ہمارے سماج میں افراد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر مختلف امور اور برتاؤ کے دوران شکایت کا موقع ملتا رہتا ہے. کچھ لوگ اس پر بھڑک اٹھتے ہیں. اور بعض لوگ اس کا مثبت اور تعمیری حل ڈھونڈ نکالتے ہیں. المیہ ہے کہ جسے غلطی کو درست کرنا ہوتا ہے. ہم اپنا ردعمل اس تک پہنچاتے ہی نہیں. ان سطروں میں میری گذارش ہے کہ با شعور افراد جس رویے سے تکلیف پہنچے یا اذیت ملے. اس موقع پر اپنی شکایت متعلقہ افراد تک ضرور پہنچائیں. تاکہ اصلاح احوال کی کوشش جاری رہے. اس کے ثمرات و فوائد درج ذیل واقعات سے آپ خود دیکھ سکتے ہیں.
..................................................
چند روز پہلے کی ایک شام اپنی فیملی کے ساتھ ڈنر کے لیے شہر کے معروف ریسٹورنٹ میں جانا ہوا. کھانا کھانے کے بعد جب ویٹر بل لیکر آیا،تو بل زائد آئیٹمز کا تھا. جو ہم نے کھائی ہی نہیں تھیں. میں کاونٹر پر گیا،منیجر سے بات کی. وہ کہنے لگا، ”سر! یہ پہلی شکایت ہے. ہمارے ہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا. غلطی سے زائد بل بن گیا ہے. اس سے میں نے شکایت بک کا پوچھا تو وہ سر سے مجود ہی نہ تھی. ویٹر ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں کہنے لگا. سر! مہمان بل کا آڈٹ کرتے ہی نہیں. بس ٹوٹل دیکھتے ہیں اور پے منٹ کر جاتے ہیں.“
..................................................
ریل گاڑی ملتان سٹیشن پر دیر سے پہنچی تھی. میں نے شکایت درج کروانا چاہی تو پتہ چلا کہ شکایت رجسٹر ٹرین کے ڈرائیور کے پاس رکھا ہوتا ہے. میں ڈرائیور کے پاس پہنچا تو اس نے ٹال مٹول سے کام لیا. آخر کچھ دیر منتوں کے بعد جب اس نے رجسٹر دیا تو اس شکایت رجسٹر میں اس سے پہلے کسی قسم کی کوئی کمپلین درج ہی نہ تھی. جیسے کبھی کسی کو شکایت کا موقع ہی نہ ملا ہو. ڈرائیور نے مجھے کہا تھا. ”میری بیس سالہ سروس میں پہلی بار کوئی شکایت درج کرانے آیا ہے.“
..................................................
میں نے اپنی بائیک میں 10 لٹر پیٹرول ڈلوایا جس کی مالیت 645 روپے بنتی تھی. میں نے تیل ڈالنے والے لڑکے کو 700 روپے دیے تو اس نے مجھے 50 روپے واپس کر دیے. میں نے باقی 5 روپے طلب کیے تو لڑکا بولا. ”بھائی !کھلے پیسے نہیں ہیں.“
میں پمپ کے منیجر کے پاس شکایت کرنے گیا تو مینیجر اپنی سیٹ پر نہ تھا. میرے کھڑے کھڑے کئی لوگ ریزگاری نہ ہونے کی وجہ سے اپنے چھوٹے بچنے والے پیسے چھوڑ کر جاتے رہے. بیس پچیس منٹ کے انتظار کے بعد منیجر آیا اور میری شکایت درج ہوئی اور اس کے نتیجے میں دفتر میں پہلے سے موجود کھلے پیسوں کا ایک تھیلہ نکالا گیا. اور اسی وقت ہی پمپ کے تمام یونٹس پر کھڑے لڑکوں کو کھلے پیسے دے دیے گئے.
..................................................
زیادہ پرانی بات نہیں کہ ایک روز میں بنک میں اپنے اکاؤنٹ رقم جمع کروانے گیا تو بنک میں گھپ اندھیرا تھا. کیشیئر نے بتایا کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رقم جمع نہیں ہو سکتی. میں نے پوچھا کہ جنریٹر کہاں گیا؟. وہ بولا، خواجہ صاحب! جنریٹر تو ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کوٹے میں بہت تھوڑا پیٹرول ملتا ہے. جو بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے. اس وقت بنک میں رش بہت تھا، مگر منیجر صاحب بنک میں موجود نہ تھے. میں نے اپنے اے ٹی ایم کارڈ پر درج شکایت نمبر پر کمپلین درج کروائی. اگلے آدھے گھنٹے میں بنک میں پیٹرول بھی آ گیا اور بنک کا غائب منیجر بھی بڑی سرعت کے ساتھ داخل ہوا. دو روز بعد منیجر کا فون آیا تو اس نے بتایا کہ ہیڈ آفس نے میری شکایت ہی کے نتیجے میں ان کی برانچ کا پیٹرول کوٹہ بڑھا دیا ہے.
..................................................
پچھلے ہفتے میں اپنے بیٹے کو سکول چھوڑنے گیا تو سکول کا داخلی دروازہ بند تھا. کئی بچے دیر سے سکول پہنچنے تھے. اسی وجہ سے وہ سارے گیٹ کے باہر سزا کے طور پر کھڑے تھے. سبھی بچے اور والدین گیٹ کیپر کی منت سماجت کر رہے تھے. کہ آئندہ وہ جلدی وقت پر پہنچیں گے. مگر وہ دروازہ کھولنے پر تیار و آمادہ نہ ہو رہا تھا. افسوس تو ہوا کہ پرنسپل صاحب ابھی تک سکول نہیں آئے تھے. میں نے انہیں فون ملایا اور گیٹ نہ کھلنے کی شکایت کین تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کی طرف سے گیٹ بند کرنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں ہوئی تھی. یہ چوکیدار کی اپنی کارستانی تھی. پرنسپل کو فون کرنے کے تین چار منٹ کے بعد سکول کا داخلی دروازہ طلباء کے لیے کھول دیا گیا. چوکیدار کو ڈانٹ پڑی. میری تجویز پر پرنسپل صاحب نے ایک شکایت رجسٹر بھی سکول میں رکھ دیا.
تبصرہ لکھیے