کچھ عرصہ قبل ایک دوست سے گفتگو ہو رہی تھی، اس نے فجر کی نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ بزرگوں سے سنا ہے کہ فجر کی نماز ادا کرنے والے کا رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے، اس لیے فجر کی نماز ضرور پڑھنی چاہیے۔ میں نے سوال کیا کہ فرض کریں، اگر یہ فائدہ حاصل نہ ہو تو پھر کیا نماز چھوڑ دینی چاہیے؟ اس کا اس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔
ہم روز مرہ زندگی میں اسلام کے فرائض کے بارے میں مختلف طبی اور دنیاوی فوائد کی باتیں کرتے اور سنتے ہیں جیسے کہ روزے سے معدے پر اچھا اثر پڑتا ہے، معدے کو سکون میسر آتا ہے، صحت بہتر ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
اسی طرح نماز کے دوران بلڈ سرکولیشن کے حوالے سے مختلف طبی فوائد کے بارے تفصیلات ملتی ہیں۔ اچھی بات ہے کہ ہم اس حوالے سے بھی علم رکھتے ہوں کہ سجدے میں دل کا لیول دماغ سے اونچا ہو جاتا ہے اور دماغ کو خون کی سپلائی بہتر ہو جاتی جو کہ دماغ کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے عبادت کا جو بھی طریقہ بیان فرمایا ہے کیا اس کا مقصد انسان کا روحانی پہلو سے تزکیہ ہے یا پھر اسکی جسمانی صحت کی بہتری ہے؟ اگر دنیاوی فائدہ ہی پیش نظر رکھا جائے تو پھر زکوۃ اور حج کے بارے کیا خیال ہے؟ ان دونوں عبادات میں بظاہر تو دنیاوی طور پر مالی نقصان ہو رہا ہوتا ہے کہ انسان اپنی محنت سے کمائے ہوئے مال میں سے بنا کسی دنیاوی فائدے کے اچھی خاصی رقم خرچ کرتا ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ ان سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ہمارے پاس ہدایت کا اصل منبع و سر چشمہ قرآن مجید اور حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے۔ اگر ہم ان کی طرف رجوع کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ صرف ایک عبادت "نماز" کے بارے ہمیں کیا جواب ملتا ہے تو قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، پھر ارشاد فرمایا کہ میری یاد کے لیے نماز قائم کر، پھر ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ جب آخرت میں جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کروایا تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ صبر اور نماز کے ساتھ (اللہ سے) مدد چاہو اور یقیناً یہ(نماز پڑھنے کا) کام بہت بھاری ہے (ان لوگوں پر) سوائے اللہ سے ڈرنے والوں کے۔
مندرجہ بالا چند مقامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کی ادائیگی کا اصل مقصود اللہ کی یاد اور اس کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے اور ہماری نیت صرف اور صرف یہی ہونی چاہیے۔
اسی طرح کتب احادیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے مکان کا کمرہ تعمیر کیا اور اس میں ایک سوراخ بھی رکھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ سوراخ کس لیے ہے تو ان صحابی نے جواب دیا کہ روشنی اور ہوا کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس نیت سے رکھتے کہ یہاں سے آذان کی آواز سنائی دیتی رہے تو تمہیں اس کا اجر بھی ملتا اور اس سے ہوا اور روشنی بھی مل جاتی۔
اس تمام بحث سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم عبادت کو خالص اللہ کی رضا کے لیے بجا لائیں اور دل میں کوئی دنیاوی فائدے کے حصول کی نیت نہ ہو تو اس سے ہمیں دونوں فوائد حاصل ہوتے رہیں گے۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ چاہے کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہو یا نہ ہو ہم اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے