سائیڈ پہ ہوجائیں، ادھر سے ہٹ جائیں، ہمیں کام کرنے دیں۔
بھائی! ہم اپنا کام کر رہے ہیں، ہمیں کیوں روک رہے ہو؟
چل چل تو کیمرہ لگا، دیکھ لوں گا ان ۔۔۔۔۔۔ کو!
یہ ان بہت سے جملوں میں سے چند ہیں جو فیلڈ میں ہمارے صحافی بھائیوں کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں صحافت ایک مقدس پیشہ ہونے کے بجائے طاقت کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھی جانے لگی ہے۔ ہم میں سے بہت سے دوست (معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ تقریباسبھی دوست) یہی سوچ کر اس میدان میں آتے ہیں کہ وہ صحافی بن کر استثنیٰ نامی وہ سلیمانی ٹوپی حاصل کر لیں گے جس کے بعد وہ اخلاقی تقاضوں اورقانون نامی”بلاؤں“ سے ”محفوظ“ رہ سکیں گے۔ ان سے پوچھ گچھ کرنے کی اول تو کسی میں ہمت نہ ہوگی، اوراگر ہوئی بھی تو اس جادوئی ٹوپی کی موجودگی میں وہ ان کے سامنے سے ”گدھے کے سر سے سینگ“ جیسے غائب ہوجائے گا۔
سرکاری عمارات ہوں یا حساس مقامات
جلسے جلوس ہوں یا کسی کا گھر
خوشی کی تقریب ہویا کوئی حادثہ
ان کو استثنیٰ حاصل ہوگا کہ جو جی میں آئے کرتے پھریں اور باز پرس یا اخلاق و ضابطے سے بالکل ماورا ہوں۔
فیلڈ والوں کو چھوڑیں، ڈیسک اور ٹیکنکل والے بھی کچھ کم نہیں ہوتے، وہ بھی بارہا اپنے طرزعمل سے اس پیشے اور ادارے کی ”نیک نامی“ میں مزید اضافے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔
آج کل ایک واقعہ کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے جس میں ایک ”مظلوم“ خاتون صحافی کو ایک ”ان پڑھ جاہل اور ظالم“ مرد گارڈ نے اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکتے ہوئے تھپڑ جڑ دیا۔ وہ ویڈیودیکھنے، باربار دیکھنے کے باوجود بھی میں اس میں سےگارڈ کی کوئی خاص غلطی نہیں نکال سکا، سوائے اس کے کہ اس نے تھپڑ ہی کیوں مارا۔
میں احترام عورت کا قائل اور حقوق نسواں کا علمبردار بھی ہوں، لیکن احترام آدمیت کی قیمت پر نہیں۔
واقعہ کی ویڈیو
یہ ویڈیو کسی انفرادی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی طرز عمل کی عکاس ہے جو اس فیلڈ سے وابستہ افراد میں کسی سرطان کی طرح سرایت کرچکا ہے۔ اس پر لکھنے اور بولنے کو بہت کچھ ہے لیکن اپنی کم علمی، مضمون کی طوالت اور عوام کی سہولت کےلیے صرف اسی واقعہ پر توجہ مرکوز رکھناچاہتا ہوں۔ سو اس تازہ ترین واقعہ کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ ان محرکات پر نہ صرف غور کیا جائے بلکہ اس کے سدباب کےلیے اقدامات بھی اٹھائے جائیں۔
پہلا محرک: صحافت میں کمرشل ازم کی آمد
اس کو بلیک میلنگ، پراپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سوچ نے جہاں صحافت کو تباہ کر کے رکھ دیا وہاں اس سے وابستہ افراد (چیف سے لےکر ڈرائیورتک) میں مجرمانہ سوچ کوفروغ دیا۔ زرد صحافت، بلیک میلنگ اور فوائد کے نام پر رشوت ستانی جیسی برائیاں اس فیلڈ کا جزولاینفک بن کر رہ گئیں.
دوسرا محرک: مؤثرنگرانی کافقدان، سرکاری اداروں کی مجرمانہ چشم پوشی
اس محرک نے صحافت کو بگاڑنے میں سب سے کلیدی کردار ادا کیا، کیوں کہ جس طرح انسان بنیادی طور پر لالچی اورگناہ کی طرف جلد مائل ہونے والا ہے، ادارے بھی اسی طرز پر کام کرتے ہیں۔ صرف مؤثر نگرانی اور تعزیر کا خوف ہی ان کو کسی غلط کام سے روک سکتا ہے۔ نگرانی نہ ہونے سے مقدس پیشہ اور ریاست کا چوتھا ستون کہلانے والے ادارے وہ جونکیں اورگدھ بن گئے جو صرف اپنا پیٹ بھرنے کےلیے دوسروں کاخون پینے اور کسی کو مارنے میں قعطاً کسی ہچکچاہٹ کاشکار نہیں ہوتے۔ اس میں سراسر قصور انتظامیہ اور حکمرانوں کا ہے۔
تیسرامحرک: تنخواہوں کی عدم ادائیگی یااس میں تاخیر
یہ محرک ان بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس نے صحافی کو عزت کی بلند مچان سے گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میدان صحافت میں موجود بہت سے ادارے یا تو ورکرز کو تنخواہیں سرے سے ادا ہی نہیں کر رہے یا پھر ان میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے کہ ورکرز کے گھر فاقہ کشی کی نوبت آ جاتی ہے۔ ایسے میں اخلاقی اقدار اور پیشہ وارانہ اصولوں کی پاسداری دیوانے کاخواب بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ کہیں اپنی ”صحافت“ بیچنے پہ مجبور ہوتے ہیں تو کہیں ”بدمعاشی“ دکھاکر ”پیسے“ پورے کرتے ہیں۔ یہی وہ محرک ہے جس کے تحت کم پڑھے لکھے (سرے سے ان پڑھ بھی شامل کرلیجیے) افراد بھی اس پیشے کاحصہ بنے اور پھر اپنا آپ خوب دکھایا۔
چوتھامحرک: تربیت کی کمی، احتساب کافقدان
میڈیا کے اداروں میں پروفیشنل ازم کا فقدان تو ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنے ورکروں کی ذہنی و عملی استعداد بڑھانے کے لیے تربیت نامی چڑیا کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ پرانے ورکرز کے لیے ریفریشر کورسز تو دور، نئے آنے والےساتھیوں کو بھی کسی قسم کی عملی تربیت نہیں دی جاتی۔ زیادہ تر ادارے ویسے ہی نوآموز طلبہ کو لے کر اپنے پیسے بچانے کے چکر میں لگے ہیں جس کا نتیجہ نت نئے ”بھنڈ“ کی صورت میں نظر آتا رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ رپورٹرز نامی مخلوق میں احتساب نامی ڈنڈے کا خوف بھی ناپید ہو چکا ہے۔ وہ کسی نوعیت کی بھی غلطی کر لے، اسے کسی نوعیت کی سزا کا ڈر نہیں ہوتا (نہ محکمانہ نہ ہی اس کا جس کےخلاف وہ غلط خبر دی گئی ہو)۔ کسی سنگین غلطی کی صورت میں بھی زیادہ سےزیادہ ادارے ایک لفظ ”معذرت“چھاپ کر ”گنگا“ نہاجاتے ہیں۔
ان محرکات کے علاوہ بےشمار دیگر وجوہات بھی ہیں جو اس پیشے کی تنزلی کی بنیاد ہیں۔ ان تمام محرکات کو روکنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے اور کیا کیا جا چکا ہے۔ اس پہ بحث کرنا یہاں ممکن نہیں کیوں کہ یہ ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے اور اپنے بس سے باہر بھی۔ مسائل کی نشاندہی کرنا پہلا اور بنیادی قدم ہے جس کے بعد ہی اس کے حل کی نوبت آتی ہے، سو میں نے اپنے تئیں کچھ باتیں بیان کردی ہیں، اب میں اپنے ”صاحب اقتدار“ صحافی دوستوں سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس کےسدباب کے لیے اپنی اپنی سطح پر اقدامات اٹھائیں، بصورت دیگر اپنے حصے کا تھپڑ کھانے کے لیے تیار رہیں۔ اور ضروری نہیں کہ آپ کو یہ عزت کسی گارڈ کے ہاتھوں ہی ملے، وہ کوئی چپڑاسی بھی ہوسکتا ہے۔
(حسن تیمور جکھڑ دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، 92 نیوز میں اسائنمنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں)
تبصرہ لکھیے