نہایت مناسب ہے کہ نئے پڑھنے والے اس تحریر کو پہلے حصے سے ملا کے پڑھیں ’سیکولرازم: مباحث اور مغالطے‘ جناب طارق جان کی جلیل القدر تصنیف ہے۔ کتاب میں ایک مضمون عالیجاہ عزت بیگووچ کے افکار سے متعلق بھی ہے۔ اس کے مطالعے نے زیرِ نظر موضوع کے حوالے سے سوچنے کے مزید دَر وا کیے۔ ہم نے اس روشنی سے استفادہ کیا اور کچھ مزید سوالات کی بھی ترتیب بندھی .
انیسویں صدی اگر الحاد کی صدی تھی تو بیسویں صدی مجموعی طور پر اس سے انکار کی طرف مائل نظر آتی ہے۔ اور اکیسویں صدی قطعی طور پہ الحاد کی شکست کا واضح سامان رکھتی ہے۔ انکارِ خدا کا مقدمہ عقلی نقلی طور پہ کمزور اور بے بنیاد بنتا چلا رہا ہے۔ جدید سائنسی اکتشافات نے بجا طور پر منکرینِ خدا کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ محترم ادریس آزاد نے اپنے مضمون میں رچرڈ ڈاکنز کے حالیہ انٹرویو کا ذکر کیا جو منکرین کے موجودہ ’پیمبر ‘ ہیں۔ اس انٹرویومیں رچرڈ دفاعی پوزیشن پہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ خدا خود کو زمانے کے مطابق آشکار کرتا چلا جارہا ہے۔ اگر ہماری نالائقی آڑے نہ آئی تو بہت جلد لشکر کے لشکر خدا کی وحدانیت کی طرف خود سپردگی کی حالت میں بڑھیں گے۔ اگر وہ مضبوط عقلی بنیادیں رکھتے ہیں تو ملحدین کو جواب دینا چاہیے۔ اگر خدا محض واہمہ ہے تو بات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ:
٭اگر فطرت سب کچھ ہے تو یہ فطرت کون ہے؟ اگر یہ خود بخود وجود میں آ گئی ہے اور ہر شے کو اسی سے تخلیق کا بڑھاوا ملا ہے تو پھر خدا کے دعوے کی نفی کیوں؟
٭آپ کی عاشقی یعنی فطرت کب وجود میں آئی؟
٭مظاہرِ فطرت انسان سے پہلے پیدا ہوئے یا بعد میں؟
٭انسان کے آغاز کی قطعی بنیادیں کون بتائے گا ۔خدا یا الحاد؟ (یہ سوال یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ جو یہ سچائی بتائے گا زندگی کا نظام اسی کے مطابق آگے بڑھانے میں مدد حاصل ہوگی )
٭سپریم انٹیلی جنس اور کائناتی شعور کو مانا جا سکتا ہے تو پھرخدا سے بیزاری کیوں؟کچھ کہتے ہیں کہ خدا دنیا بنا کے مر گیاتو دکھائیے اس کی موت کا ثبوت کیاہے؟ اگر ثبوت نہیں تو آپ کی بات کس بِنا پہ مان لی جائے؟
٭نیوٹن کا قانون کیسے دفن کریں کہ جس کے مطابق جو ٹھہرا ہے ٹھہرا رہے گا جب تک ہلانے والا موجود نہ ہو، جو چلتا ہے چلتا رہے گا جب تک اسے روکنے والی طاقت نہ ہو۔ اس روشنی میں یہ وسعت پذیر کائنات ایک آغاز بھی رکھتی ہوگی اور بِگ بینگ کے مطابق یہ کائنات ایک نقطہ میں مرکوز تھی۔ پھر اسی اصول کے تحت کوئی قوت ایسی موجود ہونا لازم بنتا ہے جس نے اسے بھونچال آشنا کردیا؟
٭اگر انسان محض خود بخود بنا مادے کا وجود ہے تو پھر’ احساس ‘کس عفریت کا نام ہے؟
٭کیا دنیا کی سب رنگا رنگی اسی احساس سے جڑی نہیں؟ مادیت اور الحاد کا فلسفہ اس کی معقول تعبیر کر پایا ہے؟اس احساس نے کیسے نمو پائی؟
٭مادے میں غلط صحیح، نیک بد کا شعو ر کیسے ممکن ہو گیا؟ یہ شعورکہاں سے آیا؟
٭مادی سوچ تو ہر منفی آزادی کو فطری سمجھتی ہے پھر خود ملحدین کے ہاں طرح طرح کی پابندیاں انفرادی و اجتماعی حوالوں سے کیوں پائی جاتی ہیں ؟
٭انسان کے مرنے کی تشریح سوائے روح نکلنے کے کتنے اطمینان بخش انداز میں کی جاسکتی ہے؟ اور روح کی کیا مادی بنیاد پیش کی جاسکتی ہے؟
٭یہ روح کامضمون آپ کی جان چھوڑنے والا نہیں ۔ نہ بھی چاہیں توجواب دینا پڑے گا۔جامع جواب کون دے گا؟
٭کیاانسان کی بناوٹ مادے اور روح کے دو جہانوں سے ہوئی ۔اس بات سے آپ کے انکار کے باوجود فرار ممکن ہے؟
٭کیا انسان کے آغاز کی کوئی یقینی دلیل آپ کے پاس موجودہے؟
٭علم الحیات اور الحادی مادیت کسی اعتماد کے ساتھ انسانی آغاز کا تعارف کروانے میں کامیاب ہوئی ہیں؟
٭انسانیت الحاد کا موضوع ٹھہرتا ہے یا توحید کا؟ کیونکہ انسان مادے سے متعلق مان بھی لیا جائے تو انسانیت کا تعلق احساسات اور اخلاقیات کی دنیا سے ہے
٭کیا ارتقائی الحادی نظریہ بحیثیت انسان اس کی جسمانی اور ذہنی ترقی کی کوئی قابلِ قبول وجہ بتانے میں کامیاب ہوا؟
٭کس قانون کے تحت انسان خوشحالیوں میں بگاڑ کی طرف چلا جاتا ہے(گو ضروری نہیں)؟
٭کس منطق کے زیرِ اثر مشکل میں سنواراور نرم دلی کی طرف راغب ہو جاتا ہے (گو ضروری نہیں)؟
٭اگر انسان مطلق آزاد ہے تو پھر اس کو ناگہانی ناکامیاں کیوں سامنا کرنا پڑتی ہیں؟
٭اگر خدا نہیں تو ارادے کیسے ٹوٹ جاتے ہیں؟ کیا ارادوں کا ٹوٹنا کسی ارادہ توڑنے والی بالاتر ذات کی طرف اشارہ نہیں؟
٭آپ کے نزدیک انسان آزاد ہونا چاہیے ۔ہم پوچھتے ہیں کیا آزادی بھی خدا کی گواہی نہیں؟ کیا انسان خدا کے بغیر آزاد ہو سکتا ہے؟کیونکہ اگر آپ کے کہے کے مطابق یہ کائنات ایک خود ساختہ فارمولے کے تحت چلتی جارہی ہے تو یہاں بسنے والا انسان اس فارمولے کا قیدی ہے اور ہر گز آزاد نہیں۔ وہ کچھ اختیار اور ارادہ نہیں رکھتا۔ جب کہ خدا اختیار دینے کا اعلان کرتا ہے
ہمارے نزدیک ملحد بہت بہادر انسان ہوتا ہے۔ وہ مروجّہ سیکولرازم کی طرح منافق نہیں ہوتا۔وہ جسے سچ سمجھتا ہے ببانگِ دْہل اس پہ عمل کرتا ہے۔ وہ سچا ہوتا ہے دوغلا نہیں۔ اور ہم امید رکھتے ہیں اگر وہ نظریے کی بنیادپہ ملحد ہے نفس پرستی کی بنیاد پہ نہیں تو وہ سچائی کا متلاشی ہونا چاہیے۔ عموماََ ایسے لوگوں کو اگر کسی چیز کے حقائق مل جائیں تو وہ باآسانی پچھلے نظریے پہ تین لفظ بھیج کے حق کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اس لیے منکرین کو جوابی مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے ورنہ مان لینا چاہیے۔ حکیم الامت اقبال نے شاید متشکک اور ملحد فلسفی کے بارے میں ہی فرمایا تھا:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
تبصرہ لکھیے