاکستانی ہیلری کلنٹن کو ووٹ دیں، اور کامیابی کی صورت میں نہ صرف نفرت بلکہ بھارتی لابی کو بھی شکست سے دوچار کریں.
(احتشام شاہد برطانیہ میں مقیم ہیں، ٹیلی کمیونیکیشن شعبے سے وابستہ، اور پاکستانی نوجوانوں کی تنظیم کے صدر ہیں)
تبصرہ لکھیے