کچھ دن پہلے مجھے نیوز چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا، کافی عرصے سے میں نے یہ قابل احترم کام چھوڑ رکھا تھا، شاید اپنی زندگی کو مزید پرسکون اور خوشیوں سے بھرپور بنانے کے لیے۔ اور میں اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی، ہاں بس ایک طعنہ ضرور سننے کو ملتا تھا:
”آج کل پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اس سے باخبر رہنا چاہیے۔“
یہاں باخبر ہونے سے مراد روز کے پچاس نیوز چینلز، سو ٹاک شوز، ڈیڑھ سو تبصرے اور دو سو کے لگ بھگ بریکنگ نیوز ہیں جن میں سوائے دہشت گردی، قتل و غارت، دنگا فساد، پولیس کرپشن، لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، بحث و تکرار کے اور کچھ بھی نہیں۔ ایک خبر پر پورا میڈیا پاگل ہو جاتا ہے اور جب تک دل ان کا اور ناظرین کا اکتا نہ جائے، اس پر بک بک چلتی ہی رہتی ہے۔ اتنے مؤقف سامنے آتے ہیں کہ سب ایک ساتھ یا تو یکسر غلط لگنے شروع ہو جاتا ہے، یا پھر سب ٹھیک لگنے لگ جاتا ہے، یا پھر کچھ نہیں لگتا، میرے جیسے کنفیوزڈ لاکھوں پاکستانیوں کو، لہذا ایسے باخبر رہنے سے تو بے خبر ہی چنگے ہم۔
مجھے وہ نوے کی دہائی کا وقت بہت اچھی طرح سے یاد ہے جب ہمارے گھر میں صرف رات نو بجےکا خبرنامہ لگا کرتا تھا، اس میں سب خبریں بھی دیکھ لیتے تھے اور سب سے بڑی بات سب بڑوں کا موڈ بھی خوشگوار رہتا تھا، کیا خوبصورت کلاسیفیکیشن ہوتی تھی خبروں کی، ایسے لگتا تھا کہ ملک پاکستان میں صرف ترقی ہی ترقی ہو رہی ہے۔ آج وزیراعظم نے فلاں جگہ فلاں چیز کا افتتاح کیا۔ آج فلاں صدر سے ملاقات ہوئی اور ادارے کی کاکردگی کو بہتر بنانے پہ غور کیا گیا۔ آج فلاں ملک کے سفیر پاکستان آئے اور فلاں معاہدے پہ دستخط ہوئے۔ آج فلاں ادارے نے ملکی ترقی و سلامتی کے لیے چند تجاویز پیش کیں۔
لیکن اب تو اللہ رحم کرے، ایسے لگتا ہے کہ ترقی کے علاوہ سب کچھ ہو رہا ہے، کرہ ارض پاکستان پر۔ آج فلاں جگہ پر اتنی چوری کی وارداتیں ہوئیں، آج ملک کے فلاں فلاں فلاں حصے میں اتنے گھنٹے بجلی کی لوڈشنڈگ ہوئی، آج فلاں علاقے میں دو بہنوں کو زندہ جلا دیا گیا، فلاں علاقے میں شہریوں کے حکومت کے خلاف نعرے۔۔ ہائے قسمت ! ایک چینل دیکھا نہیں تو گھر کے بڑے بزرگوں کا پارہ چھٹے آسمان پر۔ دو موٹی موٹی گالیاں دیں اور اگلے چینل پہ سوئچ کر دیا، لیکن اگلے پہ جا کے بھی کون سی خیر کی خبر سن لی۔ پل پل ان کو یہ احساس دیا جاوے ہے کہ
اے کرپٹ قوم کے بدترین لوگو! تم سب کے پاس خوش ہونے کا اب کوئی حق باقی نہیں رہا۔ ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تم میں جو تندرست ہیں، وہ جلد بلڈ پریشر میں مبتلا ہوں گے، تمہارے ہر ادارے کی کارکردگی ناقص ہے جو تمہاری احساس کمتری میں مزید اضافہ کرے گی۔ روز اپنے حکمرانوں کے کرپٹ ہونے اور کرپشن کی خبریں سن کے تمہارے اعتماد کی دھجیاں اڑیں گی۔ آئے دن خون خرابہ دیکھ کر تمہادے اندر احساس مرے گا، تم شکر کرو گے کہ دو مرے دس نہیں مرے، اور جس دن دس مرے گئے اس دن کہو گئے کہ دس مرے، سو نہیں مرے۔
میرے مطابق آج کل جو باخبر ہے، وہ اپنے اندر حساس اور اعتماد کو کہیں کھوتا چلا جا رہا ہے۔ جب آئے دن اتنے منفی پہلو سے با خبر رکھا جائے گا تو مثبت سوچ یا پہلو بمشکل ہی نظر آئے گا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم بحثیت قوم اتنا منفی سوچنے لگ گئے ہیں کہ اگر کوئی اچھی سوچ کی سمت دکھا بھی رہا ہو تو فورا اس کو رد کر دیا جاتا، انہونی سی بات سمجھ کہ کوئی ہمارے ساتھ بحیثیت قوم اچھا کرنے کا سوچ کیسے سکتا؟ اور اگر کوئی اچھا کرنے والا آ بھی جائے تو اس کی اچھائی میں سو قسم کہ پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا اور ایک سرسری سی رائے ہر کسی کے دل میں قائم ہو جاتی کہ ضرور اس کے اپنے کوئی مفاد ہوں گے۔ آئے دن اتنا برا سن سن کے کانوں کو عادت نہیں رہی اچھا سننے اور دیکھنے کی۔ ایسے میں قوم ہر وقت ڈپریشن اور مایوسی کا شکار رہتی نظر آتی ہے۔ مسدس حالی میں الطاف حسین حالی نے کیا خوب نقشہ کھنچا ہے مسلمانوں کی پست سوچ اور حالت کاجب انہی میں سے ایک لیڈر سر سید احمد خان ایک نظریہ لے کے ابھرا۔
اگر اک جوانمرد ہمدرد انساں
کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں
کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں
وگرنہ پڑی کیا کسی کو کسی کی
یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت
تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت
سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت
تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا
نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا
اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی
تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی
تو گویا تمنا ہماری بر آئی
اگر میڈیا نے ہمیں باخبر ہی رکھنا ہے تو بجائے پل پل کی جرائم کی بریکنگ نیوز دینے کے مجرموں کو ملنے والی سزاؤں کی خبر یں دی جائے۔ آج مجرم کو اس ادارے کی طرف سے اس جرم کی پاداش میں یہ سزا دی گئی۔ اس سے ہمارے اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی اور ان میں مزید اچھا کرنے کی امنگ بھی پیدا ہوگی۔ سب سے بڑھ کے سزاؤں کو ملتا دیکھ کے کئی لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ غلطی کرنے پر باقاعدہ عملدرآمد ہونے والی سزائیں بھی موجود ہیں اور پھر سب سےاہم کہ عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ اگر ہم آئے دن قوم کو ڈارک روم میں بٹھا کے اندھیرے ہی دکھاتے رہے تو آہستہ آہستہ قوم کی بینائی سلب ہوتی جائے گی، اور پھر کسی چیز میں سوائے اندھیرے کے اور کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ روشنی سے مانوس رہنے کے لیے روشنیوں میں رہ کے اندھیروں کے شیڈز کو دیکھنا ہوگا۔ باخبر رہیں لیکن اندھیروں میں اندھے بہرے اور گونگے بن کے نہیں، بلکہ صبح و روشنی میں پرندوں کے نغموں کے ساتھ ڈھیروں امیدوں کی کرنیں بن کے، کیونکہ روشنیوں میں امیدیں کبھی دم نہیں توڑتیں۔
تبصرہ لکھیے