ہوم << کامیابی کا راستہ - حیدر مجید

کامیابی کا راستہ - حیدر مجید

میں لائبریری سے کتاب ایشو کروا کر باغ کی جانب چل دیا۔ عصر کا وقت قریب تھا اور میں جانتا تھا کہ سر اختر صاحب نماز ادا کر کے ہی آئیں گے۔ تب تک کے لیے مجھے سر کا انتظار کرنا تھا۔ مقرر کردہ جگہ پر پہنچ چکا تھا، اسی جگہ پر بیٹھ کر ہم زیر مطالعہ کتاب پر بحث کرتے تھے۔ مجھے انتطار کرنا دشوار لگ رہا تھا تو میں مطالعہ کرنے لگ گیا وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا،وقت کا تب پتا چلا جب سر نے آکر سلام کیا اور بولے صاحبزادے مطالعے میں کافی مگن ہیں کہ ارد گرد کی کوئی خبر ہی نہیں۔ میں نے جلدی سے کتاب بند کی اور سر کے سلام کا جواب دیا۔ اتنے میں سر بیٹھ چکے تھے۔ بیٹھتے ہی بولے،برخوردار مجھے خوشی ہے کہ آپ مطالعہ کے شوقین ہو ورنہ آج کے نوجوان مطالعہ کرنے کو پسند نہیں کرتے۔
آج کون سی کتاب لے کر آئے ہو؟
سر آج اشفاق احمد صاحب کی کتاب زاویہ لے کر آیا ہوں۔
بہت خوب بڑے احسن طریقے سے مطالعے کی پیاس بجھائی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں بہت سی اچھی باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک نہیں بہت سے پیغام ملتے ہیں۔
جی سر اور ہم ان اچھی باتوں کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
جی بلکل ایسا ہی ہے بیٹا۔ پر بیٹا ایک کتاب ایسی بھی ہے جس کے مطالعہ سے نہ صرف مطالعہ کی پیاس بجھتی ہے بلکہ غور و فکر اور عمل کرنے سے دنیاوی اور اخروی فائدے بھی بہت ہو گئے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں قرآن مجید کی بات کر رہا ہوں۔ میں آپ کوئی لیکچر نہیں دینے لگا۔ بس ایک واقعہ سنانے لگا ہوں۔
آپ اسرائیل کے بارے میں جانتے ہیں؟
جی بلکل سر جانتا ہوں۔
اسرائیل میں ایک یونیورسٹی ہیبرو ہے،ہیبرو یونیورسٹی کا شعبہ تقابل ادیان غور وفکر کے لیے بڑا مشہور ہے۔ کچھ سال پہلے جب Comparative Study کے دوران وہاں کے طلبہ اور ان کے پروفیسرز قرآن پاک کی اس سورۃ پر پہنچے جس میں حضرت داؤد علیہ والسلام کا ذکر ہے تو لحن داؤدی کی تاثیر اور قوت کے بارے پر بحث کا آغاز ہو گیا اور کہا گیا کہ ان کی آواز کی خوبصورتی کے باعث چرند پرند بھی مسحور ہو جاتے تھے تو اس کا مطلب ہوا کہ ان کا علاقہ سرسبز ہو گا۔ سبزے کے لیے پانی ضروری ہے پانی ہو گا تبھی تو چرند پرند ہو گئے اور جو علاقہ حضرت داؤد کی بعثت کا ہے وہ اسرائیل اور شام کی سرحد کے دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس بنجر اور بے آب و گیاہ وادی میں سبزہ اور چرند پرند کہاں سے آگئے۔ ماہرین نے انکار کرنے کی بجائے تحقیق و جستجو کے لیے جیالوجی اور سروے آف اسرائیل کے ذمہ دار شعبے کو کیس بھجوا دیا کچھ عرصے بعد متعلقہ محکمے نے اس خطے میں ایک پرانے مٹی کے بند کے آثار ڈھونڈ لیے
اسی بند کو دوبارہ تعمیر کیاگیا۔ بارش کا پانی اس پورے علاقے میں زراعت اور کاشت کے لیے استعمال ہونے لگا تو خطے کی شکل ہی بدل گئی پورا علاقہ خوبصورت نظر آنے لگا جبکہ اس سے متصل فلسطینی پٹی اور شام کی پٹی بلکل ویرانی اور بیابانی کا نظارہ پیش کرتی ہے۔
اسی طرح تقابل ادیان کے شعبے نے دوسرا کیس بھجا کہ قرآن قوم عاد پر عزاب اس طور پر آیا کہ زمیں میں سے آگ کے بڑے بڑے ستونوں نے انھیں گھیر لیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ کوئی اور ہوتا تو انکار کر دیتا۔ انہوں نے ہھر جستجو کی، قوم عاد کے علاقے کا تعین کیا گیا۔ یاد رہے اسرائیل انبیاء کی سر زمین رہا ہے۔ جیالوجی والوں نے وہاں کئی قسم کی گیس کے ذخائر دریافت کر لیے۔ گیس جب زمین سے نکلی تو فوارے کے پانی کی قوت کے ساتھ۔ تب قدرت نے گیس کو آگ لگا کر عزاب کی شکل دی۔ اب وہاں سے گیس پورے ملک کو سپلائی کی جاتی ہے
سر یہ لوگ تو کافر ہیں قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نہیں مانتے پھر کیوں تحقیق کر رہے ہیں؟ اور مہارتیں اور علوم ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کیوں کھڑے ہو گئے؟؟
مجھے معلوم تھا کہ تم ایسا ہی سوال کرو گئے۔دیکھو بیٹا یہ لوگ ہیں تو ہمارے دشمن لیکن یہ لوگ ہم سے زیادہ قرآن، احادیث، سنت نبوی اور احکامات پر غورو فکر، تحقیق و جستجو اور محنت کر رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ۔ اب یہ لوگ روحانی نہ سہی پر دنیاوی فائدے پوری طرح اٹھا رہے ہیں۔
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں انھیں برا کہنے سے ہی فرضت نہیں ملتی بلکہ خود بھی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، یوں سوچنے کا سارا کام دھرہ کا دھرہ رہ جاتا ہے، جب سوچ نہیں ہوگی تو عمل کیسے ہو گا؟
بیٹا ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ قرآن کو بس ثواب کی نیت سے پڑھتے ہیں،کبھی غوروفکر کے لیے کھولا ہی نہیں۔ درس قرآن صرف ثواب کے لیے سنتے ہیں اس لیے نہیں کہ اللہ ہمیں اس کے ذریعے کیا کہہ رہا ہے۔ نماز صرف فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں،کبھی اس نیت سے گئے ہی نہیں کہ ہم اللہ سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں۔ اللہ ہمیں کامیابی کی طرف بلا رہا ہے ہم کامیابی کی طرف جا رہے ہیں۔۔ بس فرض بلکہ قرض ادا کرنے جاتے ہیں
اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔
لو بھی اللہ سے ملاقات اور کامیابی کی طرف بلاوا آگیا ہے۔ میں تو چلا، اگر کامیابی چاہتے ہو تو آجاؤں۔۔۔
میں بھی سر کے پیچھے چل دیا اور سوچ رہا تھا کہ اللہ روزانہ پانج وقت کامیابی کی طرف بلاتا ہے اور ہم ہیں کہ کامیابی کی طرف جاتے ہی نہیں۔ آج ہمارے زوال کی یہی وجہ ہے۔
آج میں خود سے شرمندہ ہوں اللہ مجھے بلاتا رہا اور میں خواب غفلت میں رہا۔ اے اللہ مجھے معاف کر دے میں بھٹک گیا تھا۔ اب جب تو بلائے گا تو میں تیری طرف بھاگتا آؤں گا۔ اے اللہ مجھے معاف کر دے، معاف کر دے

Comments

Click here to post a comment