سردار بہادر خان صدر ایوب خان کے بڑے بھائی تھے‘ وہ 1908ء میں پیدا ہوئے‘ علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی‘ مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ 1939ء میں سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ 1942ء میں اسپیکر بن گئے‘ 1946ء میں خارجہ امور کے وزیر مملکت بنے‘ 1954ء تک تمام حکومتوں میں مختلف محکموں کے وفاقی وزیر رہے اور پھر بلوچستان کے چیف کمشنر بنا دیے گئے‘ وہ ایوب خان کے بڑے بھائی تھے لیکن وہ مارشل لاء اور ایوب حکومت دونوں کے خلاف تھے۔
وہ 1962ء میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے اور اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے پرخچے اڑانے لگے‘ آپ نے اکثر یہ مصرع سنا ہو گا’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے‘انجامِ گلستاں کیا ہوگا‘‘ یہ مصرع پہلی مرتبہ سردار بہادر خان نے قومی اسمبلی میں پڑھا تھا‘ ان کا اشارہ صدر ایوب خان کی کابینہ کی طرف تھا‘ یہ مصرع اس وقت سے ہماری سیاست کا حصہ ہے‘ صدر ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب اور پوتے عمر ایوب بعد ازاں سردار بہادر خان کے حلقے سے الیکشن لڑتے رہے اور قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر بنتے رہے‘ یہ حلقہ آج بھی ایوب خان فیملی کے پاس ہے۔
سردار بہادر خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کے ادوار میں مواصلات کے وفاقی وزیر رہے‘ اس دور میں ٹی بی مہلک ترین مرض ہوتا تھا‘ ملک کے تمام شہروں میں ٹی بی کے ہزاروں مریض تھے چنانچہ حکومتیں ٹی بی کی علاج گاہیں بناتی رہتی تھیں‘ ٹی بی کی علاج گاہیں سینٹوریم کہلاتی ہیں‘ کوئٹہ اس زمانے میں ملک کا خوبصورت ترین شہر تھالیکن اس شہر میں کوئی سینٹوریم نہیں تھا‘ سردار بہادر خان نے سینٹوریم بنانے کا فیصلہ کیا‘ پاکستان ریلوے کا قلم دان اس وقت ان کے پاس تھا‘ کوئٹہ کے بروری روڈ پر ریلوے کی زمین تھی۔
سردار بہادر خان نے وہ زمین سینٹوریم کے لیے وقف کر دی‘ یہ 1954ء میں چیف کمشنر بلوچستان بنے تو انھوں نے زمین کے اس خطے پر سینٹوریم بنا دیا‘ یہ سینٹوریم سردار بہادر خان کے نام سے منسوب ہوا اور تین دہائیوں تک کامیابی سے چلتا رہا لیکن پھر ملک میں ٹی بی کے مرض پر قابو پا لیا گیا اور یہ عمارت آہستہ آہستہ ناقابل استعمال اور متروک ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 2004ء آ گیا‘ جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے‘ یہ کوئٹہ کے دورے پر گئے‘ بلوچستان کے لوگوں نے کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کا مطالبہ کر دیا‘ جنرل مشرف نے یہ مطالبہ مان لیا‘ یونیورسٹی کے لیے جگہ تلاش کی گئی تو نظر سردار بہادر خان سینٹوریم پر آکر ٹھہر گئی‘ یہ عمارت خستہ حال اور متروک تھی‘ چھتیں ٹین کی تھیں۔
دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور برآمدے اور کمرے ابتر حالت میں تھے لیکن بلوچستان کے لوگوں نے یہ عمارت اس حال میں بھی قبول کر لی‘ یہ لوگ ہر حال میں اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے یوں سردار بہادر خان سینٹوریم کا نام بدل گیا اور یہ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی بن گئی‘ یہ ملک میں خواتین کی دوسری یونیورسٹی تھی‘ ملک میں اس وقت ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں لیکن ان میں سردار بہادر خان یونیورسٹی جیسی کوئی درس گاہ نہیں‘ آپ بلوچستان کے محروم کلچر کو دیکھیں‘ قبائلی روایات کو ذہن میں لائیں‘ صوبے کی غربت‘ محرومی اور پسماندگی کا جائزہ لیں‘ آپ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے اور رقبے میں طویل ترین صوبے میں دہشت گردی کی وباء کو دیکھیں اور آپ پھر سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیوں کا عزم اور حوصلہ دیکھیں تو آپ ان بچیوں کے حوصلے‘ جذبے اور بہادری کی داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ ان کی جرأت کو سلام کریں گے۔
مجھے 27 اکتوبر کو سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بہادر بچیوں سے ملاقات کا موقع ملا‘ میں یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سیمینار میں بطور مہمان مدعو تھا‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین یونیورسٹی کی وائس چانسلر ہیں‘ ان کی زندگی کے کئی برس اسلام آباد میں گزرے‘یہ قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھتی رہیں لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے محروم صوبے کی محروم بچیوں کی خدمت کے لیے کوئٹہ آ گئیں‘ یہ مضبوط اعصاب کی خاتون ہیں‘ یہ مشرقی خواتین کے برعکس فوری اور ٹھوس فیصلے کرتی ہیں‘ یہ مسائل میں الجھنے کے بجائے ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔
مجھے ان کی اس صلاحیت نے حیران کر دیا‘ وائس چانسلر کا آفس سینٹوریم کے آپریشن تھیٹر میں قائم ہے‘ آفس کی ایک دیوار پر ٹیلی ویژن اسکرین ہے اور اس اسکرین پر سیکیورٹی کیمروں کی لائیو فوٹیج چلتی رہتی ہے‘ڈاکٹر رخسانہ ہر منٹ بعد اس اسکرین کو دیکھتی رہتی ہیں‘ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا‘ 15جون 2013ء کو ایک خود کش حملہ آور خاتون یونیورسٹی کی بس میں سوار ہو گئی تھی‘بس جب طالبات سے بھر گئی تو حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ خوفناک دھماکا ہوا‘ دھماکے میں 14بچیاں شہید اور22ز خمی ہو گئیں۔
یہ کوئٹہ کی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ تھا‘ یونیورسٹی تین ماہ بند رہی‘ لوگوں کا خیال تھا یہ یونیورسٹی کبھی نہیں کھل سکے گی لیکن آپ بلوچستان کے لوگوں کا جذبہ اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی جرأت دیکھئے‘ خودکش حملے کے وقت یونیورسٹی میں 1500 طالبات زیر تعلیم تھیں لیکن آج یونیورسٹی میں سات ہزار بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘ بچیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے بلوچستان سے کوئٹہ آتی ہیں‘ ہم لوگ جب سمینار کے لیے آڈیٹوریم کی طرف جا رہے تھے تو وہ مقام راستے میں آگیا جہاںجون 2013ء میں تعلیم کے جذبے کو خودکش حملے سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین نے اس مقام کی نشاندہی کی‘ میرا دل بوجھل ہو گیا لیکن پھر چند لمحوں میں بچیوں کے حوصلے اور جرأت نے غم کی جگہ لے لی اور میں شہیدوں کو سلام کر کے آگے نکل گیا۔
آپ یقینا سوچتے ہوں گے ان معصوم بچیوں نے دہشت گردوں کا کیا بگاڑا ہے‘ یہ ان پر کیوں حملے کر رہے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہزارہ کمیونٹی ہے‘ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے سات لاکھ لوگ آباد ہیں‘ یہ نسلاً منگول ہیں‘ یہ افغانستان اور ایران میں آٹھ سو سال سے مشکل زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ انیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار افغانستان سے نکلے اور کوئٹہ میں آباد ہونے لگے‘ یہ شیعہ مسلک سے وابستہ ہیں اور یہ اپنے مخصوص خدوخال‘ قد کاٹھ اور رنگت کی وجہ سے لاکھوں لوگوں میں پہچانے جاتے ہیں۔
پاکستان کے چوتھے آرمی چیف جنرل موسیٰ خان ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ 1985ء میں بلوچستان کے گورنر بنے تو انھوں نے اپنی کمیونٹی کو خصوصی مراعات دیں‘ جنرل موسیٰ نے ہزارہ کمیونٹی کی عزت نفس کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا‘ یہ لوگ اس وقت دہشت گردوں کا خوفناک ٹارگٹ ہیں‘ یہ ہزار گنجی اور ہزارہ ٹاؤن میں بھی ٹارگٹ بنتے رہتے ہیں اور یہ جب زیارتوں کے لیے ایران جاتے ہیں تو بھی قافلے روک کر انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے‘ سردار بہادر خان یونیورسٹی میں ہزارہ کمیونٹی کی سیکڑوں بچیاں پڑھتی ہیں‘ یہ بچیاں بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ ہیں‘ دوسری وجہ بلوچستان ہے‘ بلوچستان طویل بحران کے بعد ٹریک پر آ رہا ہے‘ لوگ اپنی حالت بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ وفاق کو بھی ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہو چکا ہے۔
یہ بھی اب بلوچستان کے لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ فوج بھی بلوچستان کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور بلوچ سرداروں کے رویوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے‘ یہ تمام عناصر مل کر بلوچستان کے خشک درخت پر پھل لگا رہے ہیں‘ پاکستان کے دشمن بلوچستان اور پاکستان دونوں کی ترقی سے خوش نہیں ہیں‘ یہ لوگ یہ پھل اور درخت دونوں کو کاٹنا چاہتے ہیں اور خواتین کیونکہ آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں چنانچہ یہ ان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور تیسری وجہ اقتصادی راہداری ہے۔ ’’سی پیک‘‘ حقیقتاً گیم چینجر ثابت ہو گا‘ یہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا‘ ہمارے دشمن ہمارے وجود میں یہ ہڈی نہیں دیکھنا چاہتے چنانچہ انھوں نے بلوچستان میں افراتفری کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں باقاعدہ ٹریننگ کیمپ بنا رکھے ہیں‘ یہ بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ہر سال چار سو ملین ڈالر خرچ کرتا ہے‘ یہ لوگ دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے ہیں‘ انھیں اسلحہ اور رقم فراہم کرتے ہیں اور یہ ٹرینڈ لوگ بعد ازاں بلوچستان میں افراتفری پھیلاتے ہیں‘ بلوچستان کے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں چنانچہ یہ دشمن کے ہر حملے کے بعد زیادہ جذبے‘ زیادہ جرأت اور زیادہ عزم کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوجاتے ہیں‘ میں نے یہ عزم‘ یہ جرأت اور یہ جذبہ سردار بہادر خان یونیورسٹی کی ہر بچی کی آنکھ میں دیکھا‘ خصوصاً ہزارہ کمیونٹی کی بچیاں کسی بھی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ وہ تبدیلی ہے جو اگر چلتی رہی تو وہ وقت دور نہیں رہے گا جب سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیاں اقتدار کی کسی شاخ پر اُلو نہیں بیٹھنے دیں گی اور اگر اُلو بیٹھ گئے تو بھی انجامِ گلستاں مختلف ہو گا‘ اس ملک کا آنے والا کل ہر لحاظ سے آج سے مختلف ہو گا۔
تبصرہ لکھیے