ہوم << آپ اپنی خامیاں تبدیل کر لیں-جاوید چوہدری

آپ اپنی خامیاں تبدیل کر لیں-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
یہ دونوں ایک دوسرے کے محسن بھی ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ چند لمحوں کے لیے 2014ء میں چلے جائیے‘ آپ کو میرا نکتہ سمجھ آ جائے گا۔
2014ء میں میاں نواز شریف کے فوج سے تعلقات خراب تھے‘ فوج بھارت اور افغان پالیسی میں مداخلت سے ناراض تھی‘ فوج محمود اچکزئی کے کابل کے دوروں اور افغان حکومت کے ساتھ رابطوں سے خوش نہیں تھی‘ حقانی نیٹ ورک بھی نزاع کا باعث بن رہا تھا‘ میاں صاحبان بھارت سے اندھا دھند معاملات طے کر رہے تھے‘  فوج کو اس پر بھی تشویش تھی‘ جنرل پرویز مشرف بھی اختلافات کی وجہ تھے۔
میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے وعدہ کیا تھا حکومت جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی لیکن وعدہ وفا نہ ہوا‘ یہ وعدہ خلافی بھی مسائل پیدا کر رہی تھی‘ مولانا فضل الرحمٰن کو حسب معاہدہ وزارتیں نہیں ملیں‘ وہ بھی وعدے کی گٹھڑی اٹھا کر میاں نواز شریف کو تلاش کر رہے تھے‘ وفاقی حکومت نے سندھ میں بھی مداخلت شروع کر دی‘ زرداری صاحب کے فرنٹ مین گرفتار ہو رہے تھے‘ ایم کیو ایم کے خلاف بھی کارروائیاں شروع تھیں اور پیر صاحب پگاڑا سے بھی وعدے پورے نہیں کیے گئے تھے۔
وزیراعظم بھی زندگی کے سست ترین دور میں داخل ہو گئے تھے‘ یہ صبح آٹھ بجے دفتر آتے تھے‘ شام چھ بجے چلے جاتے تھے اور اس کے بعد ان سے رابطہ ممکن نہیں رہتا تھا‘ وزیراعظم پورے دن میں صرف چار میٹنگز کرتے تھے اور یہ میٹنگز بھی بے نتیجہ رہتی تھیں‘ یہ اکثر دوروں پر بھی رہتے تھے اور ان کی ہر وزٹ کا اختتام لندن میں ہوتا تھا‘ یہ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار تین دن لاہور میں گزارتے تھے اور یہ جس سے خوش ہوتے تھے یہ اسے سب کچھ دے دیتے تھے اور جس سے ناراض ہو جاتے تھے اس سے سب کچھ چھین لیتے تھے‘ کابینہ کے اجلاس نہیں ہوتے تھے۔
وزیراعظم قومی اسمبلی اور سینیٹ نہیں جاتے تھے اور یہ وزراء سے بھی نہیں ملتے تھے‘ ایم این اے اور ایم پی ایز اسلام آباد میں بے یار و مددگار پھر رہے تھے‘ کچن کیبنٹ اسحاق ڈار‘ چوہدری نثار اور طارق فاطمی تک سکڑ گئی تھی‘ باقی کابینہ وزیراعظم کی زیارت کے لیے ترستی رہتی تھی‘ سینئر بیوروکریسی بھی پریشان تھی اور وزیراعظم آفس اور ہاؤس پر جونیئر افسروں کا قبضہ تھا‘ یہ لوگ مرضی کے فیصلے کرتے تھے۔
یہ تمام خرابیاں خلا بن چکی تھیں اور یوں محسوس ہوتا تھا حکومت 2014ء نہیں گزار سکے گی‘ یہ اپنے وزن کے نیچے دب کر ختم ہو جائے گی لیکن پھر عمران خان غیبی مدد بن کرآئے اور انھوں نے سوئے ہوئے محل کے تمام باسیوں کو جگا دیا۔
عمران خان کی دستک سے میاں نواز شریف کی گہری نیند ٹوٹ گئی‘ یہ ہڑبڑا کر اٹھے اور اپنی کشتی کے سوراخ بند کرنا شروع کر دیے‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی ف‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے‘ چین اور امریکا کی سفارتی مدد لی‘ صبح جلدی آنے اور دیر تک دفتر میں بیٹھنے لگے‘ بھارت اور افغانستان دونوں دوبارہ فوج کے حوالے کر دیے‘ جنرل مشرف کی ٹائی ڈھیلی کر دی‘ فیصلوں میں تاخیر ختم کر دی‘ کابینہ کے اجلاس بھی ہونے لگے‘ پارٹی کی میٹنگز بھی شروع ہو گئیں‘ یہ ایم این ایز اور ایم پی ایز سے ملاقاتیں بھی کرنے لگے‘ عوامی جلسے بھی شروع ہو گئے۔
ترقیاتی کاموں کی رفتار بھی بڑھ گئی‘ یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی جانے لگے‘ وزراء میں صلح بھی ہو گئی‘ یہ دوسروں کی بات بھی سننے لگے‘ حکومت نے دہشتگردی‘ لوڈ شیڈنگ‘ اقتصادی صورتحال اور ’’سی پیک‘‘ پر فوکس بھی بڑھا دیا اور یہ فوکس بھی چند ماہ میں پھل پھول دینے لگا، یوں حکومت بحرانوں سے باہر آ گئی‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ اس کامیابی کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ کیا یہ شخص عمران خان نہیں تھے اور اگر یہ میاں نواز شریف کو نہ جگاتے تو کیا یہ اب تک عدالتوں میں دھکے نہ کھا رہے ہوتے؟
آپ اب پانامہ لیکس کی طرف بھی آ ئیے‘ میاں نواز شریف 35 برسوں میں پہلی بار خوفناک جال میں پھنسے ہیں‘ آپ کو پانامہ ایشو پر پورے ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت‘ لیڈر اور گروپ نہیں ملے گا جس نے اس ایشو پر حکومت کی حمایت کی ہو‘ ملک کا ہر شخص پانامہ لیکس پر شریف خاندان کا احتساب چاہتا تھا‘ حکومت یہ دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی تھی‘ وزیراعظم دوبار قوم کے سامنے آئے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا۔
سپریم کورٹ بھی تیار تھی اور سیاسی جماعتیں بھی قانون سازی چاہتی تھیں لہٰذا ملک میں اگر احتساب کا کوئی متفقہ قانون بن جاتا تو ماضی کے کرپٹ بھی پکڑے جاتے‘ حال کی کرپشن بھی کم ہو جاتی اور ملک کا مستقبل بھی کرپشن فری ہو جاتا لیکن یہ ہونے سے پہلے عمران خان دوبارہ فرشتہ بن کر سامنے آ گئے‘ میاں نواز شریف کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں قومی ایشو دو شخصیات کا تنازعہ بن گیا۔
یہ پارلیمنٹ سے باہر آیا اور عدالت میں پہنچ گیا‘ ہمیں اب یہ نکتہ بھی سمجھنا ہو گا ملک میں قانون نہیں ہو گا یا پھر قانون کمزور ہو گا تو عدالت ملزم کو کوئی حتمی سزا نہیں دے سکے گی اور ملک میں آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی ٹھوس قانون موجود نہیں‘ عدالت شریف خاندان کے خلاف زیادہ سے زیادہ ٹیکس میں بدعنوانی اسٹیبلش کر سکے گی اور بس لہٰذا پھر اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوا؟
اس کے برعکس اگر قانون بن جاتا تو شریف فیملی سمیت ہزاروں لاکھوں لوگ قابو آ جاتے مگر عمران خان نے شیر پر گولی چلنے سے پہلے ہی بکری کھول دی اور یوں بکری اور شیر دونوں جنگل میں غائب ہو گئے چنانچہ ہم اگر دل پر ہاتھ رکھ کر اس کمال کا کریڈٹ بھی تلاش کریں تو ہمیں اس بار بھی عمران خان میاں نواز شریف کے محسن نظر آئیں گے اور ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے یہ اگرطریقے سے چلتے تو اب تک پانامہ لیکس پر قانون بھی بن چکا ہوتا اور احتساب کا عمل بھی شروع ہو چکا ہوتا لیکن افسوس خان صاحب کی جلد بازی نے شریف فیملی کو ایک بار پھر بچا لیا۔
عمران خان شریف خاندان کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے محسن بھی ہیں‘ پیپلز پارٹی2013ء کے الیکشن کے بعد سندھ تک محدود ہو چکی تھی لیکن خان صاحب کی یلغار اور کراچی میں ان کی پے درپے ناکامیوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کر دیا‘ یہ بلاول بھٹو کا لانچنگ پیڈ بن گئے‘ پیپلز پارٹی اب عمران خان کی برکت سے 2018ء میں پنجاب سے بھی ٹھیک ٹھاک سیٹیں حاصل کر لے گی۔
میں اسی طرح میاں نواز شریف کو عمران خان کا محسن سمجھتا ہوں‘ عمران خان 2013ء کے الیکشنوں کے بعد پسپا ہو چکے تھے اور یہ کے پی کے کی سیاسی دلدل میں بھی پھنس چکے تھے‘ میاں نواز شریف اگر اس وقت چار حلقے کھول دیتے یا چار حلقوں کو متنازعہ مان کر دوبارہ الیکشن کرا دیتے تو عمران خان ’’گاڈزیلا‘‘ نہ بنتے‘ یہ تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا نہ دے پاتے۔
میاں نواز شریف نے اگر اسی طرح پانامہ لیکس کے فوراً بعد اپوزیشن کی مرضی کا جوڈیشل کمیشن بنا دیا ہوتا یا یہ اپوزیشن کے ٹی او آرز مان لیتے تو بھی حکومت کو دو نومبر کا دن نہ دیکھنا پڑتا‘ عمران خان اگر آج یوم تشکر منا رہے ہیں تو اس کے ذمے دار میاں نواز شریف ہیں‘ یہ میاں صاحب کی انا تھی جس پر چل کر عمران خان یہاں تک پہنچے‘ میاں صاحب اگر اپنا شملہ ذرا سا نیچے کر لیتے تو معاملات یہاں تک نہ پہنچتے لیکن یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے ہمارے تینوں لیڈر اپنی اپنی ذات کے اسیر ہیں‘ عمران خان ہمیشہ جلدی کر جاتے ہیں‘ میاں نواز شریف دیر کر دیتے ہیں اور آصف علی زرداری کچھ کرتے ہی نہیں ہیں۔
یہ تینوں اپنی فطرت کے غلام ہیں‘ عمران خان مانتے نہیں ہیں‘ میاں نواز شریف سنتے نہیں ہیں اور آصف علی زرداری ہلتے نہیں ہیں‘ یہ ان تینوں کی فطرت ہے‘ میرا تینوں کو مشورہ ہے‘ آپ اپنی خامیاں آپس میں تبدیل کر لیں‘ خان صاحب فیصلوں میں تاخیر لے آئیں‘ نواز شریف جلدی فیصلہ کر لیا کریں اور زرداری صاحب اچھا یا برا کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کیا کریں‘ یہ ملک واقعی بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ تینوں ملک سے باہر ہوں گے اور عوام دھرنا دے کربیٹھے ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment