ہوم << کشمیریوں کے سیاہ دن کیوں ختم نہیں ہونگے - محمد علی نقی

کشمیریوں کے سیاہ دن کیوں ختم نہیں ہونگے - محمد علی نقی

کشمیر کا مسئلہ برصغیر کا سب سے متنازعہ اور سنجیدہ مسئلہ رہا ہے اس کے لئے دونوں ممالک اب تک تین جنگیں لڑچکے ہیں اور یہ مسئلہ جوں کا توں ہی چلا آرہا ہے ایک وقت تھا جب ریاستِ کشمیر کا شمار پنجاب میں کیا جاتا تھا لیکن انگریز سامراج سے بغاوت کے بعد ریاست پنجاب پر ایک کروڑ پچیس لاکھ نانک شاہی جرمانہ عائد کردیا گیا .

پنجاب کی ریاست مالی طور اس قدر مستحکم نہ تھی کہ فرنگی راج کو یہ جرمانہ ادا کرسکتی جس بنا پر امرتسر میں ایک معاہدہ طے پایا گی.ا امرتسر معاہدے کے تحت گلاب نے سنگھ ڈوگرہ نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر پر اقتدار کا حق خرید لیا .یہ سودا بازی کشمیر پر حکومت کی تھی نہ کہ کشمیر اور اس کی عوام کی. جیسا کہ کچھ لکھاریوں نے اپنے اعدادوشمار سے فی کس کشمیری کی قیمت پانچ یا سات روپے مقرر کر کے کشمیری باشندوں کے دلوں پر نشتر چلانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ گلاب سنگھ ڈوگرہ سے لے کر مہاراجہ ہری سنگھ تک کشمیر نے ایک علیحدہ ریاست سے وجود برقرار رکھا لیکن کشمیر اس وقت مسئلہ بن کر کھڑا ہوا، جب ہری سنگھ کی حکومت کے خلاف عوام نے بغاوت کا پرچم بلند کردیا۔

بغاوت کی تحریک میں شدت کی وجہ سے کشمیر کا الحاق ہری سنگھ نے بھارت سے کروا دیا اور تحریک کو کچلنے کے لئے بھارت سرکار نے اپنی فوجیں کشمیر کی سرزمین پر باضابطہ اتار دیں. جس پر پہلی دفعہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہوگئیں۔ اس دوران بھارتی حکومت کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گئی اور 1948 کی قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ کشمیر عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ ریفرنڈم سے پاکستان، بھارت یا خودمختاری کی راہ اختیار کرسکتی ہیں۔ لیکن 1949 کی قرارداد میں کشمیری عوام سے خودمختاری کا حق سلب کرکے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک سے الحاق کی آزادی دے دی گئی۔

بعدازں 1972میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے شملہ معاہدے میں واضح کیا گیا کہ دونوں ممالک اپنے معاملات باہمی مشاورت سے ہی طے کریں گے۔ یوں مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لئے مسئلہ بن گیا اور باہمی معاہدے نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر سوالیہ نشان کھڑے کر دے۔ دونوں ممالک کشمیر کو اپنی شہہ رگ اور اٹوٹ انگ کہتے ہوئے خطے پر اپنی ملکیت کے دعوے دار بن گئے جب کے دونوں ممالک آئینی طور پر کشمیر کو اپنی جائیداد کہنے سے عاری ہیں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل1 میں شامل سرکاری حدود میں کشمیر کو شامل نہیں گیا اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 میں کشمیر کو سپیشل سٹیٹس کے طور پر رکھا گیا ہے نہ کہ بھارتی حدود کا رقبہ شمار کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈین مقبوضہ کشمیر پر آزادی کا حق مانگنے پر ظلم اور بربریت کا پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں دس ہزار لوگ آزادی کی اس تحریک میں لاپتہ ہوئے انڈین ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 43,450 افراد کو قتل کیا جا چکے ہیں۔ انڈین مقبوضہ کشمیر AFSPS جیسے ظالم قانون کے تحت سانسیں لے رہا ہے جہاں شک کی بنیاد پر ریاستی اہلکاروں کو کسی کو بھی گولی مارنےکی آزادی ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کسی بھی وفد کو آج تک مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی سرکاری اجازت نہیں دی گئی.

آج کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہ ہونے کی اہم وجہ شملہ معاہدہ بھی ہے. جب دونوں ریاستیں اس بات پر متفق ہوگئیں کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی مشاورت سے ہی حل ہوگا اور اس مسئلہ کی عالمی عدالت سناوائی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب تک دونوں فریقین کی رضامندی نہ ہو ICJ بھی کیس سننے سے قاصر ہے بے شک پاکستان مسئلہ کو ICJ لے کر جانا چاہتا ہے. لیکن اس کے لئے بھارتی رضامندی ضروری ہے جس پر وہ متفق نہیں ہے۔ کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات سے ہی ممکن ہے وگرنہ کشمیر آگ کے شعلوں میں یوں ہی جلتا رہے گا اور شاعر کی آواز گونجتی رہے گی.

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
جیسے اہل نظر کہتے تھے ایران ِصغیر