شمالی امریکہ سے اردو زبان میں کئی ہفتہ وار اخبارات نکلتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو بیک وقت دسیوں شہروں سے شائع ہوتے ہیں اور اپنے جلو میں برصغیر پاک و ہند کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر تبصرے کے ساتھ ساتھ مقامی معاشرے میں ہونے والے پروگرامات، تقریبات اور اعلانات بھی رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں انسانوں کی نگاہوں سے گزرنے والے اخبارات میں بڑے چھوٹے تجارتی اشتہارات تو ہونے ہی ہیں، تاہم اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب میں نے بلند بانگ دعوے کرنے والے ’’عاملوں‘‘ کے اشتہارات دیکھے۔ کئی سالوں سے مسلسل دیکھتے دیکھتے ایک دن میری چھٹی حس پھڑک اٹھی اور میں نے اپنے احباب سے پوچھ ہی لیا کہ کیا برصغیر ہند و پاک سے نشر ہونے والے ٹی وی چینل پر بھی اس طرح کے اشتہارات آتے ہیں۔ ایک نہیں، کئی لوگوں سے یہی استفسار ہوتا رہا اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی صرف مقامی ہندی، اردو، انگریزی اخبارات ہی میں نہیں، بلکہ کئی شہرہ آفاق ٹی وی چینل پر بھی ’’پہنچے ہوئے‘‘ عاملوں کے اشتہارات پابندی کے ساتھ آتے رہتے ہیں۔ کبھی موقع ملے تو اندازہ لگانے کی کوشش کیجیے کہ ہر ہفتہ کس قدر رقم صرف اشتہارات پر لٹائی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کم از کم تخمینہ کی مجموعی رقم بھی اس قدر زیادہ ہوگی کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں حیرت واستعجاب کے زیر اثر پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ مزید یہ بھی پیش نگاہ رہے کہ ان میں کئی ایسے عامل بھی دکھائی دیے، جن کے فون نمبروں سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ موصوف انگلینڈ اور دوسرے یورپی ممالک میں اپنا پایۂ تخت سجائے بیٹھے ہیں۔ زحمت نہ ہو تو متذکرہ تخمینی اخراجات کی فہرست میں یورپی ممالک کے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کو بھی شامل کرنے کی کوشش کیجیے اور پھر برآمد ہونے والی بھاری رقوم کا تصور کیجیے۔
اچھا پھر، یہ سب صرف مال و دولت کے ضیاع کے حوالے سے ہی تشویشناک نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ تشویشناک تو وہ دعوے ہیں، جو یہ نام نہاد عاملین کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ذوق سماعت پر جبر کر کے سن ہی لیجیے۔ ایک صاحب اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں؛ ’’میرا علم دنیا کے ہر کونے میں چلتا ہے۔ آپ کا مسئلہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو، بابا جی عملیات کی پراسرار طاقتوں سے آپ کے مسائل کو گھنٹوں اور منٹوں میں حل کر سکتے ہیں۔ برصغیر کی ہزاروں سال پرانی روحانیت کے طلسماتی نقش کے ذریعہ اپنے بگڑے ہوئے کام حل کروائیں۔ ہر وہ کام جس کا حل ناممکن سمجھتے ہیں، فوری شرطیہ حل کے لیے بابا جی سے رابطہ کریں۔‘‘ نیز یہ بھی پڑھیے۔’’صرف ایک ہی رات کے عملیات سے آپ کی ہر پریشانی کا خاتمہ خصوصا بےاولاد اور من پسند شادی والے حضرات فوری رابطہ کریں۔‘‘ اور یہ چلینج بھی تو پڑھیے۔’’زندہ طلسماتی جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔‘‘ آپ محسوس کر رہے ہیں کہ کس لب و لہجے میں بھاری بھر کم دعوے کیے جا رہے ہیں؟ اور یہ تو کچھ نہیں ہے، آپ دو چار ہفتوں کے تمام اخبارات ورسائل کی ورق گردانی کریں، تو ایسے دعوے بھی مل جائیں گے، جنہیں من و عن نقل کرنا میرے لیے نہایت ہی دشوار ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ الفاظ و بیان سے یہ بو آرہی ہوتی ہے کہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، جیسے قدرت خداوندی میں انہیں بھی جزوی شراکت حاصل ہوگئی ہے۔ الامان و الحفیظ
یہ غلط فہمی نہ رہے کہ روئے زمین پر نام نہاد عملیات کی جو بہاریں دکھائی دیتی ہیں، وہ سب عاملین ہی کی شبانہ روز جدوجہد کے نتائج ہیں، بلکہ متذکرہ ’’کاروبار حیات‘‘ کو زندہ رکھنے میں ایک طرف عاملین کا سلبی کردار ہے، تو دوسری طرف وہمی مسلمانوں کی امداد و نصرت بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ عملیات کی مردہ رگوں میں خون دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ بھولے بھالے مسلمان ہی ہیں۔ فرض کیجیے کہ اوہام و خیالات کے زیراثر شب و روزگزارنے والے مسلمان اپنے معاملات لے کر عاملین کے پاس نہ جاتے، تو یہ صورت حال ہماے سامنے نہ ہوتی۔ کسی کی شادی نہ ہو رہی ہو، یا کاروبار میں خسارہ ہو رہا ہو، یا اولاد نہ ہو رہی ہو، یا ملازمت نہ مل رہی ہو، یا بیماری ٹھیک نہ ہو، تو عام طور پر یہ گمان کر لیا جاتا ہے کہ کسی نے کچھ کردیا ہے۔ اور جب صبر و شکیب کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے، تواحباب سے مشورہ کے بعد کسی اخباری عامل کی خدمات حاصل کرلی جاتی ہیں۔ عامل نے سادہ کاغذ پر دو چار آڑی ترچھی لکیریں ڈال کر خانے بنائے، چند نہ سمجھ میں آنے والے کلمات لکھے اور نہایت ہی اظہارافسوس کرتے ہوئے کہہ دیا کہ کسی نے بندش کردی ہے۔ اگر خاطرخواہ عملیات کے ذریعہ کاٹ نہ کی گئی توتمہاری جان جاسکتی ہے اور تمہارے خاندان میں بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ بھولے بھالے مسلمان، خاص طور پر برصغیر پاک و ہند کی خواتین عامل کے آگے گڑگڑاتے ہوئے التجائیں کرنے لگتی ہیں کہ باباصاحب کاٹ کیجیے، ہم منہ مانگی دولت قدموں پر نچھاورکرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب کیا ہے، ’’پارٹی‘‘ کی مالی حیثیت کی مناسبت سے بھاؤ تاؤ ہوتا ہے اور طے شدہ کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔
ذرا’’بندش‘‘ اور ’’نقصان‘‘ کے الفاظ پر توجہ رکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح و بین اعلان سماعت کیجیے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر ساری کائنات مل کر بھی تمہیں کوئی ایسی چیز دینا چاہے، جسے اللہ تعالیٰ تمہیں دینے کا ارادہ نہیں فرماتا ہے، تو وہ تمہیں نہیں دے سکتی، اور اگر وہ سب مل کر تمہیں کسی ایسی چیز سے روکنا چاہے، جسے اللہ نے تمہیں دینے کا ارادہ کر لیا ہے، تو وہ تم سے دورنہیں کرسکتی (مستدرک)۔ خدارا غیر جانبدار ہو کر متذکرہ عبارت دوبارہ پڑھیے اور بار بار پڑھیے، یہاں تک کہ یہ امر ذہن و دماغ کے پردہ پر ثبت ہوجائے کہ کارساز حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، پھر گہرائی میں اتر کر متذکرہ بالا دونوں الفاظ کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ معاذ اللہ کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ لوگوں نے بندش کر رکھاہے، جب کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نوازنا چاہتا ہے، یا یہ کہ لوگ تمہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں فائدے پہنچانا چاہتا ہے۔ اپنے ضمیر سے پوچھیے کہ اس طرح کے بے ہنگم خیالات کایہ لازمی نتیجہ ہے یانہیں کہ العیاذباللہ، خدائے تعالیٰ کے کیے گئے فیصلوں پر اس کی پیداکردہ مخلوق اثرانداز ہو رہی ہے !
صاحبو! سو کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارے مذہب نے ہمیں خود عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، نہ کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی دوسرے عمل کرنے والے کے گرد طواف کرنے کی۔ اسے حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یوں سمجھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس قلب میں قرآن کریم نہیں ہے، وہ قلب ویران گھر کی مانند ہے۔ اور یہ بات کہنے کی نہیں کہ ویرانے ہی میں شیاطین بسیرا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عاملین کے چکر میں وہی لوگ زیادہ ہوتے ہیں، جن کے گھر اعمال صالحہ، تلاوت قرآن، محبت خدا و رسول اور تعلیمات اسلامی سے آباد نہیں ہیں۔ تصورکیجیے کہ جس گھر میں پابندی کے ساتھ ناچ گانے، رقص وسرور اور لہو و لعب کی بزمیں آراستہ ہوں گی، وہاں رحمت الٰہی کی نوید لے کر فرشتے کیوں کر نازل ہوں گے؟ لہذا سچی بات یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا تقاضایہ ہے کہ اپنے آپ کو شیطانی وسوسے، وہمی خیالات اورضعف اعتقادی سے بچانے کے لیے ہم خود ’’پاکیزہ اعمال‘‘ سے اپنے قلوب و اذہان کو منور کریں، نہ کہ’’نام نہاد عاملوں‘‘ کی چوکھٹ پر دولت و ثروت کے ساتھ ساتھ، اعتقاد و عمل بھی برباد کر دیں۔ یاد رکھیے کہ اپنی حفاظت خود کرنے کے لیے شریعت اسلامیہ کے سائے میں شب و روز گزارنے کی کوشش کریں گے تو دنیا بھی بہتر ہوگی اور آخرت بھی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ دنیادار عامل کے بنائے گئے غیر مرئی جال میں گرفتار ہونے ک ے بجائے، الہی طاقت کے آگے سربسجود رہتے ہوئے دنیا اور آخرت دونوں میں حقیقی سرخروئی سے شرفیاب ہونے کی امید رکھی جائے؟
تبصرہ لکھیے