ہوم << عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے-جاوید چوہدری

عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

حقائق تلخ ہیں لیکن حقائق ‘ حقائق ہیں اور عمران خان کو اب یہ حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں۔
عمران خان نے دعویٰ کیا تھا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دو نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا لیکن سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں اور نہ ہی یہ اسلام آباد پہنچا‘ بلوچستان ملک کا محروم ترین صوبہ ہے‘ یہ صوبہ 70برس سے محرومی چن رہا ہے‘بلوچ پنجابی قیادت‘ پنجابی رویوں اور پنجابی طرز عمل کے خلاف ہیں لیکن اس تمام تر نفرت اور اختلاف کے باوجود پورے بلوچستان سے کوئی قافلہ اسلام آباد نہیں آیا‘ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کوئی بلوچی گروپ شامل نہیں ہوا‘رند قبیلہ بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا قبیلہ ہے‘ لاکھوں لوگ اس قبیلے میں شامل ہیں۔
سردار یار محمد رند اس قبیلے کے سردار ہیں‘ یہ اگر اپنے قبیلے ہی کو لے آتے تو وفاقی دارالحکومت میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچتی لیکن یار محمد رند اکیلے دکھائی دیتے رہے‘ یہ اپنے لوگوں کو بھی باہر نہیں نکال سکے‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب ہوا بلوچستان عمران خان کے اس پاکستان کا حصہ نہیں تھا جس نے دو نومبر کو باہر نکلنا تھا اور ٹھاٹھیں مارنی تھیں‘ سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے‘ سندھ سے پاکستان تحریک انصاف کے ایک ایم این اے اور تین ایم پی اے ہیں‘ عمران خان کراچی میں بہت پاپولر ہیں‘ یہ پچھلے تیس برسوں کی ہسٹری کے پہلے لیڈر ہیں جس نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ناقابل تسخیر قلعے پر ضرب لگائی۔
شاہ محمود قریشی ملتان کی سب سے بڑی گدی کے مالک ہیں‘ ان کے لاکھوں مریدین جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے متعدد اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن کراچی سے کوئی قافلہ نکلا‘ سندھ سے لوگ آئے اور نہ ہی ملتان سے کسی سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں‘ صرف عارف علوی‘ عمران اسماعیل اور علی زیدی بنی گالا میں ٹھاٹھیں مارتے رہے‘ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ یہاں سے پی ٹی آئی کے 49 ایم پی ایز‘18 ایم این ایز اور6 سینیٹر ہیں‘ ہم اگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے کل ووٹ جمع کریں تو کے پی کے عوام نے 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کو 10 لاکھ 39 ہزار 7 سو 19ووٹ دیے۔
وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 30 اکتوبر کو نوشہرہ میں اعلان کیا تھا میں 31 اکتوبر کو پورا صوبہ لے کر اسلام آباد جاؤں گا‘ صوبے کی روانگی کا وقت صبح دس بجے طے تھا لیکن صوبہ 31اکتوبر کی شام تک جمع نہ ہو سکا‘ پرویز خٹک شام پانچ بجے صوابی سے نکلے تھے تو پورا صوبہ صرف اڑھائی ہزار لوگوں پر مشتمل تھا۔
پرویز خٹک  کے حلقے کے آدھے ووٹرز بھی ان کے ساتھ چل پڑتے تو صورت حال مختلف ہوجاتی لیکن وزیراعلیٰ پورا صوبہ تو دور اپنے ووٹروں کو بھی باہر نہ نکال سکے‘ اوپر سے ستم یہ ہوا کہ یہ قافلہ جب پنجاب کی سرحد پر پہنچا تو سامنے پولیس کھڑی تھی اور پورا صوبہ، پنجاب پولیس کی شیلنگ‘ کنٹینرز اور رکاوٹوں کا مقابلہ نہ کر سکا‘ قافلے نے رات برہان انٹرچینج پرگزاری اور اگلی صبح پورا صوبہ واپس چلا گیا‘ پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی مقبول ہے لیکن یہ دونوں خطے بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل نہیں ہوئے۔
عوام پاکستان تحریک انصاف کے کشمیری رہنما بیرسٹر سلطان محمود کی زیارت تک سے محروم رہے‘ پیچھے رہ گیا پنجاب ‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے پنجاب سے بھی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر باہر نہیں آیا‘ اعجاز چوہدری 27 اکتوبر کو جانثاروں کا قافلہ لے کر نکلے‘ اس قافلے میں درجن بھر لوگ شامل تھے اور یہ بھی آہستہ آہستہ پتلی گلیوں میں گم ہوتے چلے گئے۔
یہ درست ہے پنجاب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی‘ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی‘ پولیس فورس بھی استعمال ہوئی اور راستے بھی بند کیے گئے مگر یہ کون سا انقلاب تھا جو پولیس فورس‘ پکڑ دھکڑ اور راستوں کی بندش کا مقابلہ نہیں کر سکا‘ جو سڑکوں کی رکاوٹیں نہیں ہٹا سکا اور آپ آخر میں راولپنڈی اور اسلام آباد آ جائیے۔
شیخ رشید اپنی پوری پارٹی سمیت عمران خان کے اتحادی ہیں‘ شیخ صاحب نے این اے 55 سے88627 ووٹ حاصل کیے تھے‘ عمران خان این اے 56 سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘ انھوں نے 2013ء میں اس حلقے سے 80577 ووٹ حاصل کیے‘ غلام سرور خان ٹیکسلا سے ایم این اے ہیں‘ انھوں نے 110593ووٹ لیے اور اسد عمر اسلام آباد سے 48073 ووٹ لے کر ایم این اے منتخب ہوئے گویا عوام نے عمران خان کو راولپنڈی اسلام آباد سے تین لاکھ 27 ہزار870 ووٹ دیے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف 28 اکتوبر سے 2 نومبر تک بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنے ان ووٹرز کا راستہ دیکھتی رہی مگر یہ لوگ بھی باہر نہیں نکلے۔
شیخ رشید نے 28 اکتوبرکو راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ اس دن گلیوں میں موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے رہے‘ چینلزکی ڈی ایس این جیز پر سگار پینے کے مظاہرے کرتے رہے لیکن فرزند راولپنڈی خطاب کے لیے راولپنڈی سے تین سو لوگ جمع نہیں کر سکے‘ یہ بھی بنی گالہ اکیلے تشریف لے گئے‘ ان تمام حالات نے مل کرعمران خان کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ریمارکس اور اس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیچھے چھپنے پر مجبور کر دیا جس کے بارے میں عمران خان نے فرمایا تھا ’’اوئے جسٹس صدیقی دیکھو تمہارے آرڈر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘‘ یوں عمران خان لاک ڈاؤن سے پیچھے ہٹ گئے اور ان کا دھرنا جلسے میں تبدیل ہو گیا۔
عمران خان کو یہ حقیقت ماننا ہو گی ان کے دائیں بائیں کھڑے قائدین میں سے کوئی شخص دس لاکھ تو دور دس ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر سکا‘ان میں سے کوئی عوام کو ٹھاٹھیں مارنے پر بھی مجبور نہیں کر سکا‘ یہ کال ناکامی تھی اور یہ ناکامی مستقبل میں پارٹی کے لیے خوفناک ثابت ہو گی۔
آج عمران خان کوچند بڑی حقیقتیں دیوار پر لکھ لینی چاہئیں‘ خان صاحب کو لکھ لینا چاہیے یہ ملک واقعی بدل چکا ہے اور  لوگ خواہ آپ کے مرید ہوں‘ ووٹر ہوں‘ فین ہوں یا جانثار ہوں یہ اب جذباتی ہو کر باہر نہیں نکلتے‘ یہ نعروں اور دعوؤں کو حقیقت نہیں مانتے چنانچہ خان صاحب اگر آیندہ تلاشی یا استعفے کے لیے باہر نکلیں تو یہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے دعوے نہ کریں‘ یہ اپنی کشتیاں جلانے کی غلطی بھی نہ کریں۔
عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے یہ مسلسل ٹی وی پر رہ کر عوام میں اپنی قدر کھوچکے ہیں‘ آپ جب دن میں دس دس بار میڈیا ٹاک کریں گے‘ روز انٹرویو دیں گے‘ پریس کانفرنس کریں گے‘ جلسے کریں گے‘ سوچے سمجھے بغیر بولیں گے اور اتحادیوں کو رشتوں کا طعنہ دے کر ناراض کرتے رہیں گے تو آپ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر چار پانچ ہزار لوگوں سے اوپر نہیں جائے گا چنانچہ خان صاحب کو اپنی میڈیا اسٹرٹیجی کی ناکامی بھی مان لینی چاہیے‘ خان صاحب کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے‘ آپ جب تاریخ دے کر تاریخ بدلیں گے‘ آپ جب آسمان کو چھونے کے دعوے کر کے ہواؤں کو چوم کر واپس آ جائیں گے۔
آپ جب تخت یا تختہ کا اعلان کریں گے اور آپ جب شہادت کے دعوے کریں گے‘ خود بنی گالا کی پہاڑی پر پش اپس نکالتے رہیں گے اور عوام سڑکوں پر ڈنڈے کھاتے رہیں گے تو لوگوں میں آپ کی قدر کم ہو گی اور عمران خان کی قدر میں کمی ہوئی ہے‘ لوگ اب انھیں اتنا سیریس نہیں لے رہے جتنا یہ 2013ء کے الیکشنز اور 2014ء کے دھرنے میں لے رہے تھے‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کے خوفناک عمل سے گزر رہی ہے۔
خان صاحب کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں‘ ان کے ساتھیوں نے انھیں دو نومبر کے دن تنہا چھوڑ دیا تھا‘ یہ لوگ عوام کو اکٹھا کرنے کے بجائے خود بنی گالا میں بیٹھ گئے اور یوں عمران خان پوری دنیا میں مذاق بن گئے‘ خان صاحب کو اپنی پارٹی پر بھی توجہ دینا ہو گی‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے لیڈر کا پہلا امتحان اس کی زبان ہوتی ہے‘ یہ اگر اپنے لفظوں کو لیڈ نہیں کر سکتا تو یہ دنیا کے کسی شخص کی قیادت نہیں کر سکتا اور خان صاحب کو اپنے لفظوں‘ اپنی زبان پر قابو نہیں۔
عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے سڑکیں مسئلے پیدا کرتی ہیں‘یہ مسائل حل نہیں کیا کرتیں اور آپ آج تک کوئی مسئلہ سڑک پر حل نہیں کر سکے آپ کو بالآخر اداروں کو تسلیم کرنا پڑا‘ آپ آج کے بعد اداروں کو عزت دینا شروع کر دیں‘ ادارے بھی آپ کو عزت دیں گے اور آخری بات عمران خان یہ بھی لکھ لیں 70 سال کی سیاسی خواری نے عوام کو عقل مند بنا دیا ہے‘ یہ اب ٹھاٹھیں نہیں مارتے‘ یہ صرف ٹھٹھہ مارتے ہیں چنانچہ آپ اب مذاق بننا اور مذاق بنانا بند کر دیں‘ ملک کو آگے جانے دیں اور عوام کو سانس لینے دیں‘ آپ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مزید مضبوط نہ کریں۔

Comments

Click here to post a comment