میرا تو خیال ہے کہ ایم ایم اے بحال ہوگئی ہے، بس رسمی اعلان، مٹھائی بانٹنا اور نشستیں تقسیم کرنا باقی رہ گیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب نے جب اضاخیل میں موجود لاکھوں لوگوں کے سامنے اعلان فرما دیا کہ لبرلزم اور سیکولرزم کا مقابلہ کرنے کے لیے دینی جماعتوں کو اکٹھا کریں گے اور ہر ایک کے پاس وہ بذات خود جاؤں گا تو آسان بھاشا میں اس کا مطلب ایم ایم اے طرز کی اتحاد کا قیام ہی ہوا۔ دوسری طرف قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب سے جب صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا دینی جماعتوں کا اتحاد دوبارہ بحال ہونے جا رہا ہے تو اسلوب گفتگو کے اس عظیم ماہر نے نہایت ہی خوبصورتی سے فرمایا کہ اتحاد ختم ہی کب ہوا تھا، ہم تو آج بھی مختلف معاملات پر اکھٹے بیٹھتے ہیں اور مشترکہ فیصلے کرتے ہیں۔ مطلب سادہ الفاظ میں یہ ہوا کہ برف پگھل رہی ہے۔
دونوں بڑی دینی جماعتوں نے مستقبل کا ادراک کرکے بروقت عوامی طاقت کا مظاہرہ شروع کر دیا ہے. سینیٹر سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن لوگوں کو ایک مرتبہ پھر یہ باور کرانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں کہ مستقبل دینی جماعتوں کا ہے۔ البتہ مجھے ذاتی طور پر کچھ خدشات ہیں جن کی وجہ سے مجھے لگ رہا ہے کہ فاصلے ختم ہونے میں شاید اب بھی کچھ اور وقت لگ جائے۔
پہلا خدشہ تو یہی ہے کہ عالمی استعماری قوتوں نے پاکستان سے دینی تشخص ختم کرنے اور لبرلزم و سیکولرزم کو پروان چڑھانے کے لیے اچھی خاصی محنت کی ہے اور بےتحاشا پیسہ لگایا ہے، لہذا وہ اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے کہ کسی طرح دینی جماعتوں کا راستہ روکا جائے۔ اسی طرح کچھ نادیدہ طاقتیں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے ایک بند گلی میں داخل کرچکی ہیں لہذا وہ نہیں چاہیں گے کہ دینی جماعتوں کو کوئی نمایاں سیاسی کردار ملے کیونکہ دینی جماعتوں کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس ناسور پر قابو پاسکیں۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی۔ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں طرف ہارڈ لائنرز موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر روز وہ ایک دوسرے کو نئی نئی چوٹیں لگارہے ہیں۔ پھر یہی لوگ دونوں پارٹیوں کے مختلف عہدوں اور مشاورتی مجالس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہیں لہذا اس سوشل میڈیا کے کچھ لائکس، شیئرز اور واہ واہ کے لیے امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دوسری پارٹیوں خصوصاً ملحدین اور سیکولرسٹوں کی فیک آئی ڈیز بھی مکروہ کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ ہر دو فریق کو اس کا موجودہ اتحادی لالی پاپ دے کر اپنے ساتھ رکھ لے گا اور الیکشن تک چلانے کے بعد ایک عدد لات رسید کردے گا۔ پھر مل بیٹھنے کا وقت گزرچکا ہوگا اور یہ لوگ پرانی تنخواہ پر دوبارہ کسی اور شاہ کی وفاداری شروع کردیں گے۔
اس تناظر میں دینی جماعتوں کو بہت زیادہ احتیاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اگر دونوں جماعتوں نے حکمت اور دانائی سے کام لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ خیبرپختونخوا میں اگلی حکومت ان کی نہ آئے۔
تبصرہ لکھیے