ہوم << قیادت کی صفات - پروفیسر جمیل چوہدری

قیادت کی صفات - پروفیسر جمیل چوہدری

جمیل چوہدری دانا لوگ فرماتے ہیں کہ ایک سیاستدان میں کم از کم5 خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔
ایمانداری پہلی اوربنیادی شرط ہے۔ اسی صفت سے قوم کے لوگوں میں اعتماد قائم ہوتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں قومی لیڈر کی عزت و حترام میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوسری اہم صفت دردمندی ہے۔ وہ قوم کے مسائل کو جانے اور اسے حل کرنے کی کوشش کرے۔ جاننے کے بعد مسائل کو عقل وخرد سے حل کرنے کی بھر پور کوشش اسی صفت کاحصہ ہے۔
اخلاقی بلندی کو آپ تیسری بنیادی خوبی کہہ سکتے ہیں۔ہر انسان اپنی اخلاقیات سے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔اور جہاں تک قومی سیاستدانوں کاتعلق ہے۔ ان کے لئے بلند اخلاق ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں لیڈروں کے اخلاق پرلوگوں کی نظریں ہیں۔عوام چاہے جتنا بھی گھٹیا اخلاق کا مظاہرہ کرلیں لیکن وہ اپنے سیاسی لیڈروں سے بلند اخلاقی کی توقع ضرور رکھتے ہیں۔
چوتھی ضروری صفت اعتماد ویقین ہے۔ جب وہ قوم کے مسائل جان لے تواسے ان مسائل کے حل کے طریقوں پر یقین ہو اور انہیں حل کرنے کے لئے صحیح سمت میں اعتماد سے قدم اٹھاتا چلا جائے۔غور وحوض اور پلاننگ مسلے کے حل کی کوششیں شروع کرنے سے پہلے ہوں۔
پانچویں صفت رویے میں لچکداری کا ہونا ہے۔ دوسروں کی بات سنے اور تنقید بھی برداشت کرے۔دوسری پارٹیوں کے پاس جو مسائل کا حل ہے۔وہ بھی درست ہوسکتا ہے۔لیڈر کو صرف اپنی پارٹی کا مفاد سامنے نہیں رکھنا بلکہ عوام یا قوم کا مفاد سامنے رکھنا ہے۔قوم یا عوام سب سے اہم ہیں۔صرف ایک پارٹی کا مؤقف اتنا اہم نہیں ہے۔
اگر ہم برصغیر کے قریبی ماضی کا جائزہ لیں تو ہمیں محمد علی جناح میں یہ تمام صفات موجود نظر آتی ہیں۔انہوںنے ایمانداری(Honesty)سے اپنی قوم کی قیادت کی۔اپنی ذات یاخاندان کے لئے اپنی لیڈر شپ کی وجہ سے کوئی بھی مفاد حاصل نہیں کیا۔انہوںنے برصغیر کے مسلم مسئلہ کوجانا۔اس کے بہت سے حل موجود تھے۔یہ بات تو بہت سے لیڈر بابار کہہ رہے تھے۔کہ مسلمان اپنے اکثریتی صوبوں میں اور ہندو اپنے اکثریتی صوبوں میں حکومتیں بنائیں اور مرکزی حکومت صرف دفاع،غیر ملکی تجارت ،غیر ملکی سفارت اور کرنسی کا نظام چلائے۔قائد اعظم اور انکے ساتھیوں کی رائے کے مطابق یہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا۔یہ سوچ رد کردی گئی اور مکمل علیحدہ ریاستوں کے تصور پر کام شروع کردیاگیا۔ وہ اعتماد و یقین کے ساتھ اس پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے اپنا طے شدہ مقصد حاصل کرلیا۔ ان کی اخلاقی بلندی کو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد جب حل سامنے آیا۔تو وہ پر اعتماد ہوگئے۔ ان کے پاؤں پھر لڑکھڑائے نہیں۔وہ گھنٹوں ہندؤں اور انگریزوں سے بحث کرتے۔لیکن یہ بحث آئین و قانون کے دائرہ کے اندر تھی۔وہ نہ کبھی جیل گئے اور نہ انہوں نے تشددکاراستہ اختیار کیا۔لیکن ایک مکمل اور بااختیار علیحدہ ریاست حاصل کرلی گئی۔گورنر وہ صرف11 ماہ رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے ایمانداری کی بہت سی مثالیں قائم کیں۔
کئی دہائیاں چھوڑ کر ہم 90ء کی دہائی میں آجاتے ہیں۔ 2پارٹیاں یکے بعد دیگرے حکومت کرتی نظر آتی ہیں۔ 2 لیڈر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو۔ایک کاروبار سے سیاست میں آیا۔بے نظیر کا پس منظر جاگیر دارانہ بھی تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کے طورپر بھی۔ان پورے دس سالوں میں وہ ایک دوسرے کو گرانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔بے نظیر بھٹو اپنے کارکنوں کو مختلف اداروں میں بھرتی کرواتی رہیں۔اور نواز شریف سرکاری کارپوریشنز کو پرائیویٹ سیکٹر میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔نواز شریف کے Creditمیں صرف لاہور۔اسلام آباد موٹروے ہے۔اس پورے دس سال میں دونوں لیڈروں میں سے کوئی کالا باغ ڈیم شروع نہ کراسکا ۔بے نظیر نے بجلی پیدا کرنے والی 14 کمپنیوں سے معاہدات کئے۔پاکستان میں بجلی کے نرخ صرف اس ایک کام سے بلندیوں کی طرف چلے گئے۔اس پوری دہائی پر معیشت دانوں کے متفقہ رائے یہی ہے کہ یہ دس سال ملک کو کچھ بھی نہ دے سکے۔اسے "ناکام دہائی"کے طورپر جانا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی ایمانداری پر تبصرہ انہیں کے مقرر کردہ صدر لغاری نے کردیاتھا۔جب صحافی نے پوچھا کہ آصف زرداری Mr.Ten Percentمشہور ہوگئے ہیں۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟۔صدرفاروق لغاری نے جواب دیا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری دونوں ہی اونچے درجے کے کرپٹ تھے۔باہر کے ملکوں میں خریدے گئے بڑے بڑے محلات دونوں کی ملکیت تھے۔نوازشریف صاحب نے اپنے اثاثے بنکوں سے قرض لیکر بڑھائے۔ یہ قرض بھی سرکاری اثرورسوخ سے ہی ملتے ہیں۔اب آکر یہ پتہ چل رہا ہے کہ 1993ء تا1995ء سے وہ اپنی دولت براستہ دبئی اور جدہ باہر منتقل کرتے رہے۔بہت ہی مہنگے علاقے میں پہلے صرف ایک فلیٹ سناجاتاتھا۔اب یہ نصف درجن بتا ئے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ہوتے ہوئے قومی منظر نامے پر عمران خان ظاہر ہوئے۔انکی پارٹی نے گزشتہ20سالوں میں صرف2013ء کے الیکشن میں کارکردگی دکھائی۔اس سے پہلے انتخابات میں شرکت برائے نام تھی۔2013ء کے رزلٹ سے قوم کے ایک طبقہ نے اطمینان محسوس کیا۔ دو روائتی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے ایک تیسری پارٹی قومی سیاست کے منظر نامے پر ابھری۔عمران کے Creditمیں انکی کرکٹ اور شوکت خاتم ہسپتال موجود تھے۔پاکستان اور پاکستان سے باہر وہ ان دوکاموں سے جانے جاتے تھے۔ہسپتال کی ایک اور شاخ اب انہو ں نے پشاور میں قائم کردی ہے۔لوگ انہیں فنڈز دیتے وقت ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ایمانداری کی صفت کی وجہ سے عمران خان نے میانوالی کے علاقے میں ایک اچھا تعلیمی ادارہ بھی قائم کرلیا ہے۔اس ایک صفت میں ان کا مقابلہ ملک کے باقی قومی سیاست دانوں سے نہیں کیاجاسکتا۔مقابلہ تب ہو جب باقی دونوں پارٹیوں کے لیڈر جھولی پھیلا کر نکلیں اور کوئی بڑا ادارہ عوام کے چندے سے بنائیں۔سرکاری خزانے سے ادارے بنا دینا ایک دوسری بات ہے۔
نواز شریف، بھٹو زرداری اور عمران خان کے ساتھ ایک اور درویش صفت انسان محترم سراج الحق بھی ہے۔ایمانداری کی مثالیں سراج الحق کی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ایک لمبے عرصہ سے قائم کی ہوئی ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اب ایک نامی گرامی ادارہ بن چکا ہے۔کروڑوں روپے کی مالیات کو انتہائی ذمہ داری سے اکٹھا کیاجاتا اور خرچ کیا جاتا ہے۔عمران خان پر اب 2014ء کے دھرنے کے بعد بہت اعتراضات بھی ہونے لگے ہیں۔اعتراضات وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں 2013ء کے الیکشن میں ایک نیا اور ابھرتا ہو ا قومی لیڈر نظر آتاتھا۔بے شمار لوگوں اور خاص طورپر نوجوانوں نے ان سے توقعات وابستہ کرلی تھیں۔لیکن ان کامیٹر اب صرف منفی سیاست کی طرف چل پڑا ہے۔
جلسے، دھرنے، ریلیاں اور اب اسلام آباد بند کرنا۔ان کی توجہ پارلیمنٹ میں جاکر مفید قانون سازی کی طرف بالکل نہ ہے۔جمہوریت میں تمام اصلاحات کی جگہ صرف اور صرف پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن اور نیب جیسے ادارے بھی موجود ہیں۔اگر پانانہ لیکس کے سلسلے میں پرانے قوانین کام نہیں دیتے تو نئے قوانین بھی پارلیمنٹ نے ہی بنانے ہیں۔نیب اور دوسرے اداروں کا سکوپ اگر نیشنل سطح تک ہے تو انہیں بین الاقوامی سطح کابنانا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہے۔اب تو سپریم کورٹ میں پانامہ مقدمہ شروع ہے۔20۔اکتوبر کے بعد اگلی تاریخ بھی پڑ گئی ہے۔اسلام آباد بند کرنے کا جواز قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ختم ہوچکا ہے۔اگر عمران خان نے آئندہ آگے بڑھنا ہے اور2018ء کے الیکشن میں کوئی کارکردگی دکھانی ہے۔ تو منفی سیاست کی بجائے مثبت سیاست شروع کریں۔ہمارے لیڈروں کی سیاست میں منفی پن زیادہ ہے۔اگر عمران خان 2013ء میں وزیراعظم نہیں بن سکے تو کیا آئندہ سیاست ختم ہوگئی ہے؟۔پاکستانی سیاسی ـ"قیادت کا المیہ"یہی ہے کہ مثبت کی بجائے منفی سیاست شروع کردیتے ہیں۔صراط مستقیم کی بجائے دائیں بائیں جانے والی پگڈنڈیوں پر سفر شروع کردیتے ہیں۔مستقل مزاجی سے منزل کی طرف سفر جاری رکھیں۔

Comments

Click here to post a comment