ہوم << گدھے، بکرے اورگائے کی قربانی - ارمغان احمد

گدھے، بکرے اورگائے کی قربانی - ارمغان احمد

اگر کھلی کھلی ملک سے غداری پر بھی اصل ذمہ داروں کو نہیں ٹانگا جاتا اور دو ٹکے کے درباریوں پر اکتفا کر لیا جاتا ہے تو میں اتنے سال سے فوج کے بارے میں ایک مثبت رائے رکھنے پر شرمندہ ہوں گا۔ اس کا میری سیاسی پسند یا ناپسند سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ جو لوگ انجان ہیں یا بھولے بنے ہوئے ہیں، ان کی خدمت میں پوری صورتحال ایک بار پھر پیش کر دیتے ہیں۔
پرائم منسٹر ہاؤس میں ایک میٹنگ ہوتی ہے۔ اس میٹنگ میں روٹین کی بات چیت ہوتی ہے۔ بعد ازاں من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی باتیں چند حکومتی شخصیات کی طرف سے میڈیا کو ”لیک“ کر دی جاتی ہیں۔ یہ باتیں کیا ہیں؟ رپورٹ کے مطابق شہباز شریف صاحب وغیرہ اور دوسری حکومتی شخصیات نے فوج کو یہ کہا:
1۔ فوج کو دہشت گردوں کا سرپرست کہا گیا
2۔ کشمیر میں ”دہشت گرد“ بھیجنا بند کرو ورنہ بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
3۔ پنجاب میں جب بھی دہشت گردوں کے خلاف پولیس ایکشن لینے لگتی ہے، فوج ان کو بچا لیتی ہے۔
4۔ آئی ایس آئی چیف کو ”حکم“ جاری کیا گیا کہ وہ آئی ایس آئی کے ہر سٹیشن کا ذاتی طور پر دورہ کر کے ہدایات جاری کریں کہ دہشت گردوں کی گرفتاری میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے (جیسے آئی ایس آئی کے پاس فون یا وائرلیس کی سہولت میسر نہیں، اور ذاتی طور پر چیف کے جائے بغیر ان کی بات سنی نہیں جائے گی)
5۔ حکومت وزیروں نے فوجی حکام سے تلخ کلامی بھی کی۔
یہ خبر شائع ہونے کے اگلے ہی دن حکومت اس کی تین بار تردید جاری کرتی ہے کہ میٹنگ میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ یار لوگ اور بچے ”جمہورے“ ارشاد فرماتے ہیں کہ حکومت فوجی دباؤ میں تردید کر رہی ہے۔ اب ان جمہوری بزرجمہروں سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر حکومت فوج سے اتنی ہی ”ڈرتی“ ہوتی تو کیا کسی بھی میٹنگ میں ایسی باتیں کر سکتی تھی؟ اور اگر اتنی ”بہادر“ تھی کہ ایسی باتیں کر سکتی ہے تو پھر پہلے خبر لیک کر کے بعد میں تردید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں۔
آپ کو پتا ہے کہ اگر اس خبر کو جھوٹا ثابت نا کیا جائے تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ سٹوری کسی بھی بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے خلاف بطور فرد جرم استعمال کی جا سکے گی۔ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جا سکے گا۔ اس لیے یہ ازحد ضروری ہے کہ اس خبر کو پوری طرح کوریج کے ساتھ روز روشن کی طرح جھوٹا اور ذمہ داروں کو سخت ترین سزا سنائی جائے۔ اسے کارپٹ کے نیچے دبایا جا سکتا ہے نہ کوئی فائدہ ہے۔ اسی طرح کچھ فوج سے آبسیسڈ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کسی کو پتا ہے کہ فوج ایسا کرتی ہے۔ ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگر واقعی میں بھی فوج کچھ ایسا کرتی ہو تو اس کے خلاف پوری دنیا کے سامنے ایسا قبول کر لینے میں اور قبول نہ کرنے میں فرق سمجھنے کے لیے آپ کے پاس محض تھوڑی سی کامن سینس ہونی چاہیے یا بین الاقوامی تعلقات کا معمولی سا مطالعہ۔
سیاستدان سب کچھ کرتے ہیں، کرپشن بھی، دھاندلی بھی، ظلم بھی۔ جمہوریت بی بی کے نام پر ہم سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں۔ مگر ملک دشمنی ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اور اگر فوج نے اس معاملے پر کسی قسم کی سودے بازی کرنے کی کوشش کی یا قربانی کے بکروں کی بلی چڑھا کر اصل ذمہ داروں کو بچانے کی کوشش کی تو پھر نہایت افسوس سے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ ہم اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ اس حرکت میں چاہے کوئی فوجی شامل تھا، چاہیے کوئی سویلین، چاہیے کوئی سیاسی شخصیت شامل تھی یا غیر سیاسی۔ سب کو عبرت کی مثال بنانا چاہیے۔ ایسا نا ہوا تو کم از کم میں کسی بھی غیرت مند پاکستانی کو یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ ایسے غیر منصفانہ نظام میں رہے۔ ناگ کو دودھ نہیں پلایا کرتے، اس کا سر کچل دیا کرتے ہیں۔
سیاست، بیوروکریسی اور فوج سب کچھ بعد میں آتا ہے۔ ہماری سب سے پہلی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے۔ اینٹی ایسٹیبلشمنٹ ہونے اور اینٹی پاکستان ہونے میں بھی فرق ہوتا ہے۔ پاکستان سے دشمنی کرنے والوں کی سزا پر کوئی سمجھوتہ امید ہے کہ نہیں ہو گا اور ہم جیسے حقیقی جمہوریت چاہنے والوں کو اس نظام سے مکمل طور پر مایوس نہیں کیا جائے گا۔ چاہیے کوئی بکرا ہے یا گدھا یا گائے، تمام متعلقہ لوگوں کی سزا ضروری ہے! پاکستان زندہ باد

Comments

Click here to post a comment