''اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ'' (البقرۃ) ایمان اصل میں دل سے کسی چیز کو ماننے ، اس کا عقیدہ رکھنے اور اس کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان کے دل میں کسی چیز کا یقین بیٹھ جائے اور وہ دل سے جب کسی چیز کو تسلیم کرلے تو اس کے اثرات پھر اس کے پورے جسم اور اعضاء پر مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلا آپ کے سامنے بجلی کی تار پڑی ہے اور آپ کو یقین ہے کہ بجلی کی اس تار میں کرنٹ ہے تو آپ کبھی بھی اس کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اب یقین اور اعتقاد تو آپ کے دل کا عمل ہے، لیکن اس کا اثر آپ کے جسم پر یہ ظاہر ہوا کہ اس یقین نے آپ کے ہاتھوں کو بجلی کی تار کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔ یہی معاملہ ایمان کا ہے کہ یہ بھی دل کا عمل ہے۔ انسان اللہ پر ایمان لائے، رسولوں پر ایمان لائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان لائے۔ فرشتوں پر ایمان لائے۔ تمام آسمانی کتابوں اور قرآن کریم کے آخری آسمانی کتاب ہونے پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر اور قبر، حشر اور روز جزاء وسزا پر ایمان لائے۔ ان ساری چیزوں پرایمان لانے کا کام دل کا ہوتا ہے، لیکن جب یہ ایمان واقعی دل سے ہو تو پھر جسم بھی اسی ایمان کے مطابق چلتا ہے۔جسم کا ایمان کے مطابق چلنا ''اسلام'' کہلاتا ہے۔ انسان کے ظاہر سے صادر ہونے والے اعمال کا نام ''اسلام'' ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اسی بات کا درس دے رہی ہے کہ اے ایمان والو! پورے پورے مسلمان ہوجاؤ!تو آسان الفاظ میں اگر ہم اس کو بیان کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایمان کے تقاضوں پر عمل بھی کرو۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں ہوتا ہے تو وہ خود ہی انسان کو اعمال پر آمادہ کردیتا ہے۔
انسان کو اللہ تعالی نے علم حاصل کرنے کے لیے پانچ حواس (Five Senses) دیے ہیں۔ آنکھ کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں علم حاصل ہوتا ہے کہ یہ چیز کالی ہے یا سفید؟ یہ موبائل ہے یا کمپیوٹر؟ وغیرہ۔ اب جیسے ہی آپ دیکھتے ہیں فوراآنکھ کا یہ حاسہ آپ کے دماغ کو سنگل دیتا ہے اور آپ کو علم حاصل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ ''کان'' کا ہے۔آپ کان کے ذریعے سنتے ہیں تو علم حاصل ہوتا ہے کہ کوئی رو رہا ہے یا ہنس رہا ہے؟ کوئی مجھے بلارہا ہے یا مجھے اجازت دے رہا ہے؟ اسی طرح ''ناک'' کے ذریعے آپ کو علم ہوتا ہے کہ یہ خوشبو ہے یا بدبو؟ ''زبان'' کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ یہ چیز میٹھی ہے یا کڑوی؟ نمکین ہے پھیکی؟ ''ہاتھ'' کے ذریعے آپ کسی چیز کو مس کرتے اورچھوتے ہیں تو آپ کو پتا لگتا ہے کہ یہ چیز نرم ہے یا سخت؟ گرم ہے یا ٹھنڈی؟ اب یہ پانچوں حواس اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو زندگی دوبھر ہوجائے، لیکن اس کے باوجود ان میںسے ہر ایک کی اپنی ایک لمٹ اور حدود ہیں اور ہر ایک کا ایک مخصوص فنکشن اور کام ہے۔مثلا ہاتھ کے ذریعے اگر آپ کسی چیز کو ٹچ کرتے ہیں تو آپ اسی حدود میں ٹچ کرسکتے ہیں جہاں تک آپ کا ہاتھ پہنچ سکے۔ اس سے آگے کی چیز کو آپ ٹچ نہیں کرسکتے۔ یہی معاملہ دیگر چار حواس ؛آنکھ، کان، ناک اور زبان کا ہے۔ اب کوئی بھی شخص آنکھ کو اس لیے فضول نہیں کہتا کہ یہ کیسی آنکھ ہے؟ یہ تو سنتی ہی نہیں؟ نہ ہی کوئی شخص کان کو برابھلا کہتا ہے کہ یہ کیسا کان ہوا جو سونگھتا نہیں؟ ظاہر ہے اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو لوگ اسے سمجھائیں گے کہ بھائی آنکھ کاکام یہ ہے اور کان کا یہ۔ اس لیے آپ اپنی بات پر نظر ثانی کرو۔
جب انسان کے ان پانچ حواس کی حدودکا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر ایک مقام ا یسا آتا ہے کہ ان پانچوں حواس سے اس چیز کا علم حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ پانچوں حواس اس کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ اس جگہ پھر ''عقل'' کی نعمت کام آتی ہے۔ مثلا ایک کمپیوٹر آپ نے دیکھا تو آنکھ نے آپ کو یہ بتایا کہ یہ کمپیوٹر ہے، لیکن اسی کے ساتھ آپ کے ذہن میں یہ جو سارے خیالات آتے ہیں کہ یہ کسی نے بنایا ہے؟ اس میں نہ جانے کون کون سے پرزے ہیں؟ پھر اس کمپیوٹر کا پورا استعمال یہ کام آپ اپنے عقل سے انجام دیتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہر حاسہ اور ہر سینس کا اپنا کام ہے اور ہر ایک کی حدود بھی ہیں۔ پھر ایک جگہ ایسی آتی ہے جہاں عقل بھی کام چھوڑدیتی ہے۔ وہاں پھر عقل کے ذریعے کسی چیز کو سمجھنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی جگہ پر عقل کا استعمال آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کتنی بڑی بے وقوفی ہے؟ اگر ایک چیز عقل کی حدود سے ماورا ہے اور آپ اس کو پھر بھی عقل کے پیمانے پرکھنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ بالکل ایسا ہی کہ آپ آنکھ سے سننے کا کام لینے کی کوشش کریں۔ جہاں پر عقل کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے ایک ساتویں نعمت کا آغازہوتا ہے جس کو ''وحی'' کہتے ہیں۔ جو چیز عقل سے بھی سمجھ نہ آئے اس کی تعلیم دینے کے لیے پھر آسمان سے بھیجی گئی وحی رہنمائی کا کام دیتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ عقل سب کچھ نہیں، بلکہ کچھ کچھ ہے۔ لہذا دین کے کسی حکم پر عمل کرتے ہوئے اگر ایک طرف دین کا حکم ہو اور دوسری طرف آپ کی عقل ہو اور وہ بات آپ کی عقل میں نہ آرہی ہو لیکن آپ کو پتا چل جائے کہ یہ اسلام کا حکم ہے، ایسی صورت میں ایک مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کی بات مانے۔ جو رہنمائی اسے وحی نے دی ہے اس کو تسلیم کرے اور عقل کو یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے پس پشت ڈال دے کہ یہ عقل کا میدان ہی نہیں۔ اگر عقل اور دماغ سے ہی ہر چیز کا سمجھنا اور کائنات کے اس نظام کا چلنا ممکن ہوتا تو میرا رب کبھی سوالاکھ کم وبیش پیغمبر اس دنیامیں نہ بھیجتا۔ کبھی آسمان سے کتابیں اور صحائف نہ اترتیں۔ یہ ساری باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وحی کے نور کے بغیر عقل گمراہ ہے۔ ہاں اسی عقل کو اگر وحی کی تابعداری اور اس کی خدمت کے لیے استعمال کیاجائے تو کیاہی بات ہے! قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیاگیا کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ بس اپنے آپ کو اسلامی احکامات کے مکمل تابع کردواور پورے کے پورے ان تعلیمات کے سامنے جھک جاؤ چاہے تمہاری عقل مانے یہ نہ مانے۔ اس لیے کہ ''اسلام'' کا لفظی اور لغوی معنی ہے:'' تابع فرمان ہونا، تابعدار ہوجانا، سرتسلیم خم کردینا''۔ قرآن کریم میں اسی مفہوم میں یہ لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ یوں ''مسلم'' کا مطلب ہے: اللہ کا تابعدار بندہ، اللہ کے احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کردینے والا انسان۔
ان باتوںکے تناظر میں ہم اسلام کا مفہوم اجمالا یوں بیان کرسکتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں تابعداربننے کا نام اسلام ہے اور تفصیل میں جائیں تو اسلام کے پانچ شعبے ہیں: عقائد؛ مثلا: اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان۔عبادات؛ مثلا نماز، روزہ ۔ معاملات؛ مثلا: خریدوفروخت، مالی لین دین۔ معاشرت:مثلا؛ رشتہ داروں کے ساتھ کیسے رہا جائے؟ پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک رکھاجائے؟ اخلاقیات؛ مثلا حسد سے بچنا، تکبر سے اجتناب۔ ان پانچوں شعبوں میں مسلمان بننے کا مطالبہ کیاگیا ہے ہم سے۔آج کل عقلیت پسندی کا بہت زیادہ چرچا اور غوغا ہے۔ ہمارے بہت سے سادہ لوح مسلمان بعض مرتبہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اعمال وکردار میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ ساری تفصیل سامنے ہو تو امید ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہوگی اور انسان اپنی عقل اور اپنی پوری سوچ، فہم وفراست کو پس پشت ڈال کر یہ دیکھے گا کہ اسلام کا حکم کیا ہے؟ مجھ سے میرے دین کا مطالبہ کیا ہے؟ اگر یہ چیز ہمیں سمجھ آجائے تو بس یہی اس آیت کی تفسیر ہے۔ یہ اس کا مفہوم بھی اور مدعا بھی، مضمون بھی ہے اور مقصود بھی۔
تبصرہ لکھیے