اپنی چون سالہ زندگی میں تین نعرے مسلسل میرا پیچھا کر رہے ہیں اور شائد تا زندگی کرتے رہیں۔
( اول ) یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو
اس نعرے کے پیچھے غالباً فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کا جذبہ کارفرما ہے۔جب بھی فلسطینیوں پر کوئی نیا ظلم ہوتا ہے تو میرا بھی جی چاہتا ہے کہ ساختہ اسرائیل اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے۔مگر یہودی مصنوعات سے کیا مراد ہے، یہ آج تک پلے نہیں پڑا۔ نہ ہی کسی بائیکاٹ نواز دوست نے کبھی وہ فہرست فراہم کی جس میں وضاحت ہو کہ کون سی مصنوعات یہودی ہیں۔گر مراد ان کمپنیوں سے ہے جن کے مالکان یا منتظم یا کارکن یہودی ہیں تو پھر تو گھر میں صرف چادر ، تکئیہ اور چارپائی ہی بچے گی کیونکہ فریج ، واشنگ مشین ، فرنیچر ، کپڑے ، بیڈنگ ، پلاسٹک کے برتن ، بچوں کا دودھ ، کارن فلیکس ، بریڈ ، مرتبان ، درسی و غیر درسی کتابیں ، قلم ، پنسل ، عینک ، گھڑی ، جوتا ، کموڈ ، انڈر وئیر ، مشروب ، مسلم شاور ، طبی آلات ، لیبارٹری کا سامان ، کار ، ٹرک ، بلڈوزر ، لاؤڈ اسپیکر ، دھرنے کے کام آنے والا کنٹینر ، غرضروزمرہ استعمال کی کسی بھی ہلکی بھاری ، مہنگی سستی شے کا شجرہ نکال لیجیے۔
موجد ، کمپنی ، ڈسٹری بیوٹر ، سپلائر ، کنٹریکٹر کوئی نہ کوئی یہودی ضرور ہوگا۔میڈ ان چائنا کے دھوکے میں مت آئیے گا۔ چین تو وہ سب سے بڑا عالمی کارخانہ ہے جہاں ہر کمپنی کے لیے اشیا تیار ہو رہی ہیں۔ لہذا آیندہ جو شخص یا تنظیم یہودی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چلائے اس سے یہ ضمیمہ بھی طلب فرماویں کہ کونسی اشیا یہودی نہیں ہیں تاکہ بائیکاٹ موثر ہو۔آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کے دوران لاکھوں ایرانی رضاکاروں کو محاذ پر جانے سے پہلے پلاسٹک کی سرخ بہشتی چابیاں بانٹی جاتی تھیں۔بعد میں پتہ چلا کہ ان چابیوں کو بنانے کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا گیا وہ ایک اسرائیلی کمپنی کی سب سیڈری تھی۔ ایف سولہ طیاروں کے کچھ کمپونینٹس بھی اسرائیلی سب کنٹریکٹرز بناتے ہیں۔کہاں تک چھپو گے کہاں تک چھپاؤں…
البتہ ان اشیا کا بائیکاٹ کسی حد تک قابلِ عمل ضرور ہے جن پر میڈ ان اسرائیل لکھا ہو۔لیکن اسرائیلی کمپنیاں بہت سی اشیا غربِ اردن میں فلسطینی سب کنٹریکٹرز اور کارکنوں سے بھی تیار کرواتی ہیں۔لہذا بائیکاٹ سے قبل یہ چھان بین ضروری ہے کہ کہیں جوش میں فلسطینی روزگار بھی لپیٹ میں نہ آجائے۔بائیکاٹ سے بھی اچھا تو یہ ہے کہ آپ خود ایسی معیاری مصنوعات بنائیے کہ بیرونی اشیا پر کم از کم تکیہ ہو۔ پر یہ ایک محنت طلب کام ہے اور محنت سے ہمیں کیا کام ؟
( دوم ) فحاشی و عریانی وبے راہروی بند کرو۔
یہ نعرہ پچھلے ستر برس سے پاکستان کے ہر قصبے یا گاؤں کی کسی نہ کسی دیوار پر ضرور لکھا گیا اور آج ستر برس بعد بھی حیات ہے۔اکثر دیواروں پر اس نعرے کے برابر کسی حکیم صاحب کا اشتہار بھی نوشتہِ دیوار ہوتا ہے جس میں بچپن کی غلط کاریوں سے پریشان اور شادی کی دھلیز پر کھڑے خوفزدہ پیلے نوجوانوں کو فوری علاج کے لیے درجِ ذیل نمبروں پر فوری رابطے کا دھمکی آمیز مشورہ دیا جاتا ہے۔
فحاشی و عریانی و بے راہروی سے کیا مراد ہے ؟ پچاس کی دہائی میں اس سے مراد اپوا زدہ ، مغرب زدہ فیشن ایبل خواتین کے بلا آستین بازو اور بے پردگی تھی۔ساٹھ کی دہائی میں نائٹ کلبس ، شراب اور بازارِ حسن بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے۔ستر کی دہائی میں ٹی وی نشریات کا اضافہ ہوگیا ، اسی کی دہائی میں وی سی آر بند کرو کا نعرہ بھی فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کا حصہ بن گیا۔نوے کی دہائی میں عورت کی حکمرانی شامل ہوگئی اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اس نعرے کا مطلب ہے اشتہارات میں عورت کا استعمال ترک ڈرامے اور یو ٹیوب وغیرہ وغیرہ۔کوئی بتائے گا کہ اب فحاشی و عریانی و بے راہروی کی اگلی تشریح کیا ہو گی ؟
( سوم ) بھارتی ثقافتی یلغار روکو
یہ نعرہ بھی ہمارے بچپن کی نشانیوں میں شامل ہے اور ہر چند برس بعد عرق النسا کے درد کی طرح اٹھتا اور تھم جاتا ہے۔ سن پچاس کے عشرے میں پاکستانی فلمی صنعت کے ناکام کاروباریوں نے مقامی فلمی صنعت کے تحفظ کے نام پر بمبئیا فلموں کی درآمد پر پابندی کے لیے ’’ جال تحریک’’ چلائی تاہم ناظرین نے زیادہ گھاس نہیں ڈالی۔ پینسٹھ کی جنگ تک بھارتی فلموں سے کوئی نظریاتی و اخلاقی خطرہ نہیں تھا۔مگر جنگ ہوتے ہی فلم بھی دشمن کا ہتھیار ہوگئی اور اکہتر کی شکست کے بعد تو یہ پکی پکی بھارتی ثقافتی سازش ہوگئی۔
مگر عوام نے اس بھارتی ثقافتی سازش کو یوں ناکام بنایا کہ امرتسر ٹی وی اسٹیشن سے نشر ہونے والی فلم پاکیزہ دیکھنے کے لیے اہلِ لاہور نے بلیک میں ٹی وی انٹینے خریدے۔پھر دوبئی سے پاکستانی کارکن چھٹیوں پر گھر لوٹنے لگے تو بیگیج میں وی سی آر بھی آنے لگا جسے کسٹم والا ’’مالی منت سماجت ’’ کے عوض چھوڑ دیتا۔اس وی سی آر پر آپ ہالی وڈ کی کوئی بھی ایمان شکن یا اسکنڈے نیویا سے براستہ افغانستان اسمگل شدہ ’’ نیلی فلم ’’ دیکھ سکتے تھے مگر اسی وی سی آر پہ کوئی بھی بھارتی فلم دیکھنا قابلِ تعزیر جرم قرار پایا۔پھر بھی شعلے کا گبر سنگھ جانے کیسے پاکستانی گھروں میں گھس آیا۔بچہ بچہ گلیوں میں چیختا پھرتا ’’کتنے آدمی تھے ’’ ؟ سرکار دو…
جنرل ضیا الحق چونکہ سیاست کو ثقافتی یلغار سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے لہذا انھوں نے نوجوانوں کو فحش سیاسی خیالات سے بچانے کے لیے وڈیو شاپس اور ان میں بھارتی فلمی وڈیو کیسٹس رکھنے کی غیر اعلانیہ اجازت دے دی۔تاکہ لوگ آمریت مردہ باد کے بجائے ’’ میرے پاس گاڑی ہے بنگلہ ہے بینک بیلنس ہے تمہارے پاس کیا ہے؟ میرے پاس ماں ہے ’’ کرتے پھریں۔ ضیا دور میں فلم تاج محل کی امپورٹ اور نمائش سے کم ازکم یہ تو طے ہوگیا کہ اب بھارتی ثقافتی یلغار کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
نوے کی دہائی میں جب انٹر نیٹ پیدا ہوا تو فلم بینی بھی وڈیو کیسٹ کی قید سے آزاد ہوگئی۔وی سی آر کی جگہ ڈی وی ڈی نے لے لی۔بے شمار دوکانیں کھل گئیں۔ اگلے آمر جنرل پرویز مشرف نے سوچا کہ جب عوام ہی حب الوطن نہیں آ رہے تو حکومت کیوں گھاٹے میں رہے لہذا ٹیکس کی آمدنی بڑھانے کے لیے بھارتی فلموں کی درآمد کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی۔حالانکہ کرگل کی جنگ کا زخم تازہ تازہ تھا مگر فلمی تجارت کو اس سے الگ رکھا گیا۔
پاکستانی فنکاروں کی بھارت آمدو رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔دو ہزار سات میں بھارتی فلموں کے سبب ہی نئے پاکستانی سینما کی کونپلیں پھوٹنی شروع ہوئیں۔آج پاکستانی سینما ہاؤسز کی تہتر فیصد آمدنی بھارتی فلموں کی نمائش سے جڑی ہے اور حکومت بھی تفریح ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کماتی ہے۔پیمرا نے پاکستانی ٹی وی اور ایف ایم چینلز کو دس فیصد غیرملکی مواد دکھانے کی اجازت دے رکھی ہے۔اس میں سے چھ فیصد بھارتی مواد بھی شامل ہے۔
تاہم اوڑی کے واقعے کے بعد کچھ بھارتی گروہوں کی جانب سے پاکستان کے فنکارانہ و فلمی بائیکاٹ کے ردِ عمل میں بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش روک دی گئی اور پیمرا نے چینلوں کو بھی بھارتی مواد دکھانے سے روک دیا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ دو طرفہ اقدامات ہمیشہ کی طرح آج بھی ثقافتی سے زیادہ سیاسی ردِعمل کے دائرے میں آتے ہیں۔ لہذا خاطر جمع رکھئے۔یہ آنکھ مچولی چلتی رہے گی۔ بچگانہ لڑائیوں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔صبح کو کٹی ، دوپہر کو دوستی شام کو پھر کٹی۔بچے تو سدھرنے سے رہے۔ بچے تو بچے ہیں۔ویسے بھی ،
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے (جون ایلیا)
تبصرہ لکھیے