سعادت حسن منٹو صاحب کے ایک افسانے میں لکھا ہے:
”چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی. میرے افسانوں کی ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اُٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اُچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑ چڑا پن، اس کی گالیاں، یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔“
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ منٹو صاحب نے ایسا کیوں لکھا؟
شاید منٹو ان خواتین سے واقف نہیں تھے جہنوں نے پارسائی کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے. بازار حسن کی کسی نازنین کا دکھ تو انہیں نظر آگیا لیکن باپ کی دہلیز پہ بیٹھی بوڑھی ہوتی اس بیٹی کا دکھ کیونکر نظر نہ آیا جس کا باپ زندگی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے کب کا بوڑھا ہو چکا ہے. رات کو آتے جاتے سائے بھی اسے سونے نہیں دیتے. ہونے والی ہر آہٹ اور دستک اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کرتی ہے. اگر وہ چاہتی تو گھر کی دہلیز پار کر کے اپنے لیے کوئی دلدار ڈھونڈ لیتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اسے پارسائی کا بوجھ اٹھانا تھا.
منٹو صاحب نے اس عورت کے بارے میں بھی نجانے کیوں نہیں لکھا جس کا دل محبوب کے قدموں میں لپٹنے کو کرتا ہے، اور تمام عمر اس کے سنگ گزارنے کی آرزو ہے، لیکن وہ تمام عمر نہ سہی ایک رات بھی اپنے من چاہے محبوب کے ساتھ نہیں گزار سکتی کیونکہ اسے اپنی پارسائی کا بوجھ اٹھانا ہے.
منٹو صاحب نے اس عورت کا دکھ کیوں نہیں لکھا جس کا شوہر گھر میں اور گھر سے باہر اپنی من چاہی ہر عورت سے جب چاہے مل سکتا ہے لیکن وہ عورت مستقبل کے انجان خدشوں سے ڈرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر پاتی. اپنے شوہر کی طرح اپنے من چاہے ساتھی کے ساتھ کچھ لمحات تک نہیں گزار سکتی کیونکہ اسے پارسائی کا بوجھ اٹھانا ہے.
منٹو صاحب شریف زادیوں کے دکھوں سے کیونکر انجان رہے.
پارسائی کا یہ بوجھ بھی بڑا ظالم ہے جس میں عورت کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتی. منٹو صاحب نے اس بہن کو اپنے افسانے کی ہیروئن نہیں بنایا جس کے بھائی تو تمام دنیا کو فتح کرتے پھرتے ہیں لیکن اسے چاردیواری پار کرنے کی بھی اجازت نہیں اور وہ بھائیوں کی غیر موجودگی میں ان کی رضا سے بندھی پارسائی کا بوجھ اٹھا رہی ہے.
آج اگر منٹو صاحب زندہ ہوتے تو میں ان سے ضرور پوچھتی کہ وہ عورت جو دن رات اپنے شوہر کی، بچوں کی، سسرالی رشتے داروں کی خدمت میں جتی ہوئی ہے اور جسے جواب میں طعنے، مار پیٹ، گالی گلوچ کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، پھر بھی وہ اف تک نہیں کرتی، وہ ان کے افسانوں کی ہیروئن کیوں نہیں ہو سکتیں؟
وہ ماں ان کے افسانوں کی ہیروئن کیوں نہیں ہو سکتی جو بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی اور پھر اس نے ساری جوانی کی ان گنت راتیں جاگ کر اور بستر پہ کروٹیں بدلتے گزاریں لیکن پھر بھی پارسائی کا بوجھ اٹھائے رکھا تاکہ کل کو اس کے بچوں کو کوئی اس کے نام کا طعنہ نہ دے.
شاید منٹو صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شریف زادیوں کے دکھ اور اندیشے طوائف زادیوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں.
تبصرہ لکھیے