اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1) ’’اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ اُن کا (آخری) ٹھکانا کیا ہے؟ (الشعراء: 227)‘‘۔
(2) ’’جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش! ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا، تو انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا، اے ہمارے پروردگار! انہیں (ہم سے) دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما (الاحزاب:66-68)‘‘۔
(3) ’’اور متکبرین نے (اپنے عہد کے) بےبس لوگوں سے کہا: تمہارے پاس ہدایت آنے کے بعد کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا، بلکہ تم (خود ہی) مجرم تھے (سبا:32)‘‘۔
(4) ’’اور جب اہلِ جہنم آپس میں جھگڑا کریں گے، تو کمزور لوگ (اپنے عہد کے) متکبرین سے کہیں گے، ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، کیا (آج) تم جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے ہمارے کسی کام آؤگے؟، (المؤمن: 47)‘‘۔
حدیثِ پاک میں ہے:
’’سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے ( میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مشرکوں سے قتال کر رہا ہے اور وہ (بظاہر) مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس شخص کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا، سو اُس نے (تکلیف سے بے قرارہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دوشانوں کے درمیان سے نکل گئی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہل جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا (بخاری:6493)‘‘۔
اس کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:
اس سے پہلی حدیث میں مذکورہے: اُس شخص نے اپنے تَرکش سے تیر نکال کر ُاس سے اپناگلا کاٹ ڈالا اور اس حدیث میں مذکور ہے: اُس نے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اُس پر گرادیا حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے آر پار ہوگئی۔ سو ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے: ہو سکتا ہے کہ اُس نے پہلے تیر سے اپناگلا کاٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اس پر گرا دیا ہو۔ یہ تاویل اُس صورت میں ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعے سے متعلق ہوں اور اگر یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، تو پھر کوئی تعارض نہیں ہے (عمدۃ القاری ج 23 ،ص:236)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُس وقت کو یاد کرو جب آ پ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُن کو خود اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟، اُن سب نے (یک زبان ہوکر) کہا: کیوں نہیں! (یقینا تو ہمارا رب ہے)، (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مبادا تم (کل) قیامت کے دن یہ کہہ دو کہ ہم اس سے بے خبر تھے، (الاعراف:172)‘‘۔
ایک حدیث میں ہے: حضرت عمر بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حدیث کی بابت فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو میں نے جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ جنت کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے ‘‘۔ اس پر ایک شخص نے عرض کی: (اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے) تو عمل کی کیا حیثیت ہے؟، (حضرت عمر بیان کرتے ہیں:) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اُس سے اہلِ جنت کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جنت ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے اور اُس کے سبب اُسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے اور جب اللہ بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے، تو اُس سے جہنمیوں کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جہنم ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے، سو اُسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے ،(موطا امام مالک:3337)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور تقوے پر کاربند رہا اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا، تو بہت ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے ،(اللیل:5-7)‘‘۔ یعنی بندے کی مخلصانہ مساعی بار آور ہوں گی۔ اسی مفہوم کو ایک اور حدیث میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’ہر ایک کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! تو کیا ہم صحیفۂ تقدیر پر توکّل کرتے ہوئے عمل سے دست بردار نہ ہوجائیں؟، آپ ﷺ نے فرمایا: تم (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) نیک کام کیے چلے جاؤ، جسے جس جبلّت پر پیدا کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس منزل کے حصول کی خاطر اُس کے لیے آسانیاں مقدر فرمادیتا ہے (بخاری :4949)‘‘۔
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تقدیر کی بابت سوال ہوا، تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تاریک راستہ ہے، اس پر نہ چلو( بھٹک جاؤ گے)، یہ گہرا سمندر ہے، اس میں غوطہ نہ لگاؤ( غرق ہوجاؤگے)، یہ اللہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے، اپنے آپ کو اس کے جاننے کا پابند نہ بناؤ(گمراہ ہوجاؤگے)‘‘۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ اور شریعتِ مطہرہ کے احکام پر کاربند رہنا چاہیے، کیونکہ اُنہیں اسی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ تقدیر ایسا امر ہے جس کی حقیقت جاننے کا مسلمانوں کو پابند نہیں بنایا گیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا مشاہدہ کرتے، لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔ فتحِ بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اکابر صحابۂ کرام سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: اِس موقع پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: (عمر!) اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟، حضرت عمر نے فرمایا: ’’ اے ابوعبیدہ! کاش کہ یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی (یعنی یہ بات آپ کے شایانِ شان نہیں ہے) ، کیونکہ حضرت عمر اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے، پس انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہا ہوں۔ اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمن بن عوف وہاں تشریف لائے اور کہا: ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسول اللہ ﷺ کی ہدایت موجود ہے، آپ ﷺنے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور جس بستی میں یہ وبا آجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو، تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: یہ حدیث سُن کر حضرت عمر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے‘‘۔ نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث:2219 میں بیان کردہ طویل روایت کاخلاصہ ہے۔
واضح رہے کہ طاعون (Plague) ایک متعدّی (Infectious) بیماری ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا گیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے، بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ’’لا عَدْویٰ‘‘ (کوئی بیماری متعدی نہیں ہے )، اس پر محمول ہے کہ بیماری کا متعدی ہونا اسباب میں سے ہے، مگر اسباب کی تاثیر مُسَبِّبُ الاَسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر بیماری کی تاثیر ذاتی ہو تو جس جگہ وبا پھیل جائے، کوئی انسان نہ بچ پائے اور اگر دوا میں ذاتی شفا ہو، تو اُس دوا کے استعمال سے ہر بیمار شفا یاب ہوجائے، حالانکہ ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ پس ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت پر موقوف ہے۔ صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ! ہمارے اونٹ ریگستان میں ہرنیوں کی طرح اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اونٹ اُن میں اچانک داخل ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے سب کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو بیماری کہاں سے لگی؟ (بخاری:5770)‘‘۔ یعنی اسباب کی تاثیر اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔
رہا یہ سوال کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ طاعون زدہ بستی سے کوئی باہر نہ جائے، اگر سبھی صحت مند لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بستی سے نکل کر باہر چلے جائیں تو وبا میں مبتلا لوگوں کا علاج کون کرے گا؟ اور قضائے الٰہی سے جن کی موت واقع ہوجائے، اُن کی نمازِ جنازہ، تکفین اور تدفین کا انتظام کون کرے گا؟، کیونکہ یہ امور بھی شریعت کی رُو سے لازم ہیں اور اسلامی معاشرے پر بحیثیتِ مجموعی فرضِ کفایہ ہیں۔
تبصرہ لکھیے