کیا کوئی ایسی ترکیب ہے جس سے دہشت گردی کے جن کو قابو کیا جائے؟ کیا دہشت گرد گروہوں کو پھلنے پھولنے روکا جاسکتا ہے؟ اس وقت پاکستان کے تین پڑوسی ممالک پاکستان میں دہشت گردی پھیلاؤ میں ملوث ہیں۔ کراچی کے حالیہ واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں. کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے، اور وہ واحد شہر ہے جس میں پاکستان کے ہر زبان، ہر قوم، ہر نسل اور ہر مذہب و فرقے لوگ موجود ہیں، لہذا ہر دشمن ملک پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کراچی ہی کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ کراچی میں کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ہو جائے تو پورا پاکستان متاثر ہوتا ہے۔ ابھی چند دنوں قبل ناظم آباد میں مجلس پر فائرنگ میں چار بےگناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کو کراچی کے باسی بھلا نہیں پائے تھے کہ جمعہ کے دن ایک کے بعد ایک، تین واقعات میں تین عالم دین سمیت 6 بےگناہ شہری دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تمام واقعات میں ایک ہی گروپ ملوث ہیں اور تمام لوگوں کو نائن ایم ایم پستول س سے سروں میں قریب گولیاں ماری گئی ہیں، ان تمام واقعات کے بعد پولیس و رینجرز حرکت میں آتی ہے اور مختلف علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیتی ہے۔ ان کارروائیوں میں شک کی بنیاد پر مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران گرفتار ہوتے ہیں تو کسی کے گھر سے اسلحہ، تو کسی کے گھر سے مذہبی لٹریچر برآمد ہوئے، اس میں کچھ حضرات کے ہمدرد خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، اور عدالت کے فیصلے کے منتظر ہوتے ہیں، اور کچھ کے روڈ پر نکل کر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ ان تمام واقعات کی کڑی کہیں نہ کہیں آگے جا کر ملک دشمن عناصرسے ملتی ہے۔
یہ تو تھی دہشتگردی کے اسباب و محرکات، اب آتے ہیں سدباب کی طرف، انسانی سماج اور جنگل کے راج میں فرق یہی ہے کہ انسانی سماج میں ایک دستور چلتا ہے اور جنگل میں کوئی قانون نہیں چلتا، ہر طاقتور جانور کمزور جانور کو کھا جاتا ہے، جبکہ انسانی معاشرے میں ایسا نہیں چلتا، انسان کو بقائے باہمی کے دستور پر چلنا پڑتا ہے اور جیو اور جینے دو کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی ہے، اس کے بغیر کوئی انسانی معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا، بقائے باہمی اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حقوق کا حصہ ہے، (یہ الگ بات ہے کہ عمل وہ بھی نہیں کرتے) اگر انسان انسانی خون کا احترام بند کردیں تو یہ دنیا باقی نہیں بچے گی، سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا، بقائے باہمی کے اصول کو توڑنا ہی بنیادی طور پر دہشت گردی ہے، یہ جرم کوئی ایک انسان کرے، کوئی جماعت کرے، کوئی ملک کرے، ہر حال میں غلط ہے جو انسان ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے، وہی دہشت گرد ہے، سماج دشمن ہے، اور ایسے انسان کو معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ملکی قوانین انسان کو جرائم و دہشت گردی سے روکنے کا کام کرتے ہیں مگر اسلامی تعلیمات سے دہشت گردی و تشدد سے بچاؤ کا ایک مختلف راستہ نکلتا ہے، وہ انسان کو انسان کا احترام سکھاتا ہے، اسلام کہتا ہے کہ قانون کا احترام اپنی جگہ، اصل چیز انسان کے دل میں خوف خدا ہے، قانون کا خوف لوگوں کے دل میں تب ہو تا ہے جب گواہ موجود ہوں، جبکہ اسلامی تعلیمات انسان کو غلط کاریوں، تشدد اور ظلم سے روکتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی جانب مائل کرتی ہے، تصوف بتاتا ہے کہ اللہ ہر جگہ، ہر وقت انسان کی نگرانی کرتا ہے، اس لیے کبھی قدرت کے قانون کے خلاف نہیں جانا چاہیے، اللہ انسانوں کے دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے، لہٰذا دل کے اندر بھی ایسا خیال نہ لایا جائے.
حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ کس شخص نے پوچھا کہ فلاں شخص میرے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے، کیا میں بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کروں، جیسا وہ کرتا ہے میرے ساتھ، تو آپ نے فرمایا نہیں، اگر کوئی تمھارے راستے میں کانٹے بچھائے اور تم بھی اس کے راستے میں کانٹے بچھاؤ تو یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی، کانٹوں کا جواب کانٹے ہرگز نہیں ہوسکتے. اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کو اسی سوچ کی طرف آنا ہوگا۔
اسلامی تعلیمات ظلم کی ممانعت کرتی ہیں، اسلام انسان ہی نہیں جانوروں پر بھی ظلم کے خلاف ہے. علمائے کرام کو ان تعلیمات کو عام کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ اپنی خانقاہوں میں آنے والوں کی ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ ظلم و تشدد سے دور رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں. دہشت گردی کا اصل سبب انسان کے دل سے خوف خدا کا ختم اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کی کمی ہونا ہے. حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ مکاشفتہ القلوب میں تحریر کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جنت میں رحم کرنے والا داخل ہوگا، صحابہ نے کہا کہ ہم سب رحم کرنے والے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ رحم کرنے والا وہ نہیں جو اپنے اوپر رحم کرے بلکہ رحم کرنے والا وہ ہے جو اپنے آپ پر اور دوسروں پر رحم کرے. وہ مزید لکھتے ہیں کہ فرمان نبوی ہے جو کسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے اور جس نے کسی بھوکے سے کھانا روک لیا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس شخص سے اپنا فضل و کرم روک لے گا، اسلام میں پانی کا فضول خرچ کرنا منع ہے تو اسلام میں کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ کسی بےگناہ انسان کا خون بہایا جائے. قابل غور پہلو یہ ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، پریشان حال شخص کی پریشانی دور کرنا، اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے، تو کسی کو ناحق قتل کرنا، ظلم و تشدد یا دہشت گردی میں ملوث ہونا کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اپنے ایک مکتوب لکھتے ہیں کہ انسان کو حق تعالی کی خوشنودیوں میں کوشش کرنا چاہیے اور مخلوق خدا پر رحم کرنا چاہیے، یہی آخرت میں نجات کا ذریعہ ہیں۔ اللہ اپنا خصوصی کرم فرمائیں، ہم مسلمانوں پر۔ آمین
تبصرہ لکھیے