اعمال کا دارومدار بے شک نیت پر ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ابھی سے ریاضت کیوں نہیں؟ ابھی سے شفافیت کیوں نہیں؟ حسنِِ نیت کا اظہار کیا نعرہ بازی میں ہوا کرتا ہے؟
بلاول بھٹو نے عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی مرحوم کے بارے میں انکشافات کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا‘ وفاقی حکومت نے میرے مطالبات اگر نہ مانے تو پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے کمیشن کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کر دیں گے۔ سبحان اللہ!
کیسے کیسے لیڈر ہیں‘ کیسے کیسے مشیر اور کیسے کیسے دانشور۔ معاشرے کو جب زوال آ لیتا ہے تو کیا کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس خوددار اور باوقار آدمی کی اگر وہ کردار کشی کریں گے‘ ایک عشرے سے لاہور کی مٹی اوڑھے جو سو رہا ہے تو جواب میں کیا سننا پڑے گا؟ کچھ سوالات اور بھی ذہن میں ابھرتے ہیں۔ اس کا خیال کیا یہ ہے کہ وہ بہت طاقت ور ہے؟ دوسروں کو وہ خوف زدہ کر سکتا ہے؟
عالم تو یہ ہے کہ دو تین برس جزبز ہونے کے بعد‘ آخرکار اس نے ملک کے سب سے ناقبول اور ناکام لیڈر کی اطاعت قبول کر لی ہے۔ ان صاحب کا نام آصف علی زرداری ہے۔ ایک آدھ نہیں‘ تین فوجی آمر‘ ملک کے طاقتور کاروباری طبقات‘ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی ایک قابل ذکر تعداد پیپلز پارٹی کے پہاڑ سے سر ٹکراتی رہی۔ چھیالیس برس میں یہ تمام لوگ کچھ نہ کر سکے۔ جناب آصف علی زرداری نے پانچ برس میں پارٹی کو نمٹا دیا۔ افتادگانِ خاک اور ترقی پسندوں کی بجائے‘ زرگروں کے ایک چھوٹے سے ٹولے کی جماعت اسے بنا دیا۔
روپے پیسے کا جہاں تک تعلق ہے‘ بہت سے لوگ بلاول بھٹو سے حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ رکھنا بھی چاہیے کہ ان کے براہ راست کرپشن میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اس کا مطلب مگر یہ بھی نہیں کہ برطانوی یونیورسٹی کا گریجویٹ‘ والد گرامی کے کارہائے نمایاں سے یکسر بے خبر ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سوال کیا کبھی نہ ابھرا ہو گا کہ سرے محل کیا تھا؟ سوئزرلینڈ کے کھاتے کیوں کھولے گئے؟ کس طرح ان کی وجہ سے پاکستانی سیاست برسوں تک بھونچال کا شکار رہی؟ ظاہر ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔
سندھ کی صوبائی حکومت نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ٹینکر بھر کر سرکاری پانی بیچنے والے ناجائز سرچشمے (HYDRANTS) کس کا کارنامہ ہیں؟ شہر کی سڑکوں پر لاکھوں سائن بورڈ بھی برسوں وہ دیکھتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک بدعنوانی ہی نہیں بدذوقی کا بھی گواہ ہے۔ صوبے کے طول و عرض میں نامکمل عمارتوں کا بین بھی وہ سنتے ہوں گے۔ یہ راز ان سے پوشیدہ تو نہیں کہ سندھ میں ایک خاکروب کی نوکری بھی فروخت کی جاتی ہے۔ جب تک ہو سکا‘ ایک ایک سکول ٹیچر اور کانسٹیبل کی بھی۔
خوف ایک ہتھیار ہے‘ سوچ سمجھ کر‘ دیکھ بھال کر جو برتنا چاہیے۔ چوک جائے تو تباہی‘ نشانے پر بیٹھ جائے‘ تب بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کس کی زبان وہ بند کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان کی؟ آج تک کوئی کر سکا؟ مان لیجئے‘ وہ خاموش ہو جائیں‘ تحریک انصاف کے دوسرے لیڈر؟ فرض کیجئے‘ وہ بھی چپ کرا دیے جائیں۔ گلی کی نکڑ پر‘ حجام کی دکان پر‘ محلّے کے چائے خانے میں لاکھوں کارکنوں کی‘ کروڑوں بندگان خدا کی زبانیں کون بند کرے گا؟ ؎
کس کس کی زباں روکنے جائوں تری خاطر
کس کس کی تباہی میں تیرا ہاتھ نہیں ہے
جناب آصف علی زرداری اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ معاف کیجئے‘ وہ لوگ سیاست کی حرکیات سے یکسر بے خبر ہیں‘ جن کا خیال یہ ہے کہ دیہی سندھ ان کے چنگل سے نجات نہیں پا سکتا۔ حالیہ ایک سروے میں سندھ کے 68 فیصد رائے دہندگان نے جمہوریت پر فوجی حکومت کو ترجیح دینے کا اظہار کیا۔ کوئی بھی آمریت کو پسند نہیں کرتا۔ آزادی پر غلامی کو کون ترجیح دیا کرتا ہے۔ اب بھی مگر وہ غلام ہی ہیں۔ بلیک میلنگ کا شکار‘ وڈیرے کے علاوہ ڈاکو اور پولیس کے ستم میں مبتلا۔ کسی کا مال محفوظ ہے‘ عزت اور نہ جان۔ خوش فہمی یہ ہے کہ بلاول کو اگر اقتدار ملا تو وہ مختلف ہوں گے۔ حسنِ ظن ہی چاہیے‘ پنجابی کا محاورہ اگرچہ یہ ہے کہ دھان والے گائوں ''پرالی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں‘ مگر حسنِ ظن ہی اختیار کر لیجئے۔ آخر اس میں نقصان ہی کیا ہے؟ چالیس برس کی عمر سے پہلے صاحبزادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ آئندہ کے ان برسوں میں بدگمانی سے خود کو اذیت کیوں دی جائے؟ ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
معلوم یہ ہوا کہ عنان ابھی تک زرداری صاحب کے دست مبارک میں ہے۔ بلاول کے اعلان سے انکشاف ہوا کہ عدالتی کمیشن کو وہ مسترد کر سکتے ہیں۔ ایسے کسی اقدام کا فائدہ کسے ہو گا؟ ظاہر ہے قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کو۔ عمر کم سہی‘ دنیا دیکھی ہے‘ کتنی سرزمینیں‘ کتنے المناک حادثے؟ جناب بلاول بھٹو دودھ پیتے بچے تو نہیں کہ اس اعلان کے مضمرات سے بے خبر ہوں۔ ظاہر ہے کہ گرامی قدر والد نے انہیں حکم دیا ہے۔ چلیے حکم نہیں دیا‘ سمجھایا ہو گا۔
میثاقِ جمہوریت کے تاریخی دن سے‘ دونوں پارٹیوں میں بنیادی ہم آہنگی ہمیشہ موجود رہی۔ وہ میثاق جو امریکہ اور برطانیہ کے ایما پر طے پایا۔ جس کا مقصد پاکستان کو سکم اور بھوٹان نہیں تو زیادہ سے زیادہ بنگلہ دیش بنانا ہے۔ بھارت کا حاشیہ بردار۔ اس معاہدے کی سترہویں شق یہ کہتی ہے: کسی تعصب کے بغیر‘ افغانستان اور بھارت سے خوشگوار مراسم بحال رکھے جائیں گے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت‘ پاکستان کے ساتھ خواہ زیادتی کریں‘ ظلم کا ارتکاب کریں‘ اسے برباد کریں‘ تب بھی تعلقات ان سے خراب نہیں کئے جائیں گے۔ علاقے میں بھارتی بالادستی کس کا خواب ہے؟ اسی کا‘ اسرائیل کو جس نے مشرقِ وسطیٰ کا تھانیدار بنا رکھا ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ مصر اور شام کو جس نے طوفان کے حوالے کر دیا۔ فارسی کا شاعر کہاں یاد آیا ؎
صبا بہ لطف بگو آں غزالِ رعنا را
کہ سر بہ کوہ و بیاباں تو دادہ ای ما را
اے بادِ صبا‘ اس سے غزالِ رعنا سے کہنا کہ تو نے مجھے کوہ و بیاباں کے حوالے کر دیا۔ بعض کو محبت برباد کرتی ہے‘ افراد کو اقوام کو مرعوبیت تباہ کر ڈالتی ہے۔ مغرب کے علم اور تجربات سے استفادہ ایک چیز ہے‘ مرعوبیت بالکل دوسری۔ سیکھنے کی آرزو‘ فطری‘ مثبت اور تعمیری ہے۔ دوسرا انداز فکر احساس کمتری کا آئینہ دار۔ وہ جو برصغیر کا مرض ہے۔ خوئے غلامی کا ثمر۔ جاگیرداری کا حاصل۔ احساس کمتری ہی نہیں‘ ریاکاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی امراض۔ ذہن محدود ہو جاتے ہیں۔ خواب تو کجا‘ سامنے کی سچائی کو بھی پا نہیں سکتے۔ نوشتۂ دیوار بھی دیکھ نہیں سکے ؎
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے
ماتم کرنا چاہیے ماتم‘ خود کو کن کے حوالے ہم نے کر دیا۔ یہ ہیں بلاول بھٹو‘ ہم پر حکومت کرنے کا جو خواب دیکھتے ہیں۔ ادھر میاں محمد نواز شریف ہیں۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ ہر روز اربوں روپے جو بانٹ رہے ہیں۔ یہ ہیں جناب عمران خان‘ جن کا خیال یہ ہے کہ معاشروں کی عظمت و بالیدگی کا انحصار فقط ایک فرد پہ ہوتا ہے۔ ڈھنگ کے ایک لیڈر پر... اور یہ لیڈر وہ خود ہیں۔
ہرگز انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ خود ان کی پارٹی میں بدعنوان بھرے پڑے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ بدعنوان کیا‘ نوسر باز۔ ان سے نجات حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ہرگز کوئی فکر نہیں کہ ابھی سے پولیس‘ نوکر شاہی‘ نجکاری‘ ایف بی آر‘ صنعت و زراعت‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل مل کے لیے تھنک ٹینک بنانے چاہئیں۔ ورنہ وہ ناکام رہیں گے۔ ورنہ وہی ہو گا‘ نومبر 1996ء کا الیکشن جیتنے کے بعد جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ اپنے مشیروں کے ساتھ اوّلین اجلاس میں انہوں نے پہلا جملہ یہ ارشاد کیا تھا‘ ''ہُن کیہ کریے‘‘ اب کیا کریں؟
اعمال کا دارومدار بے شک نیت پر ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ابھی سے ریاضت کیوں نہیں؟ ابھی سے شفافیت کیوں نہیں؟ حسنِ نیت کا اظہار کیا نعرہ بازی میں ہوا کرتا ہے؟
تبصرہ لکھیے