ہوم << سوشل میڈیا اور عوام کی تربیت - سخاوت حسین

سوشل میڈیا اور عوام کی تربیت - سخاوت حسین

سخاوت حسین کسی زمانے میں سنتے تھے جب دریا سو سال کا ہو جاتا ہے تو اپنا رخ موڑ لیتا ہے اور مخالف سمت میں بہنا شروع کر دیتا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے جو کچھ سوشل میڈیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے، اس سے اس مثال کی تصدیق سی ہو چلی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آپ کو یاد ہوگا جسٹن بیبر کے گانے کی دو دیہاتی لڑکیوں نے نقالی کی تھی، بس پھر کیا تھا، دونوں بہنیں سوشل میڈیا کی زینت بن گئیں. آج کل یہ حالت ہے کہ الیکڑانک میڈیا کو بھی سوشل میڈیا کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے۔گزشتہ دنوں چائے والے کا ایسا شور اٹھا کہ جسے دیکھو ہاتھ میں چائے لے کر سوشل میڈیا کے طواف کاٹنے لگا۔ کیا واقعی سوشل میڈیا ایک بے لگام ادارے کی حثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ ہمارا آج کا سب سے ہاٹ موضوع ہے۔
اس وقت لگ بھگ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ لوگ سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں۔اور پاکستا ن میں یہ شرح بقول فیس بک پچیس ملین سے کراس کر چکی ہے۔حالانکہ ابھی پاکستا ن میں ایک خطیر آبادی کا حصہ جس میں کافی سارے دیہات شامل ہیں انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔اور آبادی کے کثیر حصے کو تیزانٹرنیٹ ہی میسر نہیں۔تین کروڑ افراد کا سوشل میڈیا پر موجود ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہماری زیادہ تر آبادی سوشل میڈیا کو ہی اپنا گرو مانتی ہے۔اور یہاں کی خبروں کو صداقت کی نظروں سے دیکھتی ہے اور جو ٹرینڈ یہاں سیٹ ہوگا الیکٹرانک میڈیا کو بھی اس کی پیروی کرنی ہوگی۔ چائے والا، جسٹن بیبر گرل اور بہت سی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مگر سوشل میڈیا ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے یہاں سب کچھ شئیر ہوتا ہے۔جس میں نفرت سے بھرا مواد ، مذہبی منافرت پھیلانے والی پوسٹیں ،اقلیتوں کے خلاف پوسٹیں، لسانی ، علاقائی تعصبات سے بھرپور چیزیں من وعن شئیر کی جاتی ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں نفرتیں کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہیں۔ سوشل میڈیا سے پہلے ایسے افراد کو خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا تک رسائی اتنی سہل نہیں تھی اور اخبارات اور میگزین سے وسیع پیمانے پر وہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔اب بغیر کسی خرچ کے جعلی آئی -ڈیز بنا کر ایک پیج بنا یا جاتا ہے اور اس پر نفرتوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔
لیکن اب وقت ہو چلا ہے کہ سوشل میڈیا کے صارفین کی صحافتی تقاضوں کے حساب سے تربیت ہو۔ عوام میں اپنے حقوق کے حصول کا احساس ہو، عوام کو سوشل میڈیا کی پاور کا اندازہ ہو۔ اگر یہی عوام ایک چائے والے کو بہتر گھنٹوں میں ماڈلنگ کا کنٹریکٹ دلا سکتی ہے تو اپنے حقوق کیوں حاصل نہیں کر سکتی۔ضرورت صرف صحیح سمت میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہے۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پروگرام ترتیب دیں جس سے عوام کا سماجی اور صحافتی شعور بلند ہو۔نیوز چینلز اور ڈراموں کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں چھوٹے چھوٹے مزاحیہ کلپ آج کل بہت مقبول ہیں۔اور عوام کی ایک کثیر تعداد ان کو پسند کرتی ہے۔ اسی کےساتھ این جی اوز کو چاہیے کہ وہ عوامی سطح پر ایسے ورکشاپس اور پروگرامز کا انعقا د کریں جس سے عوام کو صحیح معنوں میں اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی ہو۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نرسری سے بی-اے تک کسی لیول پر عوام کے بنیادی حقوق کا چیپٹر ہی سلیبس میں شامل نہیں کیا گیا۔جس سے عوام کو کم از کم اپنے بینادی حقوق سے ہی آگاہی ہو سکتی۔ اسی کے ساتھ رائٹرز، شعرا، ادیبوں اور میڈیا مالکان سب کو مل کر اس کاز کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی ورنہ یہ سیلاب رکے گا نہیں۔گو کہ آثار ابھی سے ایسے لگ رہے ہیں۔
سب سے پہلی ذمہ داری تو پی ٹی اے کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کی بجائے ، میڈیا مالکان ، پیمرا، این جی اوز اور علمائے کرام کے ساتھ مل کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دے جس سے عوام کے اندرایک احساس بیداری پیداہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا اگر چاہے تو عوام کی سب سے ہمدرد اور ہمنوا دوست بن سکتی ہے۔ جب آپ کی شکایات آن لائن سنی جائیں۔ جب آپ کو یقین ہو سوشل میڈیا کے ذریعے آپ پولیس، سرکاری اداروں اور کسی بھی قسم کی زیادتی کی شکایات اعلی حکام سے ڈائریکٹ کر سکتے ہیں۔ اور یہ یقین بھی مضبوط ہو کہ آپ کے پاس ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آپ کی آواز کو کوئی دبا نہیں سکتا توکوئی شخص بھی زیادتی کرنے سے پہلے دس دفعہ ضرور سوچے گا فرض کریں اگر ایسا ہوا تو کیا آپ کو قانون کی بالادستی پر یقین نہیں آئے گا۔؟ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ نفرت انگیز مواد کی تشہیر کو ہر صورت روکنے کی کوشش کی جائے اور علما ومشائخ کے ساتھ مل کر پیار ، محبت کے درس کو عام کیا جائے ، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بگڑے ہوئے اور نفرت سے لتھڑے ہوئے ان ذہنوں کی اصلاح سازی کی کوشش کی جائے۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی تربیت ہوگی تو آپ دیکھیں گے آ پ کا ملک امن کا گہوارا بن جائے گا۔ کیونکہ یہ بات حکومت بھی سمجھ چکی ہے کہ سوشل میڈیا پر بین لگانے سے عوامی تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔لہذا ایک تربیت یافتہ شخص اپنے حقوق کے لئے اتنی ہی مستعدی دکھائے گا جتنا آج اس نے چائے والے کے لئے جوش دکھایا ہے۔
ہماری ایک کثیر تعداد میں نوجوان نسل سوشل میڈیا سے وابستہ ہے۔ مگر یہ اس جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں ۔یہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ہزاروں دوستوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ تنہا ہیں۔اور انکا کوئی غم گسار نہیں۔لیکن یہ سوشل میڈیا کو چھوڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ ایک لت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ کیا ہمارے یہ جوان تباہ نہیں ہورہے۔ کیا نفسیاتی لحاظ سے وہ ایک وسیع دنیا میں رہتے ہوئے بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کر رہے۔ اگر ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑ دیا تو ڈپریشن اور مایوسی کی شکاراگلی نسل ہی ہماری منتظر ہوگی۔ایسا کیوں ہے۔؟ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں داخل تو ہونے دیا۔لیکن عوام کی تربیت نہیں کی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص کو گاڑی دے دی جائے اور ڈرائیونگ نہ سکھائی جائے۔اسی لئے ہمارا نوجوان سوشل میڈیا کا صحیح معنوں میں استعمال ہی نہیں کر پا رہا۔اور وہ اسکے مثبت سے زیادہ منفی پہلووں سے ہی آشنا ہو سکا ہے۔
اگر ہم نے اب بھی اس موضوع کو اہمیت نہ دی اورسوشل میڈیا کو" بے لگام ادارے" کی طرح چھوڑ دیا تو یا د رکھیں آگے پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا سب کو سوشل میڈیا کی ہی پیروی کرنی ہوگی۔اور سوشل میڈیا پر جو دکھایاجائے گا اور زیادہ دکھایا جائے گا بھلے وہ سچ ہو یا نہیں صحیح ہو یا نہیں الیکٹرانک میڈیا کو سوشل میڈیا کی تابعداری ہی کرنی ہوگی، مسلکی اختلافات مزید بڑھیں گے، فرقہ پرستی کو مزید فروغ ملے گا اور امن و امان خراب کرنے والے عناصر مزید مضبوط ہوں گے۔کیونکہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیج یا گروپ بنا کر جس طرح مرضی چاہے نفرت پھیلاو۔جب تک ایسے لوگ پکڑے جائیں ایسا نہ ہو نفرت نے کئی ذہنوں کو آلودہ کردیا ہو۔یہی وقت ہے جب سب کو مل کر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ ایک سنسر شپ ہمیں معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈز بشمول علمائے کرام ، اپنی ذات پر بھی لگانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک معتدل معاشرہ قائم ہو جہاں عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں،عوام جرم سے ڈرتی ہو پولیس سے نہیں، دہشت گرد عوام سے خائف ہو، ایم این ایزحلقے کی فکر میں دبلے ہوں، وی آئی پی پروٹوکول ختم ہو ، نفرتیں پھیلانے والوں کے لئے اس ملک میں کوئی جگہ نہ ہو، عورت رات کے دو بجے بھی گھر سے نکلے تو محفوظ رہےاور پاکستان سب کے لئے محفوظ ہو۔اور عوام صحیح خبر، اسکی اہمیت، سنسنی خیز خبر اور اسکے نقصانات کی اور اسکے تدارک سےآگاہ ہو۔ ایسا بالکل ہوسکتا ہے جب آپ کو سوشل میڈیا کو استعمال کرنا آئے جب آپ اپنی اہمیت جان جائیں جب آپ ظلم کے آگے ڈٹ جانا سیکھ سکیں۔ جب آپ کو معلوم ہو اگر آپ کی دادرسی نہیں ہوئی تو آپ اپنی پوری توانائی استعمال کریں گے جب آپ یہ پوچھنے کی قوت پیدا کریں کہ میرے ٹیکس کے پیسے سے مجھے کیا مل رہا ہے، آپ سوشل میڈیا پر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا آپ کے ساتھ ہو۔ تبھی معاشرے میں تبدیلی آئے گی۔ یاد رکھیں معاشرہ ایک دن میں تبدیل نہیں ہوتا۔اسے دھیرے دھیرے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔اسے علم کے اور جہالت سے نجات کے ٹیکے لگانے پڑتے ہیں۔ اس جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار علم اور جہالت کا خاتمہ ہےجس سے عوام میں حقیقی شعور پیدا ہو۔ حقیقی شعور جس میں عوام اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہوسکے، ووٹ کی اہمیت سمجھ سکے، ایک کرپشن فری ریاست کے لئے کوشاں ہو، میرٹ کا بول بالا ہو اور سیاسستدان خود کو عوام کے خیر خواہ اور خادم سمجھیں یہ بات یا د رکھی چاہیے کہ عوام کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں ۔جب عوام کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تب سسٹم خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ اور اس سب میں سوشل میڈیا کا وہی کردار ہوگا جو پیاس کی حالت میں پانی کا ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے عوام اپنی جدوجہد کو بہت بہتر طریقے سے آگے لے جاسکے گی۔