کل سیک س یمینار میں الجھا رہا، آج صبح اسلام آباد سے آئے دوستوں سے محفل رہی، ٓشام کو فیس بک دیکھنے کا موقع ملا۔ شدید حیرت ہوئی کہ پرویز رشید صاحب کی علیحدگی پر بعض دوستوں نے دکھ کا اظہار کیا۔ ایک دو نے تو شدت جذبات میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ پرویز رشید کی بڑی قربانیاں ہیں، مشرف دور میں فوجی تشدد اور معلوم نہیں کیا کیا۔ عرض یہ ہے کہ تشدد تو معلوم نہیں ہوا بھی تھا یا نہیں یا یہ بھی ان جیسی سینکڑوں مفروضہ جھوٹی پروپیگنڈہ کہانیوں میں سے ایک کہانی تھی، جو جناب پرویز رشید اپنی وزارت اطاعات و نشریات کے دور میں اخبار میں چھپواتے اور میڈیا پر چلواتے رہے۔
پرویز رشید صاحب کا سیدھا سادا معاملہ یہ ہے کہ آزمائے گئے، مگر ہلکے نکلے، بلکہ نہایت ہلکے۔ ان کا معاملہ وہی ہے جو جناب زرداری کا ہے، کوئی ان سے ہمدردی کرے کہ انہیں گیارہ سال جیل کاٹنی پڑی، بڑے مظلوم انسان ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے وہ پاکستانی تاریخ کے اس کرپٹ ترین شخص کے پانچ سالہ دور صدارت کو بھول جائے، جس میں ایک ایک کر کے تمام قومی ادارے تباہ کیے گئےاور کرپشن کی بھیانک داستان رقم ہوئی۔
پرویز رشید صاحب کی شہرت ایک اعلیٰ درجے کے خوشامدی، میاں صاحب کو منہ چڑھے، اپنی جگت بازی اور تعریفی جملوں سے خوش کرنے والے شخص کی رہی۔ مسلم لیگ ن کے قریبی صحافی اور لوگ اس حوالے سے عجب کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ تاریخ ساز جملہ بھی جناب پرویز رشید سے منسوب کیا جاتا ہے کہ ایک دن انہوں نے میاں صاحب سے کہا، ”میاں صاحب اج تسی اینے سوہنڑے لگ رے او کہ خوشامد کرن دا جی چاہندا اے۔“ اس پر صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ خیر یہ ان کی اپنی پارٹی کے اندر ان کی مخالف لابی کی سنائی کہانیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
وزیراطلاعات و نشریات کے طور پر انہوں نے کیا کیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ حکومتی فنڈز کا بدترین استعمال کرتے ہوئے میڈیا مینجمنٹ پر ہر ممکن زور دیا۔ بے شمار سچی خبریں اور رپورٹیں چھپوائیں اور بےشمار غلط، جھوٹی اور من گھڑت خبریں عمران خان کے خلاف چلوائیں، شائع کرائیں۔ پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ دو تین سال پہلے مشاہداللہ خان کے نام سے سینئر کالم نگار ہارون الرشید صاحب کے خلاف ایک نہایت سخت اور تند و تیز مضمون جنگ اخبار میں شائع ہوا۔ لاہور میں وہ صفحہ تین پر تین فل کالم میں شائع ہوا۔ جنگ پنڈی میں اسے دو تین قسطوں مین چھاپا گیا۔ اس مضمون کا مشاہداللہ خان کے فرشتوں تک کو علم نہیں ہوگا، یہ ان کے نام سے شائع ضرور ہوا۔ جناب پرویز رشید اس کے ماسٹر مائنڈ تھے اور مزید ستم ظریفی یہ کی گئی کہ اسے اس شخص سے لکھوایا گیا یعنی مجبور کر کے لکھوایا گیا جو رائٹ ونگ کا تصور کیا جاتا تھا، تاکہ ہارون صاحب کے اس پرو رائیٹ پرو اسلامسٹ ن لیگی صحافی سے تعلقات خراب ہوں۔ یہ سب پچھلے تین برسوں میں مسلسل ہوتا رہا، اس قدر تواتر سے کہ ان کی تفصیل شائع کی جائے تو شاید ایک پمفلٹ چھاپنا پڑے۔
اس سے ہٹ کر پرویز رشید نے ایک نہایت بدتمیز، بدلحاظ، دروغ گو شخص کے علاوہ اور کیا امیج بنایا۔ ہر روز وہ ٹی وی پر آ کر عمران خان کو ملاحیں سناتے، ایسا ایسا جھوٹ بولتے کہ آدمی ہل کر رہ جاتا، صریحاً دروغ گوئی، کیچڑ اچھالنا، انتہائی گھٹیا رویوں کا روزانہ اور متواتر اظہار ہی موصوف کی پہچان بن چکی تھی۔
پھر اس سیرل المائیڈہ کی خبر والے کھیل میں پرویز رشید کا کیا افسوسناک کردار رہا؟ اس پر بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے بھلا۔
اس پرویز رشید کی وزارت سے برطرفی پر افسوس۔ اس کمزور خیال کے ذہن میں آنے پر افسوس، صد افسوس، ہزار افسوس بلکہ ملین افسوس۔ 🙂 ۔ ان دوستوں کے لیے جن پر پرانی تشدد کی کہانیاں غالب آ گئیں، اور وہ پچھلے دس برسوں کے کرتوت بھول گئے۔
بقول شخصے الحذر الحذر۔ ایسی ژولیدہ فکری۔ 🙂
تبصرہ لکھیے