پرویز رشیداگر وزیرِ اطلاعات نہ ہوتے تو میں یہ کالم بہت پہلے لکھتا۔
ہم بد گمانی کے عہد میں زندہ ہیں۔تہذیبی اقدار کے زوال کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن کا خاتمہ ہو جائے۔یہ حادثہ ہو چکا۔آج حکومت سے وابستہ کسی فرد کے بارے میں کلمہ خیر کہنے کا ایک ہی مفہوم رائج ہے:لکھنے یا بولنے والا لازماً کسی مفاد کے زیرِ اثر لکھ اور بول رہاہے۔لکھنے والا اگر میری طرح کمزور ہو کہ اپنی اخلاقی ساکھ پر بھروسہ نہ کر سکے تو پرویز رشید جیسے لوگ اس داد سے محروم رہتے ہیں ،وہ جس کے مستحق ہوتے ہیں۔سماجی دباؤ اسی کانام ہے۔کم لوگ ہیں جو حق گوئی کے باب میںاس سے بلند ہو سکتے ہیں۔
پرویز رشید اس مرحوم نظریاتی سیاست کی ایک نشانی ہے جوستر کی دہائی میں آ خری بار دیکھی گئی۔وہ ان نو جوانوں میں سے تھے جنہوں نے سرخ انقلاب کاخواب دیکھا۔میں نے یہ خواب کبھی نہیں دیکھا۔میں تو اپنے دورِ طالب علمی میں ،مقدور بھر، ایشیا کو سبز بنا نے کوشش کرتا رہا۔یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایشیا ہو یا یورپ،اس کے رنگ و روپ کا تعین تاریخی جبر کے تحت ہوتا ہے۔تاریخ کا عمل کسی کے نظریات کے تابع نہیں ہو تا۔ہم تواس عمل کو سمجھنے کی کوشش ہی کرسکتے ہیں۔
مارکس اس عمل کو طبقاتی کشمکش میں دیکھتا ہے۔مجھ جیسے مذہبی لوگ اس کی مابعد الطبیعیاتی تعبیر پر یقین رکھتے ہیں۔میری مذہبی تعبیر بھی یہ کہتی ہے کہ ختمِ نبوت کے بعداب اللہ تعالیٰ کی وہ سنت باقی نہیں رہی جس کا تعلق رسولوں کے ساتھ تھا۔اب عالم کے پردورگار کی مداخلت کا پیمانہ کچھ اور ہے۔یہ مگراس بحث کا محل نہیں۔مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو سیاسی عمل کوطبیعاتی یا ما بعد الطبیعیاتی ،عام آ دمی سے بلند ہوکر ،علمی سطح پر سمجھنے کوشش کر تے اوریوں اس کی روشنی میں تاریخ پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ نظریاتی سیاست کے عمل بردار،اس طرف کھڑے ہوں یا اُس طرف،اس کوشش میں اشتراکِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں،اس لیے مجھے پسند ہیں۔یہ آدرشوں والے لوگ ہیں۔پرویزرشید بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔
پرویز رشید پر وزارت کی تو تہمت ہی تھی۔میں نے وزیر کم دیکھے ہیں اور اس طرح کے بہت ہی کم۔اپنے منصب سے بے نیاز ایک عامی،جو تاریخ کے جبر کا شکار ہے۔ ؎
فراز ہم وہ غزالانِ دشت و صحرا ہیں
اسیر کر کے جنہیں لوگ لائے شہروں میں
میں ان سے چند بار ہی ملا۔میں عطاالحق قاسمی صاحب کی اس گواہی میں شریک ہوں کہ میں نے انہیں کمرہ ء وزارت میں خاص کرسی پر بیٹھا نہیں دیکھا۔کونے میں کسی دوست یا سگریٹ کی مصاحبت میں۔مزاجاً ایک درویش آدمی۔ایک وزیر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میرے ایک کوٹ کی تعریف کی۔وزیر نے کہا کہ آپ کو ہدیتاً پیش کرتا ہوں۔پرویزرشید نے کہا مجھے ضرورت نہیں۔یہ کوٹ جو میں نے پہنا ہے ستائیس سال پرانا ہے اور میں اس کے ساتھ خوش ہوں۔ان کے بدترین دشمن بھی ان پر مالی کرپشن کا الزام عائد نہیں کر سکے۔ایسے آدمی کو وزارت چھن جانے کا دکھ نہیں ہو نا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ انہیں نہیں ہو گا ۔
میرا احساس ہے کہ اس سرمایہ دارانہ سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔یہ بھی تاریخ کا ایک جبر ہے کہ اس نے پرویز رشید جیسے سامراج اور سرمایہ دار دشمن کوسرمایہ دارانہ سیاست کا ترجمان بنا دیا۔یہ حادثہ بہت سے نظریاتی لوگوں کے ساتھ ہو چکا۔جیسے قمر زمان کائرہ،جیسے چوہدری منظور، جیسے احسن اقبال۔ کائرہ صاحب آج بھی چی گویرا اور شاویز کو ہیرو مانتے لیکن ترجمانی زرداری صاحب کی کرتے ہیں۔احسن اقبال نے بھی کبھی اسلامی انقلاب کا خواب دیکھا تھا۔وہ آج سرمایہ دارانہ نظام کا ایک پرزہ ہیں اور بس۔اسی لیے عرض کیا ہے کہ تاریخ کا عمل کسی کے نظریات کاتابع نہیں۔یہ فرد ہے جس کو بالآخر بقا کے راستے تلاش کرنا پڑتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پرویز رشیدیا کائرہ صاحب یااحسن اقبال اگراپنے آدرشوں کا پیچھا کرتے تو کون تھا جو انہیں تاریخ کی دھول بننے سے بچا سکتا تھا؟سیاست کی باگ دنیا بھر میں سرمایہ داری کے ہاتھ میں جا چکی۔
بات پرویزرشید کی ہورہی تھی اور چل نکلی نظریاتی کشمکش کی طرف۔یہ اُن جیسے کرداروں کا فیضان ہے کہ ہم اس غیر نظریاتی عہد میں بھی نظریاتی سیاست کی بات کر رہے ہیں۔اچھے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ا ن کا ذکربحث کا رخ مثبت طور پر بدل دیتا ہے۔مذہب کی تعبیر میں نیک لوگوں کی صحبت کا ایک فائدہ یہ ہو تا ہے کہ خدا یاد آتا ہے۔نیک لوگوں کی صحبت ہی نہیں،ذکر سے بھی خدا یاد آتا ہے۔
پرویز رشید کے ناقدین انہیں ایک ناکام وزیر کہتے ہیں۔اگر کامیابی کا معیار یہ ہے کہ ملک میں خبر اور تجزیے کی ڈوریں وزارتِ اطلاعات کے ہاتھ میں ہوں تو یقیناً وہ ایک ناکام وزیرتھے۔ان کے دورِ وزارت میں اخبارات اور ٹی وی میں ان کانام لے کر انہیں برا بھلا کہا جا تارہا ۔ان کی حب الوطنی پر شک کیا گیا۔ میرے علم میں نہیں کہ انہوں نے جواباًوزارت کی قوت کو استعمال کیا ہو۔مجھے اخبارات میں کالم لکھتے بیس برس ہوگئے۔اس سارے عرصے میں صرف ایک باراخبارکے ایڈیٹر سے قدرے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔وجہ یہ تھی کہ میںنے ایک وزیر اطلاعات کے بارے میں ،بغیر نام لیے، ایک تنقیدی بات لکھ دی تھی۔پرویزرشید میرے علم کی حد تک واحد وزیرِ اطلاعات ہیںجن کانام لے کر ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔میری مو جودگی میں ان کے ایک ناقد کالم نگار کا ذکر ہوا۔کہا میں ان کے کالم سے حظ اٹھاتا اور شوق سے پڑھتا ہوں۔
پرویزرشید مزاجاً ایک شائستہ آدمی ہیں۔عصری سیاست نے بدکلامی کے جس کلچر کو فروغ دیا، بدقسمتی سے وہ بھی اس سے متاثر ہوئے۔کچھ عرصے سے ان کا لب و لہجہ اخلاقی پیمانے سے فرو تر تھا۔وہ اگر چہ طلال چوہدری نہیں بنے لیکن پھر بھی میں جس پرویز رشید کو جانتا ہوں،اس کی شخصیت کے ساتھ،اس کا کوئی میل نہیں تھا۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان جیسے آدمی کو کسی حکومت یا کسی سیاسی جماعت کا ترجمان نہیں ہو ناچاہیے۔اس منصب کے ساتھ عزتِ سادات کو باقی رکھنا مشکل ہے۔
جو خبر وزارت سے ان کی رخصتی کا سبب بنی،اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سے یہ پوری طرح واضح ہے۔خبر رکوانا کسی وزیر کا کام نہیں۔وہ وضاحت یااس کی تائید یا تردیدکر سکتا ہے اور خودخبر کے متن کے مطابق، سرکاری ذرائع نے خبر کی تصدیق نہیں کی۔ان کا منصب بس اتنا ہی تھا۔انہوں نے اپنا کام خوش اسلوبی سے کیا۔قومی سلامتی اور مفاد کے دائرے کاتعین کسی وزیر اطلاعات کی ذمہ داری نہیں۔
پرویزرشید وزارت سے رخصت ہوئے لیکن ایک سوال چھوڑ گئے۔اقتدار کی کش مکش میں سیاسی آدرش کی کیا اہمیت ہے؟سیاسی کارکن اس کشمکش کا ایندھن ہو تے ہیں۔میں چند دنوں سے یہی دیکھ رہا ہوں۔سیاسی کارکن اِدھر کا ہو یا اُدھر کا...اس کا مستقبل ایک طرح کا ہے۔غمِ الفت کے احسانات ،دونوں پر ایک جیسے ہیں۔
(پسِ تحریر:CPECکی تعمیر کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے کہ ایک سو کنٹینرزکاپہلا تجارتی قافلہ چین سے روانہ ہو کر پیر کو یہ پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہو چکا۔امکانات کی اس ابھرتی دنیاکا انجام ،احتجاج کی اس دھند میں کیا ہوگا؟مجھے اس سوال کاابھی جواب تلاش کرنا ہے۔)
تبصرہ لکھیے