خیر چائے کو غنیمت جانتے ہوئےگرم گرم چائے کی چُسکی بھری تو دفتر میں لگی ایل ای ڈیز پر مختلف چینلز پر ایک دم سے بریکنگ نیوز چلنے لگی، چیخ چیخ کر تمام چینلز پر نیوز کاسٹرز بریکنگ نیوز دے رہے تھے۔ اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا حکم دے دیا۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”سب سے پہلے پاکستان“ ماضی میں کچھ لوگوں نے اس نعرے کو استعمال کر کے پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی طرف دھکیلا لیکن ہم نے اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم اُٹھایا ہے جس کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے۔ نیوز اینکر نے اپنے رپورٹر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ جی کیا اَپ ڈیٹس ہیں آپ کے پاس؟ رپورٹر اَپ ڈیٹ کرنے لگا، جی پرائم منسٹر پاکستان نے تسلسل کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم دیا ہے۔ باخبر ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ دو لفٹیننٹ جنرل جو سنیارٹی کی بنیاد پر پروموٹ ہونے تھے، اِن میں سے ایک کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور دوسرے لیفٹیننٹ جنرل کو بھی فور سٹار جنرل پروموٹ کر کے وائس چیف آف آرمی سٹاف بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی دوران نیوز اینکر نے کہا کہ ہمارے ساتھ لائن پر ہیں سینئر تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود سے، جی ڈاکٹر صاحب کیا کہیں گے، پرائم منسٹر کے اس اقدام کے بارے میں؟ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے گو کہ یہ وزیر اعظم کا خلافِ معمول فیصلہ ہے، انہوں نے بادی النظر میں ملک کے وسیع تر مفاد میں پاک چائنہ کوریڈور اور ضرب عضب کی کامیابی کے لیے یہ فیصلہ کیا، فی الوقت یہ تسلسل ضروری تھا۔ جی ڈاکٹر صاحب آپ لائن پر رہیے گا۔ ہمارا رابطہ ہوا ہے عمران خان صاحب سے، جی عمران خان صاحب کیا کہیں گے آپ پرائم منسٹر کے اِس فیصلے کے بارے میں؟ جی میاں نواز شریف کا یہ اقدام خوش آئند ہے، پانامہ لیکس کا ”پنڈورا باکس“ اپنی جگہ لیکن یہ ملکی مفاد میں ایک اچھا فیصلہ ہے۔ خان صاحب کا یہ بیان دینا تھا کہ فوراً ہی ایل ای ڈی بلینک ہو گئی۔ شاں شاں کی زوردار آواز اور میں ہڑبڑا کراُٹھ بیٹھا، اگلے چند ہی لمحوں میں سارے خلافِ معمول ہونے والے معاملات کی قلعی کھل گئی۔
کیونکہ کہ ہم ایک معمول کی قوم ہیں، اِتنے سارے خلافِ معمول کام میں ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ ہمارے معمولات کا ڈنکا تو سارے جگ میں بجتا ہے۔ ایسے ہی خلافِ معمول اقدام کی توقع ہم نے عمران خان صاحب سے بھی کی تھی، جب وہ اڈہ پلاٹ کے جلسے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ وہ یہ علان کر دیں کہ ملکی سالمیت اور بقا کے لیے میں رائےونڈ کا جلسہ مؤخر کرتا ہوں، پہلے پوری پی ٹی آئی بارڈر کی طرف مارچ کرے گی اور ہم دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ ہمارے لیے ”سب سے پہلے پاکستان“، تو خلافِ معمول اقدام سے ان کا گراف بہت اُوپر جاتا. خیر جو خلافِ معمول خواب میں نے دیکھا، وہ اس وقت نظریۂ ضرورت اور پوری قوم کی دل کی آواز ہے۔ اس تسلسل کی بہت سی ناگزیر وجوہات ہیں۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں مبینہ طور پر افغان حکومت کو پاکستان دشمنوں کی پشت پناہی پر وارننگ دی اور افغانستان میں پاکستان کے انٹیلی جنس آپریشن پر انہیں قائل کیا۔ دہشت گردوں کے لیے آرمی کورٹس کا قیام اور سزا ئے موت کی بحالی پر سیاست دانوں کو مجبور کیا۔ دھرنے سے پہلا ہونے والا سونامی جو جمہوریت کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔ اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کیا اور جمہوریت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا۔ را کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری، بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے اور بھارت مردہ آباد کی ریلیاں ۔
جنرل راحیل کی قیادت میں ہی رینجرز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے گرد گھیرا تنگ کیا اور بھارت کے لارنس آف عریبیہ یعنی الطاف حسین کو پوری دنیا میں غدار اور ملک دشمن ثابت کیا جس کی وجہ سے کراچی میں خوف کی فضا ختم ہوگئی، انہی کی کمانڈ میں سیاسی جماعتوں میں ملیٹینٹ ونگز کے صولت مرزا ، عزیر بلوچ اور چھوٹو گینگ کیفر کردار تک پہنچے، چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کی اور سی پیک منصوبہ شروع ہوا جو نہ صرف چین، پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کمرشل کینوس کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، انہوں نے ہی روس کے دورے کر کے پاکستان پر سے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ہٹوائی اور روس پاکستان کی مشترکہ جنگی مشقیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جس کے مروڑ دشمن ملک بھارت کے پیٹ میں اُٹھ رہے ہیں، شیر کی دھاڑ کی طرح دشمن کو جواب دینے والے جنرل۔ بھارتی میڈیا بھی جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کے دن گنتا اکثر دکھائی دیتا ہے۔
کیا اگر میاں صاحب واقعتا آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا اعلان کرتے ہیں تو اس طرح وہ ایک وطن پرست (Patriotic) اور پارسا حکمران بن کر نہیں ابھریں گے۔ خیر ”پارسائی کے بھرم“ قائم رکھنا کوئی آسان کام نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ راستے نہیں رہبر بچاتے ہیں، موسیٰ ؑ اپنے ساتھیوں سمیت دریا پار کر گئے جبکہ فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا۔
خلاف معمول آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا اعلان - آصف خان

تبصرہ لکھیے