جون کے گرم دن ہیں، بے نظیر بھٹو اپنی حکومت کا آخری ثابت ہونے والا بجٹ پیش کرتی ہیں، مسٹر زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور ہیں، زبان زد عام ہے کہ آبدوزوں سے لے کر جنگلات تک کچھ بھی زرداری صاحب کی کرپشن سے نہیں بچ پا رہا، سناٹے کا عالم ہے، نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہڑتال کی کال دے کر کارکنان کو استعمال کر کے منظر سے غائب رہتے ہیں۔ ایسے میں پہلی مرتبہ دھرنے کا لفظ سننے کو ملتا ہے، اس حال میں کہ جماعت اسلامی کا اسلامک فرنٹ پاکستان بھر میں شکست سے دوچار ہو چکا تھا، دھاندلی کے الزامات اس وقت بھی تھے، لیکن جس کو اپنا کام کرنا ہو وہ کرتا ہے، اٹھاون سالہ عمر رسیدہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے کارکنان کو اسلام آباد میں دھرنے کی کال دیتا ہے، دھاندلی اور شکست کے بعد زخم کھائے کارکنان اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، اور پھر دنیا منظر دیکھتی ہے کہ اس قاضی حسین احمد کو راولپنڈی پولیس مری روڈ پر تشدد کا نشانہ بناتی ہے، کارکنان قاضی حسین احمد کے آگے ڈھال بن جاتے ہیں، اٹھاون سالہ قاضی حسین احمد کارکنان سے پہلے پولیس کی لاٹھیوں کی زد میں ہے، سفید ریش بابا جی کی ٹوپی اتر چکی ہے، صوبائی اسمبلی میں جماعت سلامی کا پارلیمانی لیڈر چوہدری اصغر علی گجر سر پر گولی لگنے سے زخمی ہے، چار لوگ پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہو چکے ہیں اور پھر دنیا یہ منظر بھی دیکھتی ہے کہ وہ قاضی اکیلا اس محاذ پر ڈٹا ہوا ہے، پورے پاکستان میں وہ ایک ایک کونے میں اپنی تحریک کو پھیلا دیتا ہے، اپنی آنکھوں سے منظر دیکھا کہ وہ نواز شریف جو ہڑتال کی کال دے کر بیرون ملک چلا جاتا تھا، قاضی حسین احمد کی تحریک میں خود شمولیت کا اعلان کرتا ہے. میں نے نون لیگ کے ایم پی ایز کو قاضی حسین احمد کے گھٹنے کو ہاتھ لگاتے دیکھا، لیکن جماعت کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی، اور نہ ہی کسی کو تحریک میں شامل ہونے کے لیے منتیں کرتی ہے، تحریک روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے اور اس میدان اب بھی قاضی بابا تنہا ہے۔
ایک اور دھرنے کی کال دی جاتی ہے، اسمبلی میں تین ممبران کی اقلیت کے باوجود جماعت سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھرتی ہے۔اب اکتوبر کے ٹھندے دن ہیں، اسلام آباد کا ماحول گرم ہے، کسی کے سامنے بھیک نہیں مانگی جاتی کہ ہمارے دھرنے میں شریک ہوں، کسی پارٹی کے دفتر کا طواف کوئی لیاقت بلوچ نہیں کرتے، کسی نواز شریف کے در پر منور حسن حاضری نہیں دیتے، کسی طاہر القادری کا پیچھا کرنے کے لیے اس وقت جیل سے تازہ تازہ رہا ہونے والے شیخ رشید کی منتیں نہیں کی جاتیں، قاضی حسین احمد کو سولو فلائٹ کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن دھرنا کی تیاریاں جاری ہیں، اکتوبر کے یہی دن تھے جب قاضی حسین احمد ایک بار پھر اسلام آباد کے لیے نکلے تھے، لیکن اس بارحکومت کی طرف سے ملک بھر کی ٹرینیں بند کر دی گئیں تھیں، ائیر پورٹس سے فلائٹس آپریشن روک دیے گئے تھے، اور ہائی ویز پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں۔ لوگوں کو ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے اپنے شہروں میں گرفتار کر لیا جاتا ہے، جماعت اسلامی لاہور کے امیر لیاقت بلوچ کو مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں پولیس گھسیٹ کر قیدیوں کی وین میں ڈالتی ہے۔
قاضی حسین احمد معلوم نہیں کب اسلام آباد پہنچ چکے تھے، لیکن کسی بھی مرحلے پر حکومت سے نہ ہی کسی اور سے بھیک مانگی، ان تمام پابندیوں کے باوجود اچانک قاضی صاحب تن تنہا خلاف معمول براؤن رنگ کے کپڑے اور سر پر جناح کیپ کی بجائے گول چترالی ٹوپی پہنے برآمد ہوئے، سڑکوں پر سناٹا تھا، کرفیو کا سماں تھا، لیکن قاضی صاحب کے مری روڈ پر نکلتے ہی بلاشبہ ہزاروں لوگ لیڈر کے پیچھے تھے، پولیس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس کرفیو میں بھی لوگ اس طرح دیوانہ وار نکلیں گے، نکلتے بھی کیوں نا، لیڈر نے پہل کی تھی، آج پولیس میں بھی ہمت نہیں تھی کہ اس معمر سفید ریش ”نوجوان“ کو روک پائے، اسی اثنا میں شاہ احمد نورانی، اور کچھ ہی لمحوں بعد اعجاز الحق قاضی حسین احمد کے ساتھ ٹرک پر موجود تھے، فیض آباد پر شدید شیلنگ تھی اور شیل بھی امپورٹ کیے گئے تھے، اس شدید شیلنگ میں نوجوان اعجازالحق بےہوش ہو چکا تھا، لیکن ٹرک کی چھت پر قائد قاضی حسین احمد ڈٹ کر کھڑا تھا۔ سارا دن گزر گیا کہ کسی طرح فیض آباد پار کر کے اسلام آباد میں داخل ہو جائیں لیکن بڑے بڑے کنٹینر، خاردار تاروں اور پولیس کی بھاری موجودگی میں یہ ناممکن دکھائی دے رہا تھا، پولیس قاضی حسین احمد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی، سورج ڈھلتے ہی قاضی صاحب نے کارکنان سے کہا کہ وہ اسلام آباد میں پہنچنے کی کوشش کریں اور رات کسی بھی جگہ گزاریں، دھرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے سامنے ہوگا، جب تک ہم پارلیمنٹ نہیں پہنچ جاتے تب تک واپسی نہیں ہوگی، اس سخت جدوجہد کے دن بھی کسی نواز شریف، کسی شیخ رشید، کسی چوہدری شجاعت، کسی طاہر القادری کو مدد کے لیے نہیں پکارا گیا۔ بہرحال تین دن کی شیلنگ، پولیس تشدد، گرفتاریوں کے باوجود ایک بڑا قافلہ سید منور حسن کی قیادت میں 30 اکتوبر 1996ء کو پارلیمنٹ کے سامنے سجدہ ریز تھا، اور 4 نومبر 1996 کو بےنظیر بھٹو وزیراعظم نہیں تھیں۔
یہ سب باتیں اکتوبر کے ان دنوں میں اس لیے یاد آ گئیں کہ آج بیس سال بعد ایک بار پھر اسلام آباد بند کرنے کی بات ہو رہی ہے، جو دو سال پہلے ناکام و نا مراد لوٹے تھے، آج پھر قوم کو ڈگڈگی کے گرد اکٹھا کرنا چاہ رہے ہیں۔
حضور کیسا دھرنا؟ حضور کیسے بلاک کرنے کے دعوے؟ حالت یہ ہے کہ اپنے اوپر بھروسہ نہیں اور در در پر لوگوں سے شرکت کی اپیل، کبھی قادری صاحب سے ملنے کے لیے لندن یاترا، کبھی شیخ رشید کے در پر، کبھی پرویز الہٰی کے آگے پیچھے، کبھی جماعت اسلامی کی منتیں، کبھی پیپلز پارٹی کے سامنے سجدہ ریز۔ اور جو آپ کا ساتھ نہ دے وہ نواز شریف کا حامی کہلوائے، جناب جماعت اسلامی یہ سب کام تب کر چکی تھی جب آپ کی پارٹی ابھی جھولے میں وارد نہیں ہوئی تھی۔
حضور والا! لیڈر شپ یہ نہیں ہوا کرتی، لیڈر تو آگے بڑھتا ہے، یہاں تولیڈر صاحب بنی گالہ یا زمان پارک سے نکلتا ہی تب ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں، پھر حکومت گرانے کی باتیں، پھر سے ایک بار انگلی اٹھنے کی بات۔
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟
حضور والا! ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر پر بیٹھ کر، اور گانے کی دھن پر لوگوں کا ہجوم تو اکٹھا کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے کوئی با مقصد کام نہیں لیا جا سکتا، کبھی کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل کر کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی، کون نہیں جانتا جہانگیر ترین کی غریبی کی داستان، کون واقف نہیں شاہ محمود قریشی کے بوریا نشین ہونے سے، کون نہیں جانتا آپ کے ساتھ لگے لوگوں کے ماضی کو، جانے دیجیے، قوم پہلے بہت دھوکے کھا چکی ہے، اب اس قوم پر رحم کیجیے۔ اب اگر دھوکا ہوا تو سب کی ذمہ داری آپ پر ہوگی خان صاحب۔ مجھے خطرہ ہے کہ نوجوانوں کو امید دینے والا عمران خان کہیں اصغر خان نہ بن جائے۔
تبصرہ لکھیے