پچھلے ہفتہ حکومت کے اشارے پر محکمۂ قانون نے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور یونیفارم سول کوڈ کے لیے عوام سے رائے طلب کی ہے ۔ ظاہرہے کہ یہ بات ہمارے لیے از حدتشویشناک ہے ، اس لیے کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک ائمۂ مساجد، مسلم تنظیموں اورمدارس اسلامیہ کے ذمہ داروںنے سرپر کفن باندھ کر بنام تحفظ شریعت ملک گیر تحریک چھیڑ دی ہے ۔ آئے دن اردو، ہندی اور علاقائی اخبارات میں بیانات جاری کیے جارہے ہیں اور عوام سے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے پرامن احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیلیں کی جارہی ہیں ۔قصہ مختصر یہ ہے کہ ایک عجیب کشمکش، تشویش اور اضطراب کی لہر ہے ، جو ہندوستانی مسلمانوں کے چہرے سے دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں ہے ۔
ڈاکٹر جج بی ۔ایس۔ چوہان ، چیرمین انڈین لاء کمیشن ، کی سرپرستی میں تیار کردہ حالیہ سوالنامہ میری نگاہوں سے گزرا ہے ۔ کئی صفحات پر پھیلے ہوئے سوالنامہ میں دو پہلوؤں سے رائے طلب کی گئی ہے ؛ ایک یہ کہ ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور دوسرا مختلف مذاہب کے تسلیم شدہ عائلی قوانین میں ردوبدل کی گنجائش۔ویسے توزیادہ تر سوالات میں کسی بھی مذہب اور تہذیب وتمدن کا صراحت کے ساتھ تذکرہ نہیں ہے ، لیکن ہندو، مسلم اور عیسائی مذاہب کے حوالے سے ایک ایک سوال صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ مسلمانوںکے حوالے سے ایک نشست میں دی جانے والی تین طلاق کی قانونی حیثیت میں تبدیلی پر رائے مانگی گئی ہے ، عیسائیوں سے دریافت طلب امر یہ ہے کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مسئلہ طلاق کو حتمی شکل دینے میں دوسال کے انتظار سے مساوی سلوک کے حوالے سے عیسائی خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، اور ہندوؤںکے بارے میں سوال یہ ہے کہ کیا آپ ایسے اقدامات ضروری سمجھتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ہندوخواتین بہتر ڈھنگ سے جائدادمیں تصرف کرسکیں ، جو کہ مروجہ تہذیب وتمدن کی رو سے عام طورپربیٹوں کی ملکیت میں چلا جاتاہے ۔ خیال رہے کہ متذکرہ سوالنامہ میں آدی واسی، سکھ ، قبائلی اور ناگالینڈ تہذیب وتمدن، جیسے بیسیوں رسوم ومعاملات میں اصلاحات کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔اس طرح ڈنکے کی چوٹ پر کہا جاسکتاہے کہ لاء کمیشن کی جانب سے شائع شدہ سوالنامہ کسی زاویے سے مکمل نہیں ، بلکہ نہایت ہی ناقص اور جانبدارانہ ہے ۔
ویسے منجملہ دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتاہے کہ متذکرہ بالا سوال کے علاوہ دو سوالات مزید ایسے ہیں ، جو مسلم پرسنل لاء سے متصادم ہیں ؛ یکساں سول کوڈاور تعدد ازدواج۔ ظاہر ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ ہندوستان سے پورے طورپر’’مسلم پرسنل لاء ‘‘ کاخاتمہ ہوجائے۔ خیال رہے کہ عائلی قوانین میں ردوبدل سے مسلمانوں کے لیے حلا ل وحرام کے امتیازات کے ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے گااور کہنے دیاجائے کہ حلا ل وحرام کی تمیز مٹ جانے کے بعد مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے ۔ اس طرح جمہوری ملک میں اپنے مذہبی روایات ومراسم کے ساتھ جینے کا آئینی حق براہ راست متأثر ہوگا، بلکہ یہ کہنے دیاجائے کہ یکساں سول کوڈ ، ہندوستانی سرزمین سے مذہب اسلام کی بیخ کنی کی جانب پہلا قدم ہے ، جسے کسی بھی قیمت پر مسلمان برداشت نہیں کریں گے ۔
رہی بات تعدد ازداوج کی ، تو یہ عصرحاضر میں کسی ’’لفظی فریب ‘‘ سے کم نہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ تعددازدواج پر پابندی سے عورتوں کے حقوق محفوظ ہوتے ، تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ تعدد ازداج پر قدغن سے عورتوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو ایسے تمام ممالک کے عائلی احوال پر نگاہ ڈالیے ، جہاں تعدد ازدواج پر پابندی عائد ہے ۔ آپ محسوس کریں گے کہ ویسے توعدالت میں صرف ایک شادی رجسٹرڈ ہے ، لیکن جو مرد ایک سے زیادہ بیوی کے خواہشمند ہوتے ہیں ، وہ دوسری بیوی بنام ’’دوست‘‘ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور قانون کھڑے منہ تکتارہتاہے ۔چونکہ ایسے رشتے قانونی دائرے میں نہیں ہوتے ، اس لیے نہ تو عورت کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہوتاہے اور نہ ہی اس سے پیداہونے والے بچوں کو۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ایک خاتون کو قانونی دائرے میں اپنے پاس رکھنا زیادہ بہتر ہے یا غیر قانونی ڈھنگ سے ۔ اور پھر ’’خاتون دوست‘‘ کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں پیداہونے والے بچے معاشرے کے لیے کس قدر مسائل پیداکرتے ہیں ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ بس یہ سمجھیے کہ مغربی معاشرے میں زیادہ تر جرائم ، قتل وخون اور لوٹ مارکی وارداتیں اسی طرح کے ناجائز اولاد سے زیادہ تر منسوب ہوتی ہیں ۔یہ بات توصرف جواب دینے کی حدتک ہے ، تاہم ارباب حل وعقد کے علم میںیہ حقیقت بھی رہنی چاہیے کہ اسلام میں تعددازدواج کی صرف اجازت ہے ، حکم نہیں ہے کہ خواہی نخواہی ہر مسلم کو ایک سے زیادہ شادی کرنی ہی پڑے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہندوستان میں صرف دو تین فیصدمسلمان ہی ایک سے زیادہ بیوی رکھتے ہیں ۔ ٹائمز آف انڈیامیں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں سے کہیں زیادہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا رواج ہندؤں میں ہے ۔
اب آئیے طلاق ثلاثہ کے بارے میں بھی گفتگوہوجائے ۔ حاشیہ ذہن میں اب تک ہے کہ میرے استاذ گرامی حضرت فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ طلاق کی حدتین پرختم ہوجاتی ہے ،تاہم لوگ جب تک سانس نہ ٹوٹے طلاق دیتے رہتے ہیں ۔ خیال رہے کہ یہ بات تقریبا تیس سالوں تک فتویٰ نویسی کرنے کے بعد تجربہ کی روشنی میں کہی جارہی ہے ۔ اس امر سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مسئلہ ایک نشست میں ایک یا تین طلاق دینے کا نہیں ہے ، بلکہ طریقہ ٔ طلاق سے ناواقفیت کا ہے ۔ مجھے توایسا لگتاہے کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ایک نشست میں دی ہوئی ساری طلاقتیں ایک ہی ہوں گی اور بیوی علی الفور نکاح سے نہیں نکلے گی ، تو وہ پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے مختلف مقامات بدل کر تین طلاقتیں دے ڈالیں گے اور جن مقاصد کے لیے طلاق ثلاثہ کوموضوع بحث بنانے کی کوشش ہورہی ہے ، وہ دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔اور یہ شکوہ تو نہایت ہی عجیب وغریب ہے کہ نکاح کے لیے تو باہمی رضامندی بھی معلوم کی گئی، تقریب بھی منعقد ہوئی اور گواہان بھی بٹھائے گئے ، جب کہ شوہر نے بغیر کسی سے مشورہ کیے زبان سے تین مرتبہ کہہ دیا اور برسوں کے تعلقات ختم ہوگئے ۔مؤدبانہ عرض ہے کہ دنیا میں کسی بھی طرح کے تعلقات بنانے اور بگاڑنے کے یہی دستورہیں ، یعنی جب معاہدہ کیا جاتاہے تو طرفین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ، جب کہ توڑنے کے لیے ایک جانب کی نفی بھی کافی ہوتی ہے ۔
صاحبو! میری سمجھ سے باہر ہے کہ قانونی کمیشن نے عائلی ضابطہ کے حوالے سے عوامی استصواب رائے کی ضرورت کیسے محسوس کی ، جب کہ یہ معاملہ تو معاشرے کے ایسے باصلاحیت افراد سے متعلق ہے ، جو اپنے اپنے مذاہب کے اصول وضوابط سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہ بتاسکتے ہیں کہ ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق کہاں تک ردوبدل ، حک واضافہ اور ترمیم وتنسیخ کی گنجائش موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ جس طرح ایک دیہاتی چرواہے سے عمل جراحت کے ضابطے کی تشریح نہیں پوچھی جاتی ، بلکہ جراحت کے حوالے سے ایک طبیب حاذق ہی بہتر مشورہ دے سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح مذہبی قوانین کے حوالے سے صرف علمائے کرام ، مفتیان عظام اور وسیع مطالعہ رکھنے والے محققین ہی رائے دے سکتے ہیں ۔اور تصور مشاورت کا یہ پہلوتو کسی سے پوشیدہ ہے ہی نہیں ، دنیاوی معاملات کے سارے اقدامات میں اصحاب رائے سے ہی مشورے کیے جاتے ہی۔ اب یہی دیکھیے کہ حکومت جب ریلوے کرایہ ، پٹرولیم مصنوعات اور ٹیکس میں اضافہ کرنا چاہتی ہے ، تو عوامی رائے معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرتی ، بلکہ لوک سبھا اور رائے سبھا کے ممبران کے درمیان ووٹنگ کی بنیاد پر اقدامات کرتی ہے ۔ یہیں سے یہ امر دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں ہوگیا کہ ملک جمہوری ضرور ہے اور ہر شہری کو رائے دینے کا حق ہے ، تاہم رائے اسی سے لی جائے گی ، جو صاحب رائے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے علاوہ کبھی بھی عوامی رائے کی بنیادپر فیصلے نہیں ہوتے۔بہر کیف، یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے لیے عوامی استصواب رائے ، نہ زمینی حقائق کے مطابق ہے ، نہ فطرت انسانی کے قریب ہے اور نہ ہی ’’مروجہ عالمی نصابِ اقدامات‘‘ کی فہرست میں شامل ہے ۔
تبصرہ لکھیے