ہوم << الصلح خیر-ہارون الرشید

الصلح خیر-ہارون الرشید

m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ بالکل بجا‘ مگر مسلسل خطا‘ مسلسل نسیان؟
نفرت جاگتی ہے تو عقل کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔ نمک کی کان میں‘ جیسے سب کچھ نمک‘ رفتہ رفتہ بس نفرت ہی رہ جاتی ہے۔ اس آگ میں سبھی کچھ راکھ ہوتا جاتا ہے۔
زبیر عمر جب چارج شیٹ پڑھ کر سنا رہے تھے تو خیال آیا کہ کیا وہ مضمرات سے واقف ہیں؟ وہی کیا، نون لیگ کے اخبار نویس بھی ادراک نہیں کر رہے کہ ان کے تحریروں سے خسارہ انہی کی پارٹی کو ہو رہا ہے۔ آتش زنی حکومت کے مفاد میں کبھی نہیں ہوتی۔آدمی کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ خود کو یکسر وہ جذبات کے حوالے کر دے یا مفاد کے۔ غوروفکر سے دستبردار ہو اور طوفانی پانیوں میں بہتا چلا جائے۔ خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ طلال چوہدری اور پاکستان کی تاریخ کے شاید سب سے زیادہ متحمل مزاج سیاستدان‘ چوہدری انور عزیز کے فرزند ارجمند۔ دوسری طرف بھی عالم یہی ہے۔
آدمی پر آدمی کا بس نہیں چلتا۔ استدعا ہی کی جا سکتی ہے کہ'' جنون ‘‘کا لفظ نہ برتنا چاہیے۔ ''سونامی‘ ‘تباہی کااستعارہ ہے اور ہولناک تباہی کا۔ ملک کو تعمیر کی ضرورت ہے‘ تخریب کی نہیں۔مشکل یہ ہے کہ ایسے میں خان صاحب اپنی بات پہ اڑ جاتے ہیں اور ارشاد کرتے ہیں : تم نہیں جانتے۔
کچھ چیزیں یقینا وہ زیادہ جانتے ہیں‘ مثلاً یہ ایک شاندار عمارت کیسے بنتی ہے‘ جیسا کہ شوکت خانم کی۔جیسا کہ نمل یونیورسٹی کی۔ ایک ہسپتال جلال و جمال کے ساتھ کیونکر بروئے کار آتا ہے۔ ایک جامعہ کیوں کر فروغ پاتی ہے۔
خدانخواستہ جتلانے کی غرض سے نہیں‘ صرف وضاحت کے لیے واقعہ عرض کرتا ہوں۔ بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ایک عام سے آدمی نے ان سے گزارش کی کہ ایسا نہ کیجئے۔ نمل کے اساتذہ کو تربیت درکار ہو گی۔ جواب ملا : وقت نہیں میرے پاس۔ درخواست کی کہ یونیورسٹی والوں سے پوچھ تو لیجئے‘ کتنے دن درکار ہونگے، بچوں سے ملنے لندن تو آپ جایا ہی کرتے ہیں۔ ''کتنے دن...؟‘‘ انہوں نے کہا : سال میں ایک دن۔
پروفیسر ایلیسن کا تلّفظ ہی ان کی نسل کا پتہ دیتا‘ وگرنہ وہ پشاور‘ لاہور یا ملتان کے کسی نجیب خاندان کی دکھائی دیتیں‘ سرتاپا استاد ۔لہجے میں حلاوت اور ٹھہرائو‘ انس اور الفت جیسی پوتے پوتیوں میں دادی اماں ۔ پوچھا : پروفیسر صاحبہ! نمل یونیورسٹی کے طلبہ کا معیار کیسا ہے۔ افتخار سے لبریز لہجے میں کہا : لندن کے شاگردوں سے بہتر، بہت ہی بہتر ۔ عرض کیا : انگریزی میں شاید کمتر ہوں۔ بولیں : بالکل نہیں۔ جی شاد ہو گیا‘ اور اس پر اور بھی کہ زیادہ تر اساتذہ لندن سے آئے تھے۔ ان میں ایک تو تھا ہی پاکستانی۔ سمندر پار منصوبوں کی نگران سے معلوم ہوا کہ دساور کے تعلیمی ادارے جب جامعہ سے الحاق کرتے ہیں تو کچھ فیس انہیں ادا کرنا ہوتی ہے۔ نمل یونیورسٹی سے مگر معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ چانسلر صاحب کی اپنی ہے‘ پھر یہ کہ طلبہ سے چونکہ فیس نہیں لی جاتی؛ چنانچہ برعکس فیصلہ بدذوقی کا مظہر ہوتا۔
عام آدمی کی بات سنی گئی تو بہتوں کا بھلا ہوا۔ ارشاد یہ ہے : مالک نے اپنے بندوں کو ماتھے سے تھام رکھا ہے۔ فرشتے نازل کرنے کی اسے ضرورت نہیں ۔ خیال سے وہ حکمرانی فرماتا ہے۔ کوئی تصور‘ کسی بھی ذہن میں پھوٹ سکتا ہے اور برگ وبارلاسکتا ہے۔ سیالکوٹ کے جلیل القدر فرزند نے ایک دن کہا تھا : ہندوستان کے مشرق و مغرب میں دو مسلمان ممالک۔ ایک عشرے تک محض یہ ایک خیال ہی تھا۔ ایک دن قرارداد ہو گیا۔ پھر تحریک‘ آخر کو معجزہ برپا ہوا۔ اب تک بعض کو جس کی بنیادوں کا ادراک نہیں۔ شام ڈھلتی ہے اور قمقمے روشن ہوتے ہیں تو سرگوشیوں میں وہ کہتے ہیں : یہ ملک باقی نہ رہے گا۔ کچھ ملًا اور کچھ ملحد۔
ملًا اور ملحد کو الگ رکھیئے۔ 1996ء کے موسم خزاں میں ملک معراج خالد ایسے بھلے مانس نے کہہ دیا تھا، 2012ء میں پاکستان شاید کرہّ ارض پہ دکھائی نہ دے۔ اس وقت جب وزارت عظمیٰ کے منصب پر وہ فائز تھے۔ سانحہ 1971ء کے بعد جناب ممتاز دولتانہ نے اپنے ہم نفس شوکت حیات سے کہہ دیا تھا : اب نہیں بچے گا۔ خود بھاگ کر لندن چلے گئے اور دوسروں کو بھی یہی کچھ سمجھاتے رہے۔ ایک لحاظ سے فرمان ان کا بجا تھا کہ فیصلہ یہی تھا‘ انگریزوں کا اور امریکیوں کا یا کم از کم تجزیہ۔ اسی لندن میں ایک ادارہ ہے‘ ''Institute of Strategic Studies‘‘ 1980ء میں ایک مطالعہ ان کا بھی تھا۔ جب بھی پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا‘ قوم متحد ہو جائے گی۔
خارج سے پاکستان کو زیادہ خطرہ نہیں۔ باطن سے بہت سارے۔ سب سے بڑھ کر داخلی انتشار اور اس سے پیدا ہونے والی بے یقینی۔ سرمایہ اور ذہانت ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ جو باقی بچتا ہے‘ وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ عجیب ملک ہے، چودہ برس تک ایک آدمی گورنررہ چکا تو معلوم ہوا کہ ایک دوسرے ملک کا بھی وہ شہری ہے ۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے کالم نگار اور الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشادکا کہنا ہے کہ برطرفی ہو کر رہے گی۔ تین سال قید بھی۔ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
عجیب ملک ہے‘ وزیراعظم کا کاروبار بیرون ملک ہے‘ اولاد کا بھی۔ وزیر خزانہ کا، ان کے فرزند ارجمند کا‘ اپوزیشن لیڈر کابھی۔ جتنی جائیداد پاکستان میں خریدی جاتی ہے‘ اس سے کچھ کم دبئی میں۔ اس ریگ زار میں رکھا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک لفظ میں ہے...امن! اور سب جانتے ہیں کہ امن قانون کے نفاذ کا نام ہے۔
دھاگہ الجھتا تو عمر فاروق اعظمؓ گاہے یہ سوال کرتے : شاہانِ عجم ایسے میں کیا کرتے ہیں؟ سات عشرے ہم نے رائیگاں کر دیئے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ کوئی قرینہ تلاش کیا جائے۔ مثلاً جو فیصلہ جنوبی افریقہ نے کیا تھا "Truth and reconciliation" ماضی کی غلطیاں سبھی کی معاف کر دی جائیں۔ اگر وہ اعتراف کر لیں اور سب کچھ بتا دیں۔ صرف میاں محمد نوازشریف اور عمران خان کی نہیں‘ آصف علی زرداری اور اسحقٰ ڈار سمیت سب کی۔ اے این پی والوں کی‘ اچکزئی کی‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ لاہور‘ پشاور اور اسلام آباد کے ہر سیاست کار کی۔ اگر وہ مان لے‘ اگر وہ توبہ کا اعلان کر دے۔ انتقام میں کیا رکھا ہے؟ فرمایا : ''الصلح خیر‘‘ صلح میں بھلائی ہوتی ہے۔
لازم نہیں انتقام کی آگ ہدف کو جلا سکے ۔ منتقم کو لازماً جلا دیتی ہے۔ عدالتوں میں جا کر دیکھیے۔ بغض و عناد نے لاکھوں ‘ کروڑوں خانوادوں کو برباد کر رکھا ہے۔
استثنیٰ نہیں‘ اصول تھا‘ فتح مکّہ کے دن سرکارؐ نے جس پر عمل کیا تھا : لاتثریب علیکم الیوم۔ آج کے دن تم سے کوئی بازپرس نہیں۔ اک چراغ‘ اور چراغ‘ اور چراغ اور چراغ‘ حتیٰ کہ بستیاں نور سے بھر گئیں۔ کوہ ودمن میں اللہ کا نام گونجنے لگا۔
سعودی عرب نے جس دن اعلان کیا کہ ایران عراق جنگ میں جتنا نقصان عجم والوں کا ہوا ہے‘ اس کی تلافی کر دی جائے گی‘ امام خمینی کو انہیں معاف کر دینا چاہیے تھا۔غلطی جن کی تھی‘ انہوں نے اعتراف کر لیا تھا۔ 1500 ارب ڈالر کا نقصان دونوں ملکوں کا ہو چکا تھا۔ اندازہ ہے کہ لگ بھگ 500 ارب ڈالر کا اس کے بعد ہوا۔
انقلاب ایک محبوب لفظ ہے‘ دوسروں کے علاوہ کپتان کا بھی۔ انقلاب سے خیر کی فصل کبھی نہیں اگی۔ فرانس میں‘ روس میں‘ چین میں‘ ایران میں ؎
زلزلے ہیں‘ بجلیاں ہیں‘ قحط ہیں‘ آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں
ایثار...ہدایت کے لیے، روشنی کے لیے کتاب الٰہی کی پہلی شرط یہی ہے‘ ایمان اور نماز کے ساتھ۔ پھر یہ بھی کہ تم کماتے نہیں ‘ تمہیں دیا جاتا ہے۔ معاف کر دینا بھی ایثار ہے۔ کبھی تو ایک نئی زندگی کا آغاز بھی۔
فرمایا : طاقتور کون ہے۔ عرض کیا گیا‘ پچھاڑ دینے والا پہلوان یارسول اللہﷺ۔ ارشاد کیا : بلکہ اپنا غصّہ ضبط کرنے والا ۔
آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ بالکل بجا‘ مگر مسلسل خطا‘ مسلسل نسیان؟

Comments

Click here to post a comment